بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
درسِ قرآنِ حکیم ازمفکر قرآن علامہ غلام احمد پرویزؒ
دوسرا باب: سورۃ ابراھیم (14) آیات(6 تا 12)
عزیزانِ من! آج نومبر 1974ء کی 17 تاریخ ہے’ اور درسِ قرآنِ کریم کا آغاز سورۃ ابراھیم کی پانچویں آیت سے شروع ہوتا ہے: (14:5) ۔
آپ کو یاد ہوگا پچھلے درس میں اس سورۃ کے آغاز میں کہا یہ گیا تھا’ کہ قرآنِ کریم کے نازل کرنے کا مقصد یہ ہے لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ (14:1) تاکہ یہ نوعِ انسانی کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آئے ۔ چار الفاظ’ اور میں سمجھتا ہوں’ کہ کائنات کے چاروں گوشے سمٹ کر اس میں آجاتے ہیں ۔ اتنی جامعیت کے ساتھ یہ بات کہی گئی ۔ تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آئے ۔ اور میں نے پھر آپ کو بتایا تھا’ کہ اس باب میں خود مسلمانوں سے’ جماعتِ مؤمنین سے’ یہ کہا گیا کہ هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ وَمَلَائِكَتُهُ لِيُخْرِجَكُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ (33:43) خدا اور اس کے فرشتے تم پر ‘ جماعتِ مؤمنین پر ‘ ( عام ہمارے ہاں جو مروجہ ترجمہ ہے ) درود بھیجتے ہیں ۔ اور یہ تو میں آگے چل کے بتاؤں گا’ جہاں یہ آیتیں آئیں گی’ کہ یہ درود بھیجنا کیا چیز ہے ۔ جو ترجمہ ہمارے ہاں کیا جاتا ہے’ ’’درود بھیجنا ‘‘ یہ بات ہے کیا ؟ لیکن اس سے ہوتا کیا ہے’ یہ تو یہیں ہمارے سامنے بات آگئی’ کہ خدا نے یہ کتاب نازل کی’ تاکہ وہ انسانیت کو تاریکیوں سے روشنی کی طرف لے آئے ۔ جہاں ہر شے اپنے اپنے مقام پر صحیح نظر آجائے’ کہ سانپ سانپ ہے’ اور رسی رسی ہے ۔ خدا اور اس کے ملائکہ جماعتِ مؤمنین کے ساتھ کچھ ایسا کرتے ہیں يُصَلِّي عَلَيْكُمْ(33:43) تاکہ وہ تاریکیوں سے روشنی میں آجائیں ۔ تو خود خدا اور اس کے ملائکہ بھی یہ کچھ کر رہے ہیں جماعتِ مؤمنین کے لیے’ کہ وہ تاریکیوں سے روشنی میں آجائیں ۔ گفتگو یہاں تک آپ نے دیکھا’ کہ نظری ہو رہی ہے’ Theoratical سی وہ جسے کہتے ہیں’ Abstract Talk ہو رہی ہے ۔ محسوس طور پہ بات نہیں سامنے آ رہی’ کہ تاریکیوں سے روشنی میں نکالنے کا یہ کیا پہلو ہے’ جو قرآن سامنے لایا ہے۔ قرآن کا انداز یہ ہے’ کہ وہ اپنے اس قسم کی بسیط حقیقتوں کو ‘ یہ جو Abstract Truth ہوتے ہیں ‘ ان کو سب سے پہلے جو محسوس انداز میں پیش کرتا ہے’ تو تاریخی شہادتیں اس کے لیے لاتا ہے ۔ اور سب سے اہم بہترین طریق یہ ہے سمجھانے کا’ کہ فلاں قسم کا اصول ‘ قانون ‘ قاعدہ ‘ قدر ‘ اگر اس پہ عمل کیا جائے’ تو کیا نتیجہ مرتب ہوگا ۔ اب قومِ مخاطب جو ہے’ اسے تو کہا جاتا ہے’ کہ تم ایسا کرو گے’ تو ایسا ہوجائے گا ۔ اور یہ بات تو اس وقت سامنے آئے گی’ جب وہ ایسا کرے گی ۔ سب سے پہلے تو اسے یہ یقین دلانا ہے’ کہ تم ایسا کرو گے’ تو ایسا ہوجائے گا ۔ ہم دیکھ چکے ہیں’ اس سے پہلے سورۃ یونس میں قرآن نے بتایا تھا’ کہ اس کے تو تین طریقے ہوتے ہیں ۔ یا تو انسانیت کی علمی سطح اتنی اونچی ہوجائے’ کہ وہ علمی طریق پہ یہ بات سمجھ لیں’ کہ جو کہا جا رہا ہے واقعی صحیح ہے ۔ اور دوسرا اس نے کہا تھا یا پھر اقوامِ سابقہ کی تاریخ کو دیکھ لیا جائے’ کہ جس قوم نے اس کے مطابق زندگی بسر کی’ اس کا نتیجہ کیا نکلا ‘ جس نے ان سے انحراف برتا’ اس کے نتائج کیا ہوئے ۔ نہایت اہم طریق ہے یہ بات کے سمجھانے کا ۔ اور تیسرا طریق یہ ان سے کہا تھا’ کہ ان سے کہو کہ پھر انتظار کرو ‘ ہمیں اتنی سی مہلت دو’ کہ ہم یہ نظام عملاً یہاں متشکل کرلیں’ اس کے نتائج سے تم دیکھ لینا’ کہ جو دعویٰ کیا جاتا ہے’ وہ ٹھیک ہے یا نہیں ۔ کتنے اہم طریق ہیں جو قرآن یہ بتا رہا ہے’ ہر چیز دلیل و برہان کی رو سے بتا رہا ہے ۔ اب یہاں یہ دعویٰ کیا گیا’ کہ ان اقدارِ سماوی پر عمل پیرا ہونے کا نتیجہ یہ ہے’ کہ قوم تاریکیوں سے روشنی میں آجاتی ہے ۔ کیا معنی تاریکیوں کے ‘ کیا مطلب روشنی کا؟ تو وہ فوراً آگے اس نے تاریخی شہادت پیش کی ہے’ وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَىٰ بِآيَاتِنَا أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ (14:5) وہی الفاظ آگئے ۔ ہم نے موسٰیؑ کو اس کی قوم کی طرف بھیجا ۔ اور یہ قرآن نے بتایا ہے’ کہ جہاں تک دین کے اصولوں کا تعلق ہے’ وہ شروع سے آخر تک ایک ہی رہے ہیں ‘ حقائق یا صداقتیں تو ابدی ہوتی ہیں ۔ حضرتِ نوحؑ سے لے کر رسول اللہﷺ تک ہر نبی کو قرآن کہتا ہے’ وہی دین دیا گیا تھا ‘ اصولی اعتبار سے وہی اقدار ‘ وہی قوانین ۔ تو حضرتِ موسٰیؑ کی مثال پیش کی’ کہ اسے اس کی قوم کی طرف بھیجا ۔ اور یہی الفاظ دہرا دیے’ کہ وہ انہیں تاریکیوں سے روشنی کی طرف لے آئے ۔ اب اس کے بعد تفصیل آتی ہے’ اس قوم کی تاریخی نوشتوں کی ۔ کہا وَذَكِّرْهُم بِأَيَّامِ اللَّـهِ (14:5) میں نے بتایا تھا’ کہ عربوں کے ہاں یہ ایام کا لفظ ویسے تو تاریخ کے لیے بولا جاتا ہے ‘ ایام الاعرب کے معنی ہوتا ہے’ عرب کی تاریخ’ لیکن وہ عام طور پر تاریخ میں’ وہ عظیم واقعات جن کی یاد قائم رکھنی ضروری ہو’ ان کے لیے یہ لفظ بولا کرتے ہیں ۔ تو قرآن نے کئی ایک مقام پر’ یا یہاں خاص طور پر’ ’’ایام اللہ‘‘ کہا ہے ۔ وہ تو قوموں کی تاریخ ہوئی ‘ یہ خود دن خدا کے’ یعنی خدا کا تو ہر دن خدا ہی کا ہے’ لیکن تاریخ کے کسی دور میں جب حق اور باطل میں ٹکراؤ ایسا ہوا ہو’ کہ حق محسوس طور پر غالب آگیا ہوا ہو’ تو اسے قرآن نے ’’ایام اللہ‘‘ کہہ کے پکارا ہے ‘ نظامِ خداوندی کی تاریخ جس میں اسے غلبہ حاصل ہوا ہو ۔ تو کہا کہ انہیں ’’ایام اللہ‘‘ کی یاد دلاؤ ۔ اور اس میں یہ بات ہوئی قومِ بنی اسرائیل کی داستانِ غلامی اور آزادی اور عروج اور زوال اورموت اور حیات کی داستان ۔ اسے ’’ایام اللہ‘‘ کہا ۔ خاص طور پہ جو سب سے پہلا تصادم اور ٹکراؤ صاحبِ ضربِ کلیمؑ کا فرعون اور اس کے جنود کے ساتھ ہوا تھا ۔ کہا یہ اس لیے یاد دلاؤ ‘ یہ نہیں کہ تاریخ ہے’ اس کا سبق وہاں پڑھاؤ ‘ انہوں نے پھر امتحان دینا ہے ‘ اس میں یہ انہوں نے پاس مارکس حاصل کرنے ہیں ‘ یہ کوئی کہانیاں ہیں’ جو بچوں کو رات کو نانی اماں سنایا کرتی ہیں’ تاکہ بچے سو جائیں ۔ قرآن تو تاریخی شواہد پیش کرتا ہے’ کہ قومِ مخاطب جو ہے’ وہ ان کے مطالعہ سے سمجھ لے’ کہ ایسے نظام کا فطری نتیجہ یہ ہوا کرتا ہے ۔ اسی لیے وہ ساتھ اس نے کہہ دیا’ کہ یہ اس لیے تاریخ کی ان شہادتوں کو ان کے سامنے پیش کرو کہ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ (14:5) لِّكُلِّ کہ بات تو یہ بنی اسرائیل کی ہو رہی ہے’ لیکن یاد رکھیے! یہ نہ تو خاص اس زمانے سے محدود ہے’ نہ اس قوم تک سے مخصوص ۔ دنیا میں جو قوم بھی استقامت سے کام لے گی’ صَبَّار یہ مبالغے کا صیغہ ہے’ بہت زیادہ استقامت سے ۔ تو نظر آیا کہ ’’ایام اللہ‘‘ ایک ایسے ٹکراؤ کا نام ہے’ کہ جس میں بڑے ہی استقامت اور بڑی ہی مستقل مزاجی کی ضرورت پڑتی ہے ۔ بہت زبردست ٹکراؤ پھر ہوتا ہے’ جس میں استقامت کی ضرورت ہوتی ہے’ شَكُور اور اس انداز سے محنت کرنے کی’ کہ وہ بھرپور نتائج پیدا کردے ۔ شکر کے یہ معنی ہوتے ہیں ۔ آپ نے دیکھا کہ اتنی بڑی عظیم انقلاب کی داستان قرآن سامنے لا رہا ہے’ اور اس کا مقصد بتا رہا’ کہ ہر صبار و شکور قوم کے لیے اس میں حقیقت تک پہنچنے کی بہت بڑی نشانیاں ہیں ۔ وہ سمجھ سکتی ہے’ کہ واقعی اس کے نتائج یہ نکلیں گے ۔ آپ نے دیکھا صبار و شکور اور پھر آپ نے دیکھا’ کہ پھر کس طرح ان الفاظ کے معنی بدلتے ہیں ۔ صبر ‘ شکر دونوں ہی لفظ ہمارے ہاں استعمال ہوتے ہیں’ اور پھر اس کے معنی تو آپ کو پتہ ہے آج کل کیا ہوتا ہے؟ صبر شکر ہمارے ہاں وہاں بولتے ہیں جہاں بے بسی کا انتہائی درجہ پہنچ گیا ہو’ جہاں کچھ نہ ہوسکتا ہو ‘ ہاتھ پاؤں توڑ کے آدمی بیٹھ جائے ‘ انتہائی مایوس ہوجائے’ اور اس کے بعد کہے کہ ’’اچھا! میرا صبر شکر میں ہور کی کرسکنی آں ‘‘ ۔ عام طور پہ یہ محاورہ ہمارے ہاں عورتوں کے ہاں ہوتا ہے’ اور ہمارے معاشرے میں وہی زیادہ بے بس ہوتی ہیں ۔ تو یہ اندازہ لگایے یہ صَبَّارٍ شَكُورٍ (14:5)قرآن میں کہاں آیا ہے’ کہ اس ٹکراؤ میں کس طرح سے وہ قوم کہ جو ثبات و استقامت سے کام لیتی ہے’ اور اس انداز سے محنت کرتی ہے’ کہ اس کی محنتیں بھرپور نتائج پیدا کریں ۔ ان کے لیے حقیقتِ حال کو سمجھنے کے لیے بہت بڑی نشانیاں ہیں ‘ علامتیں ہیں ۔ اب آئی وہ بات سامنے ۔ وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ (14:6) اب دیکھئے گا تاریکیاں کیا ہوتی ہیں اور روشنی کیا ہوتی ہے ۔ یہ واقعات پہلے گزر چکے تھے’ اور بعد میں وادیٔ سینا میں پہنچ کے جو دوسری منزل ان کی شروع ہوئی ہے’ وہاں کی بات قرآن شروع کرتا ہے’ کہ یہ واقعات پہلے ہوچکے تھے ۔ ان سے کہا کہ تم یاد کرو اپنی اس زندگی کو جب تم فرعون کی غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے أَنجَاكُم (14:6) وہاں سے تمہیں نجات دی خدا نے ۔ مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ (14:6) یہ يَسُومُونَكُمْ عجیب لفظ ہے’ اس کے معنی ہوتا ہے’ ڈھونڈ کے کچھ اس قسم کی سزائیں تجویز کرنا ‘ ڈھونڈ ڈھونڈ کے تباہیاں لانا ‘ تلاش کرکے ایک ایک چیز جو ہے اس کو لانا ۔ بد ترین قسم کی تباہیاں ‘ عذاب ‘ تمہارے اوپر وہ لاتا تھا’ ڈھونڈ ڈھونڈ کر’ تلاش کرکے ۔ اچھا جی! کیا تھا یہ عذاب ؟ کیا کرتا تھا؟ یہ سب سے بڑا عذاب تو تمہیں پتہ ہے وَيُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ (14:6) اب یہاں سے سیاستِ ملوکیت شروع ہوئی’ کہ یہ ملوکیت یہ ڈکٹیٹر شپ انسانوں کا انسانوں پہ حاکم ہونا’ وہ غالب انسان ‘ صاحبِ اقتدار جماعت’ وہ کرتی کیا ہے؟ کہ یہ جو قومِ محکوم ہوتی ہے’ اس میں جن انسانوں میں وہ دیکھتی ہے’ کہ ذرا سرفرازی کی علامت ہے ‘ جوہرِ مردانگی پائے جاتے ہیں ‘ خودداری ہے ‘ حمیت ہے ‘ غیرت ہے ‘ احساس ہے اس چیز کا ‘ انسانیت کا’ تو وہ اس کے لیے باعثِ خطرہ نظر آتے ہیں’ تو ایسے افراد کو وہ کچل کر رکھ دیتا ہے ۔ یہ کئی دفعہ یہ واقعہ چونکہ آچکا ہے’ ہر بار تفصیل کی ضرورت نہیں ۔ کہ جو وہ مشہور ہے’ کہ فرعون پیدا ہونے کے ساتھ ہی بنی اسرائیل کے لڑکوں کو ذبح کردیا کرتا تھا’ قتل کردیا کرتا تھا’ اور لڑکیوں کو زندہ رکھتا تھا ۔ بات یہ نہیں ہے ۔ وہ تورات کے افسانے ہیں ۔ قرآنِ کریم نے ابنائے قوم کہا ہے ‘ آج بھی ہم ابنائے قوم بولتے ہیں ۔ قوم کے جو بڑے بڑے لوگ ہوتے ہیں’ ان کے لیے یہ لفظ آتا ہے ۔ تو وہ اس قوم میں جو لوگ ایسے نظر آتے تھے’ کہ جن میں وہ دیکھتا’ کہ کچھ انسانیت کے مضمر جوہر ہیں’ اور ان میں کچھ خودداری کی نمود ہے’ تو وہ فوراً ان کو کچل کے رکھ دیتا ۔ يُذَبِّحُون کے معنی سچ مچ ذبح کردینا نہیں ہے ‘ قتل اور ذبح کے معنی کسی کو غیر مؤثر بنا دینا’ اس میں یہ سب سے پہلا معنی ہوتا ہے ‘ اس کو Ineffective کر دینا ۔ ذلیل و خوار کر دینے کے معنی میں آتا ہے ‘ تعلیم و تربیت سے محروم کر دینے کے معنوں میں آتا ہے ۔ تو وہ کرتا یہ تھا’ کہ جہاں جہاں کسی میں دیکھا’ کہ کچھ جوہرِ مردانگی پائے جاتے ہیں’ اور مستقبل کے لیے یہ خطرے کا موجب ہوسکتا ہے’ وہیں اس کو کچل دیتا تھا ۔ ذلیل و خوار کر دینا جیسا میں نے یہ کہا ہے ‘ آگے بڑھنے کے مواقع کو روک دینا ‘ ہزار تدبریں ہوتی ہیں ۔ تفصیل میں قرآن نہیں جاتا’ وہ ایک لفظ کہہ دیتا ہے’ کہ وہ ان کے ابنا کو غیر مؤثر بنا دیتا تھا ‘ ذلیل و خوار کر دیتا تھا ‘ ابھرنے کے مواقع ان کو نہیں دیتا تھا ۔ اور جن لوگوں میں اس محکوم قوم کے جو افراد ان خصوصیاتِ مردانگی اور حمیت سے عاری ہوتے تھے’ انہیں وہ آگے بڑھایا کرتا تھا ۔ بات ہو رہی ہے’ شاید آج سے چار ہزار سال پہلے کی ‘ داستان آج کی معلوم ہوتی ہے ۔ جیسا میں نے کہا ہے’ نہ یہ جو حقائقِ خداوندی ہیں’ وہ کوئی نئے نرالے یا بدلنے والے ہوتے ہیں ‘ یہ بھی ابدی حقیقتیں ہوتی ہیں ۔ اور اس کے ساتھ ساتھ یہ جو باطل آتا ہے’ وہ بھی ایک ابدی حقیقت بن جاتا ہے ۔ بھیس بدل بدل کے آتا ہے ‘ نام بدلتے ہیں ‘ اصطلاحیں بدلتی ہیں ‘ طریقے بدلتے ہیں ‘ تکنیک بدلتی ہے ‘ مقاصد وہی رہتے ہیں ۔ مستبد قوم ہو یا حاکم ہو ‘ صاحبِ اقتدار ہوں’ ان کا پہلا مقصد یہ ہوتا ہے’ کہ جن پر وہ حکومت کر رہے ہیں’ ان میں ایسے افراد ابھرنے نہ پائیں’ جو ان کے لیے موجبِ خطرہ بن جائیں ۔ ساری تاریخ اسی سے بھری پڑی ہے ۔ یہی چیز ہے ابنا کا ذبح کرنا’ اور نِسَاء کا زندہ رکھنا ۔ یہ چیز وہ کرتا تھا ۔ پھر سورۃ قصص میں ہے’ کہ وہ کرتا یہ تھا’ کہ اس قوم کو پارٹیوں میں تقسیم کر دیتا تھا ۔ اور پارٹیوں کو کبھی ایک کو اوپر چڑھاتا تھا’ کبھی دوسری کو نیچے اتارتا تھا’ پھر اِسے اوپر لے آتا تھا ۔ اس طرح سے ان کو ایک دوسرے سے لڑاتا رہتا تھا ۔ اور یوں بھی ان کے ہاں کے جو اس قسم کے جوہرِ قابل ہوتے تھے’ ان کو باہمی ٹکراؤ سے ہی پاش پاش کر دیتا تھا ۔ آپ دیکھئے گا’ کہ تاریکیاں کیا ہیں ۔ دیکھ رہے ہیں’ قرآن کیسے تاریکیوں کی تفصیل دیے جا رہا ہے ۔ إِذْ أَنجَاكُم (14:6) خدا نے تمہیں اس سے نجات دی ۔ تو گویا یہ وہ تاریکی تھی سب سے پہلے’ جہاں سے نکال کے وہ روشنی میں لے آیا ۔ اور آگے جا کے وہ بتائے گا’ کہ جب پھر حضرتِ موسٰیؑ کے ساتھ یہ صحرائے سینا میں آئے ہیں’ تو پھر ان کی مناسب تعلیم و تربیت سے’ کیا کیا چیزیں حاصل ہوئیں ۔ وہ تو آگے بات آئے گی’ یہاں تو پہلا قصہ جو ہے’ تاریکی سے نکالنے کی بات یہاں سے وہ شروع کرتا ہے ۔ وَفِي ذَٰلِكُم بَلَاءٌ مِّن رَّبِّكُمْ عَظِيمٌ (14:6) یہ لفظ بَلَاءٌ آیا ہے ۔ اور یہ ہے کہ تم ایک بہت بڑی بلا میں گرفتار تھے ۔ میں نے لفظ بھی وہی استعمال کیا ہے ۔ لیکن یہاں تو مِّن رَّبِّكُمْ عَظِيمٌ آیا ہے’ تو بلا کے معنی اگر یہی لیے جائیں’ جس کو ہم مصیبت کہا کرتے ہیں’ تو خدائے عظیم یہ کیا کرتا ہے ‘ وہ بلائیں بھیجا کرتا ہے! آپ دیکھیے گا کہ ایک لفظ جو ہے’ اس کا غلط مفہوم ‘ غلط ترجمہ ‘ غلط استعمال’ پھر کہاں سے کہاں بات لے جاتا ہے ۔ عربی زبان میں یہ لفظ انہی معنوں میں نہیں آتا ۔ اس کے معنی ہوتے ہیں ’’پہلو بدلنا‘‘ ۔ بنیادی معنی ہیں پہلو بدلنا ‘ گردش دینا ۔ قرآنِ کریم میں بَلَاءٌ مُّبِينٌ (44:33) بھی آیا ہے بَلَاءً حَسَنًا (8:17)بھی آیا ہے ۔ کسی قوم کے پہلو بدلنا ‘ اسے گردش دینا ۔ گردشوں کے اندر ایسا بھی ہوتا ہے’ کہ قوموں کو عروج بھی ملتا ہے ‘ دوسری طرح کی گردش آتی ہے’ تو پھر ان کو زوال ملتا ہے ۔ یہ زوال بھی ایک بلا ہوا ‘ ایک پہلو ہوا اس قوم کا اور اس پہلو کو بدلا ہے’ تو اگر وہ خوشگواریوں میں آگئی ہے’ تو یہ بھی بلا کہلاتا ہے ۔ یہ ہمارے ہاں کی تو وہ بلا ‘ بلا ہی ہوتی ہے ۔ اگرچہ وہ آغا حشر نے ایک ناول لکھا تھا وہ ڈرامہ ’’خوبصورت بلا‘‘ لیکن وہ تو بہرحال بات ہی اور تھی ۔ بلا ہمارے ہاں لفظ بولا ہی جاتا ہے’ بلا کے لیے تو بلا تو آپ جانتے ہیں’ مصیبت سے بھی بہت آگے ہوتی ہے’ وہ تو کوئی بھوت چڑیل جیسی کوئی چیز ہوتی ہے ۔ یہاں سے پھر آگے لفظ آیا ’’ابتلا‘‘ ۔ ابتلا کا ترجمہ ہوا آزمائش ۔ پھر آگے بات چلی کہ خدا آزماتا رہتا ہے بندوں کو ۔ یا اللہ! آزمائشوں میں ڈالتا رہتا ہے خدا ۔ اندازہ لگایے ۔ عزیزانِ من! میں نے بنیادی چیز عرض کی تھی’ کہ قرآن نے کیا یہ ہے کہ ایک تو خدا کا صحیح تصور آپ کو دیا ہے ۔ بنیادی تعلیم قرآن کی ‘ جس میں یہ ممتاز نظر آتا ہے’ دیگر مذاہب سے’ یا ان کی طرف منسوب کتابوں سے’ کہ یہ خدا کا صحیح تصور دیتا ہے ۔ اور اگر خدا کا صحیح قرآن تصور ذہن میں آجائے’ تو سمجھ لیجیے پورا دین سمجھ میں آجاتا ہے ۔ اور دوسرے یہ کہ یہ انسان کا مقام متعین کرتا ہے ‘ اس کو اس کے صحیح مقام سے روشناس کرتا ہے’ کہ مقامِ انسانیت کیا ہے ۔ اور یہ بات جب سمجھ میں آجاتی ہے’ تو پھر انسان اپنے آپ سے واقف ہوجاتا ہے ۔ خدا کے صحیح Concept سے’ خدا کے متعلق صحیح تصور آتا ہے’ اور مقامِ انسانیت جو قرآن نے دیا ہے’ وہ سامنے آجائے تو خود شناسی اس میں آجاتی ہے ۔ اسی کو اقبالؒ کی اصطلاح میں خودی کہتے ہیں ‘Self Consciousness اس کو کہتے ہیں ۔ بس یہ دو باتیں ہیں’ جو قرآن کی ساری تعلیم کا محور ہیں ۔ تو ابتلا جسے ہم کہتے ہیں’ اس میں معنی لیے جاتے ہیں’ خدا آزمائشوں میں ڈالتا ہے ‘ آزماتا رہتا ہے’ دیکھتا ہوں کیسے کرتے ہو! آپ دیکھتے ہیں اس سے کیا تصور قائم کیا ہوتا ہے ۔ آزماتا تو وہ ہے جسے دوسرے کے متعلق پتہ نہ ہو یقینی طور پہ کہ یہ کیا کرے گا ۔ وقت پڑنے پہ دوستی کو آزمایا جاتا ہے’ کہ ہاں صاحب! دوست تو بہت ہوتے ہیں’ لیکن آزمایا ان کواسی وقت جاتا ہے’ جب کوئی مصیبت آ کے پڑتی ہے’ تو پھر پتہ چلتا ہے’ کہ یہ واقعی دوست تھا یا نہیں ‘ ویسے نہیں پتہ چلتا ۔ تو اللہ میاں بھی ان کے اس تصور کی رو سے آزماتا رہتا ہے’ کہ دیکھیں کیسا نکلتا ہے یہ ۔ خدائے علیم و خبیر و بصیر و سمیع ‘ وہ یوں کرتا رہتا ہے؟ اور پھر آگے چلئے صاحب! یہ جتنی مصیبتیں کسی کے اوپر آتی ہیں ‘ خدا اپنے بندوں کو خاص طور پہ آزماتا رہتا ہے ۔ یہ جتنی آپ گنتے ہیں حضرت صاحب کے اوپر یہ مصیبت آئی ‘ یہ جتنے یہ اللہ والے گناتے ہیں ان کو’ گناتے ہی اس طرح سے ہیں’ کہ کوئی ساری عمر کسی بیماری میں مبتلا رہتا ہے ‘ بھوکا بھوک میں مبتلا رہتا ہے ‘ پہننے کو کپڑے نہیں ‘ کھانے کو روٹی نہیں ‘ رہنے کو مکان نہیں ہے ‘ مصیبتوں پہ مصیبتیں آ رہی ہیں ‘ ذلیل و خوار ہو رہے ہیں ‘ کیوں ہو رہے ہیں؟ صاحب! یہ تو آپ کہتے ہیں حضرت صاحب مقربِ بارگاہِ خداوندی ہیں’ یہ ایسا کیوں ہے؟ اللہ اپنے مقرب بندوں کو آزماتا رہتا ہے ۔ اور یہاں سے پھر جو چلے ہیں مقرب بندے وَإِذِ ابْتَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ (1:124) وہاں چل گئی قرآن کی آیت’ کہ جب اللہ تعالیٰ نے ابراہیمؑ کو آزمایا ۔ عزیزانِ من! یہ بات نہیں ہے ۔ جیسا میں نے عرض کیا ہے’ بنیادی طور پہ ہی اس کے معنی ہوتا ہے’ پہلو بدلنا ‘ مختلف مواقع سامنے لانا ۔ ابتلا کے معنی ہوتا ہے’ ایسے مواقع پیش کرنا جس سے انسان کی ذات کی نمود ہوجائے ۔ اور یہ مواقع ہی تو ہیں زندگی کے اندر ‘ یہ خدا نہیں انسان کو آزماتا’ انسان اپنے آپ کو آزماتا ہے’ کہ میں کس حد تک اس قابل ہوگیا ہوں’ کہ ان موانعات کے ٹکراؤ میں کامیاب ہوجاؤں ۔ یہ جسے آپ خدا کی طرف سے ابتلا کہتے ہیں’ وہ حقیقت میں یہ زندگی کے مواقع آتے ہیں’ کہ اپنے آپ کو ٹیسٹ تو کرتا چلا جا۔ یونہی ہم اپنے آپ کو فریبِ نفس میں مبتلا رکھیں’ کہ نہیں صاحب! ہمارے اندر اب یہ چیز پیدا ہوگئی ہے ۔ یہ جو کہا جاتا ہے’ کہ صاحب! ہمت ہوگئی ہے ‘ ڈر نہیں ہے ‘ خوف نہیں ہے’ تو اس کے لیے کوئی موقع آنا چاہیے اس بات کے دیکھنے کا’ واقعی ایسا ہوگیا ہے’ کہ مجھ میں اتنی ہمت ہوگئی ہے ۔ اگر یہ ٹیسٹ نہ کیا جائے اپنے آپ کا’ تو وہ تو ساری عمر آدمی فریبِ نفس میں مبتلا رہتا ہے’ Self Deception میں رہتا ہے۔ ٹیسٹ اس چیز کے لیے نہایت ضروری ہے ۔ وہی جو میں نے مقامِ خویش کہا تھا ‘ مقامِ خویش سے صحیح معنوں میں روشناس ہونے کے لیے ضروری ہے’ کہ مختلف مواقع آئیں ‘ زندگی مختلف پہلو بدلے اور مختلف قسم کے مواقع سامنے آتے رہیں’ اور انسان اپنے آپ کو ٹیسٹ کرتا رہے کہ اب میں کس مقام پہ پہنچا ہوں ۔ اگر یہ نہ ہو’ تو وہ آپ کو یاد ہے’ وہ میں سنایا کرتا ہوں’ وہ بوڑھے تھے کسی دور میں پہلوانی کرتے تھے ۔ کسی نے کہا کہ اب آپ بوڑھے ہوگئے ہیں’ اب وہ زور تم میں کہاں ۔ کہنے لگے نہیں صاحب! غلط بات ہے’ عمر کا کوئی اثر ہم پہ نہیں پڑا ہے’ اب بھی وہی بات ہے ہمارے اندر ۔ کہنے لگے نظر تو نہیں آتا ۔ کہنے لگے ٹھیک ہے آزما کے دیکھ لیا جائے گا ‘ نظر کیوں نہیں آتا ۔ چلئے صاحب! وہ اکھاڑے میں چلے گئے ‘ اکھاڑے کے ایک کونے کے اوپر ایک بہت بڑا پتھر ہوتا تھا رکھا ہوا ۔ انہوں نے کپڑے اتارے ‘ لنگوٹ کسا’ وہاں اکھاڑے میں چلے گئے’ اور پتھر کو جا کے اِدھر سے ہلایا اُدھر سے ہلایا’ وہ ہلا ہی نہیں ہے ۔ کہنے لگے دیکھا! میں کہتا تھا کہ فرق آگیا جوانی کے زمانے میں ۔ کہنے لگے نہیں! کوئی فرق نہیں آیا ۔ کہنے لگا کیسے؟ کہنے لگا جوانی میں بھی نہیں ہلا کرتا تھا ۔ یوں انسان فریبِ نفس میں مبتلا رہتا ہے ۔ یہ بھی بہت بڑی چیز ہے خدا کی طرف سے ۔ زندگی میں مختلف قسم کے پہلو بدل کے زندگی کے مواقع آتے رہیں’ اور انسان اپنے آپ کو پھر آزماتا چلا جائے ‘ ٹیسٹ کرتا چلا جائے’ کہ کتنے پانی میں میں ہوں ‘ کتنی چیز ہے ۔ عزیزانِ من! یہ ہے وہ چیز کہ ابراہیمؑ کے سامنے مختلف مواقع آئے اس قسم کے’ جس میں اس نے اپنی ذات کا ٹیسٹ کیا ۔ اور پھر خدا نے کہا ہے کہ وہ ہر مقام پہ اس ٹیسٹ کے اندر پورا اترا’ اور ہم نے پھر کہا کہ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا (2:124) ہاں ابراہیمؑ! تم اس قابل ہو کہ نوعِ انسانی کی لیڈر شپ تمہارے جیسے انسان کے ہاتھ میں آجائے ۔ یوں آتی ہے لیڈر شپ ۔ میں کہہ یہ رہا تھا کہ یہ جسے بلا یا ابتلا کہتے ہیں پھر اس کے بعد میں نے کہا تھا’ کہ پہلے اس لفظ کا مفہوم بگڑا ‘ پھر ہمارے ہاں اس لفظ کے معنی بگڑے ‘ پھر ان کا استعمال بگڑا ۔ اب بلا بلا ہی ہوتی ہے ‘ ابتلا آزمائش ہوگیا’ اور مبتلا کے معنی تو ہوتا ہی تکلیف کے اندر مبتلا ہوجانا ہے ۔ تو یہ جو ہے وَفِي ذَٰلِكُم بَلَاءٌ مِّن رَّبِّكُمْ عَظِيمٌ (14:6) تو بلا کے معنی مصیبت نہیں ہے’ بلکہ یہ جو پہلو بدلا ہے ۔ اب دیکھیے! رَّبِّكُمْ عَظِيمٌ کے معنی کس طرح ابھر کر سامنے آگئے’ کہ یہ جو تمہاری زندگی کا پہلو بدلا گیا’ کہ وہاں تم اس کی غلامی میں تھے’ جو اس قسم کے عذاب میں مبتلا رکھتا تھا’ اور وہاں سے نکال کے تمہیں آزادی میں لے آیا ۔ تمہاری زندگی کا یہ جو پہلو بدلا ہے’ خدائے عظیم کی طرف سے تمہارے اوپر بہت بڑی نعمت تھی ۔ اب رَّبِّكُمْ عَظِيمٌ کی صفت سامنے آئی ۔ ورنہ یہ ہوتا مصیبت میں مبتلا کرنا کہ ربِ عظیم کی یہ صفت کہ وہ مصیبتوں میں مبتلا کرتا ہے ۔ فِي ذَٰلِكُم کے معنی أَنجَاكُم (14:6) ہے’ کہ یہ جو تمہیں نجات دی ہے’ وہاں سے خدا نے’ اتنے بڑے مستبد حاکم کے اس قسم کے ذلت آمیز سلوک سے’ اور پھر تمہیں آزادی کی فضاؤں میں لے آیا ہے ۔ دیکھا! تمہاری زندگی نے کیسا پہلو بدلا ہے ۔ یہ زندگی کا پہلو بدلنا اس قسم کا جو ہے’ یہ خدائے عظیم کی طرف سے تمہارے لیے بہت بڑی نعمت تھی ۔ قوم تاریکی سے روشنی میں آگئی ۔ دیکھا! یہ تاریکی کیا تھی ۔ اب بات میں سمجھ میں آگئی نکھر کے ۔ اس کو ضرورت نہیں رہی اس کو کہ الفاظ میں سمجھائے ۔ ایک قوم کی داستان کو سامنے لے آیا’ پتہ چل گیا کہ تاریکی کسے کہتے ہیں’ اور روشنی کیا ہوتی ہے ۔ عزیزانِ من! پہلی چیز یہ ہے’ کسی قوم کا ‘ کسی انسان کا ‘ کسی انسان کی محکومی اور غلامی میں آجانا’ انتہائی تاریکی میں ہے زندگی جو ہے ۔ آدمی کا آدمی پہ حاکم ہوجانا ‘ کسی دوسرے انسان کا خدا بن جانا ۔ أَنَا رَبُّكُمُ الْأَعْلَىٰ (79:24) یہ دعویٰ تھا اس کا ۔ اس قسم کے مستبد کے شکنجے میں سے نکل جانا’ روشنی ہے ۔ ان کے اندر جکڑے جانا یہ انتہائی تاریکی ہے ‘ اس سے نکل جانا جو ہے یہ نور ہے’ یہ روشنی ہے ۔ قرآن سب سے پہلے یہ کرتا ہے’ کہ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ (14:1) دنیا میں وہ کسی انسان کی حاکمیت کو باقی نہیں رہنے دیتا ‘ کسی فرعون کو یہاں چھوڑتا نہیں ہے ‘ کسی کا استبداد باقی نہیں رہتا ۔ اس نے الناس کہا ہے ‘ پوری نوعِ انسانی کے لیے وہ کہتا ہے’ کہ یہ دور قرآن پیدا کرسکتا ہے’ کہ جس میں کہیں کسی مقام کے اوپر بھی’ کوئی انسان کسی انسان کی محکومیت کے اندر نہ رہے ۔ وَالْأَمْرُ يَوْمَئِذٍ لِّلَّـهِ (82:19) وہ دوسرے مقام پہ جو اس نے کہا ہے لَا تَمْلِكُ نَفْسٌ لِّنَفْسٍ شَيْئًا (82:19) ہا ہا ہا! وَالْأَمْرُ يَوْمَئِذٍ لِّلَّـهِ (82:19) کوئی شخص کسی دوسرے پہ کسی قسم کا اقتدار نہیں رکھے گا ۔ اور اس دور کے اندر صرف اکیلے خدا کی حکومت ہوگی ۔ وَأَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّهَا(39:69) یوں یہ کرۂ ارض تیرے رب کے نور سے جگمگا اٹھے گا ۔ دیکھا! نور کے معنی کیا ہیں ‘ دیکھا تاریکی کسے کہتے ہیں ۔ قرآن یہ کرتا ہے’ الناس کو تاریکی سے نور میں لے آتا ہے ۔ روشنی زندگی کے لیے نہایت ضروری ہے ۔ آپ سب سے پہلے دیکھ رہے ہیں’ کہ انسانیت کی زندگی کے لیے ‘ طبعی زندگی کے لیے روشنی کی ضرورت ہے’ لیکن قیدیلِ آسمانی میں دیکھیے گا’ کہ خود انسانیت کی زندگی کے لیے بھی’ قرآن کی روشنی کی کتنی ضرورت ہے’ کیسے یہ لا ینفک ہے ۔ موت کا پیغام ہر نوعِ غلامی کے لیے ۔ ’’ ہر نوعِ غلامی‘‘ میں نے کہا تھا’ کہ ظلمات قرآن میں جہاں بھی آیا ہے’ جمع کے صیغے میں آیا ہے ‘ نور واحد کے صیغے میں آیا ہے ۔ تاریکیاں مختلف قسم کی ہوسکتی ہیں’ روشنی ایک ہی ہوتی ہے ۔ وَفِي ذَٰلِكُم بَلَاءٌ مِّن رَّبِّكُمْ عَظِيمٌ (14:6) کیا حسین پہلو بدلا ۔ یوں اس کا مفہوم ہوجائے گا ۔ تمہاری زندگی میں اس قسم کے مستبد حاکم کی غلامی کی زنجیروں سے نکل کے آزادی کی فضائے بسیط میں اذنِ بال کشائی ملا ۔ کتنی بڑی نعمتِ عظمٰی تھی’ تمہارے ربِ عظیم کی طرف سے ۔ دیکھتے ہیں عظیم کی صفت کہاں آئی ہے ‘ دیکھتے ہیں رب کی صفت کہاں آئی ہے ؟ رَّبِّكُمْ ‘ نشوونما دینے والا ۔ انسانیت کو نشوونما آزادی کی فضائے عظیم میں ہی مل سکتی ہے ۔ وہ کرتا کیا ہے؟ وَيُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ (14:6) اس کے مقابلے میں یہ ربوبیت آ رہی ہے ۔ وہ کہتا تھا أَنَا رَبُّكُمُ الْأَعْلَىٰ (79:24) وہ یہ کہہ رہا ہے یہ رَّبِّكُمْ عَظِيمٌ (14:6)ہے’ جس کی طرف سے اس قسم کا پہلو بدلا گیا تمہاری زندگی کا ۔ وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ ۖ وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ (14:7) پہلی بات تو نفی کی آگئی ‘ غلامی سے آزادی کی فضا میں لے آنا ۔ عزیزانِ من! یہ وہی چیز تھی ۔ پھر آگیا میں وہی اس پہ ’’سینہ تمام داغدار ‘‘ یہ وہ نجاتِ رَّبِّكُمْ عَظِيمٌ (14:6) کی نعمت تھی جو سن 1947 ء پہ واہگہ کی سرحد پہ ہمیں نصیب ہوئی تھی ۔ وہ لٹا پٹا ہوا بوڑھا جس کے بال بچوں تک سب وہاں قتل ہوگئے تھے’ وہ لڑھکتا ہوا رینگتا ہوا’ کسی طرح سے واہگے کی سرحد کے پار جب پہنچا ہے’ اس نے اسی وقت زمین کو سجدہ کیا’ کہا کہ اللہ! تیرا کتنا شکر ہے’ اور اس نے جان دیدی ۔ لیکن کہا کہ یہ تو صرف ایک کرۂ ارض تمہیں ملا ہے ۔ یاد رکھیے! بنی اسرائیل کی داستان بڑی مماثل ہے ہماری اس جاں گداز داستان سے’ جس میں ہم مبتلا ہیں ۔ یہ بہت بڑی نجات تھی جو ہمیں ملی تھی وہاں سے ‘ بہت بڑی تاریکی تھی’ جس سے ہم روشنی میں آئے ہیں ۔ وہی صحرائے سینا میں وہ قوم آگئی ۔ آگے آگے آئے گی’ کہ پھر اس نے کیا کیا ۔ اور میں کہتا ہوں کہ اب تو ان کے متعلق کچھ سمجھنے کی سیکھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے ۔ اس کے بعد یہ ہے کہ پھر ہم نے کیا کیا؟ جو کچھ کیا ہے اس کو دیکھتے جائیے اور ایک ایک لفظ قرآنِ کریم کا بنی اسرائیل کے متعلق پڑھتے چلے جائیے’ یوں چسپاں ہوتا چلا جائے گا آپ کے ساتھ ۔ یہ نجات ‘ صحرائے سینا کی طرف ‘ وہاں آنے کے بعد فوراً ہم نے’ جیسے کہتے ہیں Proclamationہم نے وہاں آ کے دیدیا ۔ صاحب! یہاں لفظ تَأَذَّنَ (14:7) کیا آیا ہے! آزاد قوم پہلے ایک Proclamation کرتی ہے ‘ اپنا منشور شائع کرتی ہے ‘ اپنا اعلان کرتی ہے ۔ کہا کہ ہم نے وہاں پھر یہ اعلان کیا’ کہ یاد رکھو! یہ آزادی تو تمہیں اس طرح سے مل گئی ہے’ لیکن یہاں اب صورت یہ ہے لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ (14:7) اس میں اب مزید نعمتوں کی تمہیں ضرورت پڑے گی ۔ صرف ایک قطعِ ارض ہی نہیں’ جو ضرورت تھی ‘ اس میں بہت کچھ ہے بہت کچھ ملے گا ۔ بشرطیکہ تم ان چیزوں کو وہاں صرف کرو’ جہاں صرف کرنے کے لیے تمہیں کہا گیا ہے ۔ شکر کے یہ معنی ہوتے ہیں ۔ تم لوگوں کو بلا مزد و معاوضہ ملی ہیں ‘ اب یہاں ہوگا تمہارا ٹیسٹ ۔ خدا کی طرف سے آزمائش نہیں ‘ تمہاری آزمائش اب ہوگی’ کہ مفت ملے ہوئے کے ساتھ تم کیا کرتے ہو ۔ واقعی بہت بڑی آزمائشِ خویش ہے’ کسی قوم کے لیے ۔ لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ (14:7) ان کو اس طرح استعمال کرو گے’ تو یہ بڑھتی چلی جائیں گی ‘ اضافے ہوتے چلے جائیں گے ۔ وَلَئِن كَفَرْتُمْ (14:7) کَفَرَ کے بنیادی معنی جیسا میں نے آپ سے کہا ہے کہ کسی چیز کو چھپا کے رکھنا ۔ اور اگر ایک ایک نے لوٹ مار کا مال لیا’ اور لوٹ کا ہی مال سب سے پہلے چھپایا جاتا ہے۔ یہ جو White Money جسے آج کی اصطلاح میں کہتے ہیں’ وہ تو چھپایا ہی نہیں جاتا ‘ چھپایا تو Black Money کو جاتا ہے ۔ یہ لوٹ کا ہو ‘ سمگلنگ کا ہو ‘ بلیک مارکیٹنگ کا ہو ‘ رشوت کا ہو ‘ ہر ناجائز کمائی کا ہو ‘ ممکن کوشش ہوتی ہے’ کہ چھپایا جائے ۔ کیا عجیب لفظ ہے قرآن کا کفر جو ہے ۔ کفر کے معنی ہی ہیں کہ جس چیز کو نمایاں کرنا ہو’ اس کو چھپا کے رکھا جائے ۔ اور یہاں کہا ہے کہ ان نعمتوں کو جو اس طرح سے تمہیں ملی ہیں ان کے متعلق کہا ۔ آ ہا ہاہا ! پھر آپ کہیں گے کہ شکر کے مقابلے میں یہ لفظ جو آیا ہے’ یہ کیا آیا ہے؟ آپ کو پتہ ہے کہ شکر کی نشانی کیا ہوتی ہے؟ کیا بات تھی ان عربوں کی! میں نے گزارش کیا تھا’ کہ ایک تو ان کی تاریخ پڑھنی چاہیے’ قبلِ اسلام کے معاشرے کی اور پھر ان کے الفاظ کا استعمال ہونا چاہیے ۔ وہ اس بکری کو شکر والی کہتے تھے ‘ مشکور یا شکور ‘ جس کے تھن اتنے اتنے بھرے ہوئے ہوں دودھ سے’ کہ چلے تو خودبخود اس میں سے قطرے دودھ کے ٹپکتے چلے جائیں ۔ عزیزانِ من! اس سے زیادہ ابھار اور نمود اور کیا ہوسکتی ہے ۔ جتنا دودھ اندر چھپا ہوا ہے پہلے تو وہ اپنا اظہار کرے اپنے ان تھنوں سے ‘ وہ بھرے ہوئے نظر آئیں ۔ اور یونہی اظہار نہ کرے ‘ عربوں کے ہاں فخر کو بھی کہتے تھے اسی قسم کا ۔ وہ ہوانہ جسے ہم پنجابی میں کہتے ہیں’ وہ بھرا ہوا نظر آئے تو بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے’ شاید بیماری ہوتی ہے یا بعض جانوروں میں بھی گویا’ اس قسم کے ہوتے ہیں لیکن بہرحال ہوانہ تو بھرا ہوا نظر آئے’ لیکن اس میں دودھ نہ کچھ نکلے’ اسے تو وہ فخر کہتے تھے ۔ اور اگر وہ بھرا ہوا ہو دودھ کا تو وہ بغیر دوہنے کے اس میں سے دودھ ٹپکنے لگ جائے اسے شکر کہتے تھے ۔ اور اس کے مقابلے میں ہے کفر ۔ شَكَرْتُمْ ‘ كَفَرْتُمْ (14:7)۔ اگر تو تم نے یوں رکھا کہ جو کچھ بھی ہے اس کو سامنے لاؤ ‘ قوم کا مال ہے قوم کے سامنے رکھو ۔ عزیزانِ من! وہ تو جن کی نگاہ تھی اس قرآن کے اوپر’ اور اسلام کی حقیقتوں کے اوپر’ ان کی کیفیت یہ تھی’ کہ حضرت ابو ذر غفاریؓ جب آئے ہیں’ اور ان سے بیت المال کے متعلق یہ کہا گیا ۔ بڑی گہری سی حقیقت ہے ۔ کہا گیا کہ اس کو صحیح معنوں میں صرف میں کیوں نہیں لایا جاتا’ تو انہیں کہا گیا’ کہ یہ اللہ کا مال ہے ۔ آپ دیکھیے کہ تربیتِ نبویﷺ نے کیا چیز ان بدوؤں کے اندر پیدا کی تھی ۔ انہوںؓ نے کہا یہ کہ یہ نہ کہو اللہ کا مال ہے’ یہ کہنے کے بعد تم گرفت سے بچنا چاہتے ہو ‘ کہو کہ یہ جماعتِ مؤمنین کا مال ہے’ پھر مجھے حق حاصل ہے’ کہ تم پہ گرفت کرسکوں ۔ کیا بات تھی ان لوگوں کی! یہ ہے شَكَرْتُمْ ‘ كَفَرْتُمْ (14:7)۔ کفر خدا کے ساتھ کرتے چلے جائیے’ نہ خدا کا کچھ بگڑتا ہے’ نہ کسی اور کا ۔ یہ قوم کے ساتھ ہے ۔ جو کچھ یہ ہے اس کو نمایاں طور پہ ابھار کے رکھو ہر ایک کو نظر آئے کتنا ہے ۔ اور یوں ابھرا ہوا’ کہ وہ دودھ تھن سے ٹپکنا شروع ہوجائے ۔ اگریہ کرو گے لَأَزِيدَنَّكُمْ (14:7) بڑھتی چلی جائیں گی’ یہ ساری چیزیں جو ہیں ۔ وَلَئِن كَفَرْتُمْ (14:7) اگر تم نے ان کو چھپا کے رکھا’ یا ان جگہوں میں صرف کیا جہاں صرف نہیں کرنا چاہیے إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ (14:7) یہ نہ سمجھ لو’ کہ اس کے فولادی پنجے سے نکل آئے ہو تو اب کوئی پکڑنے والا ہی نہیں ہے ۔ ہماری گرفت اس سے بھی زیادہ سخت ہوا کرتی ہے ۔
حذر اے چیرہ دستاں سخت ہیں فطرت کی تعزیریں
وَقَالَ مُوسَىٰ إِن تَكْفُرُوا (14:8) موسٰیؑ نے قوم سے کہا’ کہ اگر تم نے یہ کیفیت اپنی رکھی جسے قرآن نے کفر سے تعبیر کیا ہے ۔ عجیب الفاظ ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ قرآنِ کریم نے یہاں واقعی حضرتِ موسٰیؑ جیسا کہ ان کی سیرت ہمارے سامنے آتی ہے’ اس کو نہایت عمدگی سے Depict کیا ہے ۔ تَكْفُرُوا (14:8) میں ہی آجاتی تھی’ خود صیغہ یہ بتا رہا ہے’ کہ اگر تم نے ایسا کیا’ اور اس کے بعد وہ کہتے ہیں أَنتُمْ وَمَن فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا (14:8) تم ہی نہیں ‘ تم اور ساری روئے زمین کے انسان جتنے بھی ہیں’ اگر یہ کفر برتنا شروع کردو’ تو یہ مت سمجھو کہ کچھ خدا کا بگاڑ رہے ہو ۔ فَإِنَّ اللَّـهَ لَغَنِيٌّ حَمِيدٌ (14:8) وہ تمہارا محتاج بیٹھا ہوا ہے؟ بگاڑو گے اپنے آپ کا تم ۔ اب یہاں بڑی چیز آگئی ۔ فرعون جو اس قسم کے تمہیں عذاب دیتا تھا ‘ گرفت کرتا تھا ‘ یہ سب کچھ کر رہا تھا’ وہ اس لیے کہ اس کو اس کا ڈر تھا’ کہ اگر تم نے طاقت پکڑ لی’ تو وہ اس کا سنگھاسن ڈول جائے گا ‘ اس کی خدائی برقرار نہیں رہے گی ‘ اس کا اقتدار باقی نہیں رہے گا ۔ وہ تمہیں اس لیے عذاب دیتا تھا ‘ وہ تمہیں اس لیے فولادی پنجوں میں جکڑ کے رکھتا تھا کہ اسے معلوم تھا’ کہ اگر تم نے یہ کیفیت اختیار کرلی’ تو پھر اس کی خدائی باقی نہیں رہے گی ۔ کہا کہ یہاں معاملہ اور ہے’ یہ نہ سمجھو کہ اگر تم نے یہ کیفیت کفر کی اختیار کرلی’ تو فرعون جیسا ردِ عمل ہوگا’ کہ خدا بھی اس طرح کہے گا’ کہ ہائیں! گئی میری خدائی ‘ اور اس لیے تمہیں پکڑے گا ۔ کہا یہ بات یہاں نہیں ہے ۔ تم تمام روئے زمین کے انسان بھی اگر اس سے کفر برتنے لگ جاؤ’ تو اس کا کچھ نہیں بگڑ سکتا ‘ کم بختو! تمہارا بگڑے گا ۔ اس لیے اس کی گرفت فرعون کی گرفت جیسی نہیں ہوگی ۔ خدا کی گرفت اور فرعون کی گرفت میں دیکھا کیسے فرق کرکے بتا دیا ۔ مستبد حاکم کے اندر Inferriority Complex ایک ہوتا ہے ‘ اس کے اپنے اندر اتنی قوت ‘ صلاحیت نہیں ہوتی’ کہ وہ خود اپنے جوہروں سے ‘ اپنے میرٹ سے ‘ اپنے سلوک سے ‘ برتاؤ سے ‘ حسنِ عمل سے ‘ انصاف سے ‘ اپنے آپ کو قائم رکھ سکے ۔ وہ ہر وقت اس سے ڈرتا رہتا ہے’ کہ کوئی سامنے سے کھڑا نہ ہوجائے ۔ اس کی گرفت اس لیے ہوتی ہے ۔ تو ذہن میں آتا تھا’ کہ خدا کے متعلق جو کہا ہے’ کہ ہمارا عذاب ‘ ہماری گرفت ‘ بڑی شدید ہوگی’ تو کیا یہاں بھی وہی بات ہے فرعون والی’ کہ اگر ہم نے سرکشی اختیار کرلی ‘ کفر اختیار کرلیا’ تو خدا کو ڈر ہے’ کہ کہیں میری بادشاہت نہ چھن جائے ۔ کہا تم وَمَن فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا (14:8) پوری نوعِ انسانی بھی انکار کردے فَإِنَّ اللَّـهَ لَغَنِيٌّ حَمِيدٌ (14:8) وہ اس ڈر کے مارے نہیں کرے گا ‘ یہ تو مکافاتِ عمل کا فطری نتیجہ ہوگا’ یہ جو کہہ رہا ہے ۔ وہ ڈر کے مارے یہ نہیں کرے گا’ بلکہ جو کچھ تم کرو گے اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا ۔ وہ تو لَغَنِيٌّ حَمِيدٌ (14:8)ہے ۔ غنی جو کسی کا محتاج نہ ہو ۔ اور یہی بات اتنی نہیں ہے’ کہ محتاج نہیں ہے’ وہ تو حمید ہے’ اس کا سارا کائنات کا سلسلہ ازخود اس کو سزاوارِ حمد و ستائش بننے کے لیے کافی ہے ۔ تم اگر اس کی تعریفیں کرتے چلے جاؤ گے’ تو کیا اس کی خدائی بڑھتی چلی جائے گی ۔ اب یہاں سے ایک اور بہت بڑا نقطہ سامنے آتا ہے ۔ بات تو دوسری جگہ جا کے تفصیل سے عرض کروں گا ۔ ہمارے ہاں یہ جو نیک کام یا عبادتیں جن کو ہم کہتے ہیں ‘ کیوں کی جائے صاحب؟ خوشنودیِ باری تعالیٰ کے لیے ‘ اللہ کو خوش رکھنے کے لیے ۔ تو گویا اس بات کا وہ محتاج ہوگیا’ کہ اس کو خوش کردیا جائے’ تو پھر وہ سب ٹھیک ہوجائے گا ۔ اور اگر وہ ناراض ہوگیا’ تو پھر تو تمہارا کچومر نکال دے گا ۔ تو گویا خدا کا ردِ عمل یوں ہوا ۔ عزیزانِ من! یہاں حَمِيدٌ (14:8) کہا گیا ہے ‘ ہم حمد سے ہی کہتے ہیں’ اس کی ستائش کرتے ہیں’ الحمدللہ کہتے ہیں کہ یہ اگر ہم اس کی حمد کرتے چلے جائیں گے’ تو پھر تو وہ راضی ہوجائے گا ‘ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو وہ ناراض ہوجائے گا ۔ دیکھا! وہی ملوکیت کے خصائص ہم خدا کی طرف منسوب کیے چلے جا رہے ہیں ۔ یہاں انسانوں کے متعلق یہی صورت ہے’ کہ ارباب و اقتدار جس کے ہاتھ میں ‘ کوئی چیز تمہاری ہو اس کو خوش رکھو ۔ اور وہ ناراض ہوجائے گا’ تو تمہاری ہڈیاں پیس کے رکھ دے گا ۔ یہاں یہ کچھ کیا ہی اس لیے جاتا ہے’ یہ نہیں کہ یہ اچھا کام ہے’ مجھے اس لیے کرنا چاہیے’ کہ فی ذاتہٖ یہ اچھا ہے ‘ مجتنب رہنا چاہیے’ کہ نہیں! یہ برا ہے’ اس کے نتائج میرے لیے برے ہونگے ۔
اگر شہ روز را گوید شب است این
بباید گفت اینک ماہ و پروین
ارے بابا! بادشاہ کہتا ہے دن کو کہ یہ رات ہے’ کہو کہ ہاں صاحب دیکھیے! چاند تارے موجود ہیں ۔ اس لیے کہ مقصد اسے خوش کرنا ہے ۔ عزیزانِ من! یہ ہے ملوکیت کا راز ۔ اسے خوش رکھیے’ سب ٹھیک ہے ‘ ناراض ہوگیا تو پوچھو ہی نہیں ۔ اور ان کی کیفیت مزاجِ شاہاں ‘ وہ تو ملوکیت کے دور کی تصویر کھینچ کے اس شخص نے رکھ دی ہے ۔
گاہے بہ سلامے برنجند
کیفیت یہ ہے’ کہ آج حضور کا موڈ کا خراب ہے’ سلام کیجیے تو ان کو غصہ چڑھ جاتا ہے ۔
گاہے بہ دشنامے خلعت بخشند
اور کبھی یہ کیفیت کہ گالی دی ہے’ تو خلت بخش دی ہے ۔ ’’ ساہڈے بھولے بادشاہ کیندے نیں ‘‘ ۔ بات یہ نہیں ہوتی ۔ Psychologicalچیز یہ ہوتی ہے کہ تمہارا مقصد اسے خوش رکھنا ہے ‘ بات ختم ہوئی ۔ یہاں یہ کہا کہ اس کی گرفت بڑی سخت ہوگی ۔ اس لیے نہیں ہوگی’ کہ فرعون جیسی گرفت ہوگی ۔ فَإِنَّ اللَّـهَ لَغَنِيٌّ حَمِيدٌ (14:8) اور حمید سے تو یہ کہہ دیا کہ تمہاری حمد و ستائش سے بھی یہ بات نہیں ہے’ کہ وہ خوش ہوجاتا ہے’ اس لیے تمہیں نہیں پکڑے گا۔ تم اس کی حمد کرتے رہا کرو ۔ آپ کو تو پتہ ہے’ پہلا ہی لفظ الحمدللہ آیا تھا’ جوتین درس اس پہ ہوئے تھے ۔
أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَبَأُ الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُودَ (14:9) قومِ نوحؑ اور عاد و ثمود کو دیکھو ۔ وَالَّذِينَ مِن بَعْدِهِمْ (14:9) ان کے بعد کی قوموں کو دیکھو ۔ لَا يَعْلَمُهُمْ إِلَّا اللَّـهُ (14:9) کچھ تو ایسی ہیں کہ جن کا ذکر خدا نے کردیا’ یا تمہاری کتابوں میں آگیا ۔ بہت سی قومیں ایسی ہیں’ کہ جن کا اب ذکر تک بھی کہیں نہیں آتا ‘ تاریخ نے ان کے احوال تک بھی محفوظ تک نہیں رکھے ہوئے ۔ اور واقعی اس چھ ہزار سال کی تاریخِ انسانیت میں چند بڑی بڑی قومیں ہیں’ جن کے احوال و کوائف محفوظ ہیں ۔ پتہ نہیں کتنی اور چھوٹی چھوٹی قومیں ‘ قبیلے آئیں’ مٹ گئیں’ ختم ہوگیا قصہ لَا يَعْلَمُهُمْ إِلَّا اللَّـهُ (14:9) لیکن کوئی بھی قوم تھی جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ (14:9) کہا طریق یہی رہا ان قوموں کا’ کہ جو اپنی غلط روش سے کوئی اقتدار کی کرسیوں پہ برا جمان ہوچکا ہوا تھا ‘ کوئی رزق کے سرچشموں کو اپنے قبضے میں لے چکا تھا ‘ مذہبی پیشوائیت عقیدت کی بنا پہ خدا بن بیٹھی تھی ۔ کہا جو بھی رسول آیا’ اس نے ان کے خلاف انقلاب کی آواز بلند کی’ بِالْبَيِّنَاتِ (14:9) کوئی گُپت ودیا نہیں لے کے آیا’ واضح دلائل ‘ کھلے ہوئے Arguments لے کے آیا ۔ اب دیکھیے ردِ عمل ۔ ہر قوم کا پہلا ردِ عمل کیا تھا؟ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْوَاهِهِمْ (14:9) ہر ایک قوم نے پہلی کوشش کی’ کہ اس کا کسی طرح سے منہ بند کردیا جائے ۔ لفظی ترجمہ ہے ان کے منہ پہ ہاتھ رکھ دینا ۔ کیا بات ہے صاحب! سب کچھ اس میں آگیا’ کہ کیا کیا طریقے اختیار کیے’ کہ ان کی بات نہ آگے پہنچنے پائے ۔ عزیزانِ من! بلا تمثیل و بلا تشبیہ عرض کروں گا ‘ میں تو ان کا خاکِ پا بھی نہیں ہوں’ لیکن بات یہی ہے’ جہاں کہیں بھی خدا کی بات کہنے والا کوئی آئے گا’ پہلا ردِ عمل ان تمام قوتوں کی طرف سے یہ ہوگا’ کہ اس کے منہ پہ ہاتھ رکھ دیا جائے ‘ بات باہر نہ نکلنے پائے ۔ پرویز صاحب کے درس میں بالکل نہ جانا ‘ ایک دفعہ ہی جو جاتا ہے’ وہ تو کم بخت جادوگر ہے ‘ ایمان خراب کر لیتا ہے ‘ جانا ہی نہیں ‘ سننا ہی نہیں آواز اس کی ۔ ایک متحدہ کوشش یہاں یہ جاری ہے ۔ عزیزانِ من! میری آواز کیا ‘ میری حیثیت کیا ‘ میری شخصیت کیا ‘ اتنا ہی ہے کہ یہ قرآن کی آواز ہے’ قرآن پیش کرتا ہوں ۔ یہ آپس میں ان کے کتنے ہی اختلاف اور افتراق کیوں نہ ہو ‘ ان کے ہاں جوتم پیزار ہوتے ہوں ‘ سر پھٹول ان کے ہاں ہوتی ہو ‘ روز مناظرے آپس میں ہوتے ہوں ‘ کفر کے فتوے ایک دوسرے کے اوپر لگتے ہوں ۔ اس بات میں متحد ہیں’ کہ قرآن کی آواز باہر نہ جانے پائے ‘ تمام فرقے اس کے اوپر متحد ہیں ۔ عزیزانِ من! آپ یہ سن کے حیران ہونگے’ نزولِ قرآن کے متعلق قرآن کی عظمت کے متعلق کچھ دس سطریں میں لکھ کے بھیجتا ہوں’ ایک ایک اخبار کے اندر جا جا کے ان چیزوں کو دیتے ہیں ۔ سارے کانوں پہ ہاتھ رکھتے ہیں’ کہ نہ بابا! یہ بھڑوں کا چھتا چھڑ جائے گا ‘ ہمارے پیچھے پڑ جائے گا’ ہم نے کیا لینا ہے ۔ کوئی نہیں صاحب! جرآت کرتا ۔ منہ پہ ہاتھ رکھنے کی کیفیت یہ ہے’ کہ ان کے ہاں Commercial Bases کے اوپر اشتہارات چھپتے ہیں ‘ وہ اس کی اجرت لیتے ہیں ۔ عزیزانِ من! ان کے ہاں سینما کی ننگی تصویریں تو چھپیں گی’ قرآنِ کریم کے جلسے کا اشتہار’ جس کا ہم ان کو معاوضہ دیتے ہیں’ وہ چھاپنے سے انکار کر دیتے ہیں ۔ اس کے منہ پہ ہاتھ رکھ دیا جائے ۔
نہ ستیزہ گاہِ جہاں نئی نہ حریفِ پنجہ فگن نئے
وہی فطرتِ اسَداللّہی، وہی مرحبی، وہی عنتری
بدل کے بھیس زمانے میں پھر سے آتے ہیں
ہر زمانے میں یہ حقیقت ہے ۔ حضور نبی اکرمﷺ کے دور میں آپ دیکھیے’ ابتدائی دور جو تھا’ ساری کوشش یہ تھی کہ اس کی آواز باہر نہ آنے پائے ۔ یہ قرآن میں یہ انہوں نے کہا ہے’ کہ جب یہ کہیں قرآن کی آواز اٹھے’ تو اس کے لیے وہ جو قرآن نے کہا ہے’ کہ وہ چڑیوں کی طرح چیں چیں کرنا شروع کردو ۔ اس کی آواز نہ کہیں باہر آنے پائے’ کیونکہ انہیں یہ معلوم ہے’ کہ قرآنِ خالص کی آواز اگر باہر کہیں کسی کے کان میں پڑ جائے’ تو پھر وہ باطل کا شکار نہیں رہ سکتا ۔ انہیں معلوم ہے ۔ علاج اس کا یہ ہے’ کہ یہ آواز کسی کے کان میں نہ پڑنے پائے ۔ آپ دیکھیے گا اس کے اندر ‘ یہ کیا پڑھتے تھے’ تمہارے ہاتھ میں کیا تھا؟ کہ جی! وہ طلوعِ اسلام ۔ نالائق کہیں کا ‘ کافر بے ایمان ہوگیا ‘ ملحد زندیق کی آوازیں پڑھتے ہو ۔ خبردار اگر مکتب کے اندر دوبارہ تمہارے ہاتھ میں ہم نے یہ دیکھ لیا ۔ عزیزانِ من! ان مکتبوں کے طالبعلم رات کی تنہائیوں میں بے چارے ‘ تاریکیوں میں جا جا کے طلوعِ اسلام کا کوئی ورق پڑھتا تھا ۔ کیا کہتا ہے طلوعِ اسلام؟ قرآنِ خالص کی آواز ۔ تو میں نے عرض کیا ہے’ کہ میں تو بلا تشبیہ و تمثیل کہہ رہا ہوں ‘ ان سے میری نسبت کیا ہے’ لیکن بات وہی ہے حقیقت میں’ کہ جہاں خدا کی خالص آواز کوئی دینے کے لیے آئے’ وہ ان عظیم مقامات پہ ہو جہاں انبیا اور رسل ہیں’ وہ اس طرح کا خاک نشیں ہو’ جو آپ کے سامنے ہے’ لیکن جو بھی خدا کی آواز لے کے آئے گا’ پہلا ردِ عمل ان کی طرف سے یہ ہوگا’ کہ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْوَاهِهِمْ (14:9) اور جواب یہ ہے وَقَالُوا إِنَّا كَفَرْنَا بِمَا أُرْسِلْتُم بِهِ وَإِنَّا لَفِي شَكٍّ مِّمَّا تَدْعُونَنَا إِلَيْهِ مُرِيبٍ (14:9) پہلا ردِ عمل ‘ یہ نہیں کہ اچھا بھئی! بات کیا کرتے ہو سن لیں ‘ ذرا اس پہ غور و فکر کرلیں ‘ پھر اس کو پرکھ کے دیکھ لیں گے ‘ بالکل نہیں ۔ پہلا ردِ عمل کہ بالکل ہم ماننے کے نہیں ہیں ۔ بغیر سوچے سمجھے ‘ سنے ۔ کہ نہیں صاحب! ماننے کے نہیں ۔ کہا یہ جاتا ہے کہ اس کی بات سننا ہی نہیں ‘ پڑھنا ہی نہیں اس کی اس چیز کو ۔ ہر محراب و منبر پہ کھڑے ہو کے صاحب! کہیے ایک شخص صاحب! یہ کہہ رہا ہے’ کہ تین نمازیں’ اور نو دن کے روزے’ اور خدا سے بھی انکار ‘ نبوت کا دعویٰ ۔ ان میں سے اتنی ذمہ داری سے مسجد میں کھڑے ہو کے باوضو خدا کے سامنے اعلان ہو رہا ہے ۔ کسی سے پوچھیے کہ صاحب! اس کے لیے کہیں کوئی سند ‘ اس نے کچھ لکھا ہو ‘ کیسے آپ کہتے ہیں؟ ساری دنیا کہتی ہے ۔ یہ دنیا سے کیا مراد؟ ساتھ کی مسجد والے ۔ إِنَّا كَفَرْنَا بِمَا أُرْسِلْتُم (14:9) ہم نہیں ماننے کے جو کچھ تم کہتے ہو ۔ وَإِنَّا لَفِي شَكٍّ مِّمَّا تَدْعُونَنَا إِلَيْهِ مُرِيبٍ (14:9) جو کچھ تم کہتے ہو اس کے اندر ہمیں بڑا شک ہے ۔ قرآن دو لفظ شَكّ اور مُرِيب لے آیا ہے ۔ کہتا ہے اصل میں تو یہ ہے کہ ان کے دل کے اندر ایک عجیب اضطراب اس سے پیدا ہوجاتا ہے ۔ ’’ریب‘‘ اضطراب کو کہتے ہیں ۔ کہتے اس سے یہ ہیں کہ نہیں صاحب! ہمیں شک ہے ۔ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ دل میں ایک اضطراب ہوتا ہے ‘ بے چینی ہوتی ہے ۔ قَالَتْ رُسُلُهُمْ أَفِي اللَّـهِ شَكٌّ (14:10 واہ واہ! کیا جواب ہے! کہا میرے متعلق تو کوئی شک کی بات نہیں ‘ میں نے کہا یہ ہے’ کہ تمہارا خدا یہ کہتا ہے’ تو کیا خدا کے متعلق بھی تمہیں شک ہے ۔ میں اپنی بات تو نہیں یہ کہتا ۔ یعنی وہ کوئی آ کے باہر سے پیغامبر کسی کا پیغام آپ تک پہنچائے’ اور آپ یہ کہیں کہ جھوٹ ہے’ تو وہ یہ کہے گا’ کہ بھائی صاحب! آپ مجھے جھوٹا کیوں کہہ رہے ہیں ‘ آپ اسے جھوٹا کہہ رہے ہیں’ جس کی میں بات تمہارے پاس پہنچانے کے لیے آیا ہوں ۔ میں تو صرف پہنچانے کے لیے آیا ہوں’ ۔ کیا بات کہی؟ کہ میں اپنی طرف سے تو کچھ کہہ ہی نہیں رہا ‘ میرے متعلق تم شک میں ہو ‘ اضطراب میں ہو ‘ مجھے جھوٹا سمجھتے ہو’ سمجھتے رہے ہو ‘ میں تو کچھ بھی نہیں کہہ رہا’ میں تو کہہ رہا ہوں’ کہ تمہارے خدا نے یہ بات تمہیں کہی ہے ۔ تو میری تکذیب تم یہ کر رہے ہو’ درحقیقت خدا کے متعلق کہہ رہے ہو’ کہ وہ ( معاذ اللہ ) جھوٹ کہہ رہا ہے ۔ اور کونسا خدا؟ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ (14:10) جس کی کیفیت یہ ہے ۔ یہ دلیل چودہ سو سال پہلے کی بھی دلیل ہے’ آج کی دلیل ہے ۔ آج کا بھی ہر سائنٹسٹ اپنی تحقیق کے آخری نقطے تک پہنچتا ہے ۔ اس سے پہلے تو وہ Cause & Effect کی کڑیوں میں چلتا جاتا ہے’ یہ اس کا Cause تھا’ یہ نتیجہ ہوا’ یوں کیا تو اس سے یہ چیز پیدا ہوگئی ۔ آکسیجن ‘ ہائیڈروجن کے ہم نے دو قطرے ملائے’ پانی پیدا ہوگیا ۔ پانی کو اس درجے پہ لے آؤ’ برف بن گیا ‘ ہیٹ دی وہ بھاپ بن گیا ۔ چلتا جاتا ہے ‘ اس سے یہ ہوتا ہے ‘ چلے جائیے پیچھے سلسلہ ارتقا میں ۔ اور وہاں پہنچ جاتا ہے’ کہ صاحب! یہ کائنات پھر کس طرح وجود میں آگئی؟ عزیزانِ من! یہاں اس کا سلسلہ علت و معلول (Cause & Effect) کا ختم ہوجاتا ہے ۔ ہر سائنٹسٹ اس مقام پہ پہنچنے کے بعد یہ کہتا ہے’ کہ یہ کیسے ہوگیا’ ہم کچھ نہیں بتا سکتے ۔ یہاں سے جو ہمارے سامنے کائنات آئی ہے’ یہاں سے ہم بتا سکتے ہیں’ کہ وہاں سے یہاں تک ہم کیسے پہنچ گئے؟ یہ وہاں کیسے آگئی؟ ہم نہیں بتا سکتے ۔ آئن سٹائن بھی نہیں بتا سکتا تھا ‘ عرب کا بدو بھی نہیں بتا سکتا تھا ۔ کہا کہ اس خدا کے متعلق شک میں! درمیان کی کڑیاں وہ لایا ہی نہیں ہے فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ (14:10) ۔ کہا اور پھر کس بات سے تم روک رہے ہو ‘ کیا میرے منہ پہ ہاتھ رکھ رہے ہو’ کہ بات آگے نہ بڑھنے پائے؟ کم بختو! تمہیں کوئی موت کا پیغام دے رہا ہے ‘ کچھ تباہیوں کا پیغام دے رہا ہے؟ کہ روکتے ہو کہ نہ بابا! منحوس بات منہ سے نہ نکالو’ رہنے دو ۔ يَدْعُوكُمْ لِيَغْفِرَ لَكُم مِّن ذُنُوبِكُمْ (14:10) او بابا! وہ تمہیں دعوت دیتا ہے’ کہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے لائے ہوئے جرائم سے جو تباہیاں تم پہ آنے والی ہیں’ ان سے بچ جاؤ ۔ او کم بختو! او وہ تو یہ کہنے کے لیے آ رہا ہے ‘ وہ تو تمہیں یہ کہہ رہا ہو’ کہ تباہیوں سے کسی طرح سے بچ جاؤ ۔ تم کہتے ہو کہ ایسی بات منہ سے نہ نکالو ‘ بڑی خبرِ بد ہے تمہارے لیے یہ؟ وہ تو یہ کہہ رہا ہے ۔ وَيُؤَخِّرَكُمْ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى (14:10) وہ یہ کہہ رہا ہے کہ تمہیں اب بھی کچھ تھوڑی سی مہلت دیدے ۔ میں تو تم سے یہ کہنے کے لیے آیا ہوں ۔ اعتراضات سن لیجیے ۔ کہا کہ ٹھیک ہے ایسا ہی ہوگا لیکن ہمیں تو کچھ اعتراضات ہیں تم سے’ جس لیے ہم نہیں مانتے ‘ شک بھی اسی لیے ہے ۔ بھئی! کہو کیا اعتراض ہیں؟ کہا قَالُوا إِنْ أَنتُمْ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا (14:10) پہلی بات تو یہ ہے کہ تم تو ہمارے جیسے ایک انسان ہو ‘ تمہیں کچھ مافوق الفطرت ہونا چاہیے ۔ دنیا کے ہر مذہب نے اپنے بانی کو مافوق الفطرت بنا کے دکھا دیا ۔ بانی تو ایک طرف رہا ‘ رام ’ ہندوؤں کے ہاں آپ نے تو نہیں دیکھا ہوگا’ دسہرا میں راون کے دس سر دکھایا کرتے تھے ۔ انسان کے ذہن میں یہ بات ہی نہیں آسکتی’ کہ اتنی اونچی بات کہنے والا آدمی ‘ اس کا ایک ہی سر ہو ۔ ایک سر سے ایسی ایسی مختلف باتیں کیسے نکلیں ۔ ان کا Conceptیہ ہوا کہ نہیں صاحب! اس کے دس سر ہوا کرتے تھے ۔ یہ بات کہ کالی ماتا جو ہے’ وہ اس کو بھی ہڑپ کر جاتی ہے‘ اس کو بھی کھا جاتی ہے ۔ انہوں نے کہا دو ہاتھوں سے ہو کیسے سکتا ہے’ کالی ماتا کے چار ہاتھ ہوتے ہیں ۔ انسان کی تواہم پرستی میں ‘ اس کے محدود ذہن میں یہ بات آ نہیں سکتی تھی ۔ اس نے یہ کہا کہ پہلی بات تو یہ اب آئی’ کہ تم تو ہمارے جیسے انسان ہو ۔ دوسری جگہ ہے’ تمہارے بیوی بچے بھی ہیں ۔ یہ اعتراض ہے کہ یہ کیسا رسول ہے؟ یہ بازاروں میں جا کے سودا سلف خریدتا پھرتا ہے ۔ اعتراض ملاحظہ فرماؤ ۔ وہ کہتا ہے کہ اگر سنکھیا کھاؤ گے تو مر جاؤ گے ۔ وہ کہتے ہیں ہم کیسے مان لیں’ ہم نے کل دیکھا ہے تم وہاں دوکان میں جا کے مولیاں خرید رہے تھے ۔ ہم ہنس رہے ہیں ۔ عزیزانِ من! اللہ کا شکر ہے’ کہ آپ یہاں بیٹھے ہوئے ہنس رہے ہیں’ ورنہ شاید سڑک پہ جا کے میں اور آپ بھی یہی کریں ‘ یہاں باہر نکلیں اور وہاں دیکھیں ٹینکی کے پاس ایک کھڑا ہوا ہے’ اور ہاؤ کرتا ہے اور منہ سے اس کے آگ نکل رہی ہے’ ہم سارے وہاں چلے جائیں گے ۔ اور جو اس کے ساتھ نور الدین ہوگا’ وہ کہے گا حضرت صاحب بہت پہنچے ہوئے ہیں ۔ ابھی ابھی ایک سانپ کا ڈسا ہوا آیا تھا’ یوں انہوں نے پھونک ماری ہے’ ہنستا ہوا چلا گیا ‘ سبحان اللہ صاحب ‘ سبحان اللہ ۔ بَشَرٌ مِّثْلُنَا (14:10) والی بات تو سمجھ میں ہی نہیں آتی ۔ پہلا اعتراض ہی یہ آتا ہے ۔ بات سمجھانے کے لیے کبھی کبھی بیچ میں اپنی باتیں آجاتی ہیں ۔ مولانا ابوالکلام آزاد کی تفسیر جب شائع ہوئی 1921 ء کی بات ہے ۔ سارے ہندوستان میں اس قدر ان کے علم و فضل کا رعب تھا ۔ واقعی عالم آدمی تھا ۔ اس کی پہلی تفسیر مرتب شکل کے اندر دنیا کے سامنے آئی اور پھر جانتے ہو’ وہ تو ابوالکلام آزاد ہے’ الفاظ کا بادشاہ ہے ۔ اس کے خلاف سارے ہندوستان میں سے کسی نے کچھ نہ کہا ۔ اس کی تفسیر کے خلاف جو تنقید شائع ہوئی’ میری طرف سے شائع ہوئی ۔ اس نے الٹا کے رکھ دیا تھا ۔ یہ بات آگے چل کے آئے گی’ لیکن بہرحال وہ شائع ہوئی ۔ میں وہاں سنٹرل گورنمنٹ میں ملازم ہوتا تھا’ وہی جس طرح سے اور بابو صاحب ہوتے ہیں بابو تھا’ ایسی کیفیت ہوتی تھی ۔ تو ایک جگہ بیٹھے ہوئے تھے’ ایک صاحب وہیں کے تھے ‘ بات ہو رہی تھی’ کہ صاحب! یہ تنقید شائع ہوئی ۔ اس زمانے میں یہ پرویز صاحب بھی نہیں ہوتے تھے’ یہ چوہدری صاحب تھے’ زمانہ قبل از اسلام تھا’ ابھی چوہدری وہدری والی بات باقی تھی ۔ اس کے بعد گئی باتیں ۔ صاحب! ٹھیک بات ہے’ تم کہتے ہو وہ اچھا پڑھا لکھا آدمی تھا’ بہت بڑی بات ہے’ لیکن کہنے لگا ایک بڑا بنیادی فرق ہے’ کہ یہ پرویز صاحب کتنے پڑھے لکھے ہوں’ یہ ٹھیک ہے’ یہ سکالر تو ہوسکتے ہیں’ عالم نہیں ہوسکتے ۔ میں نے کہا کیا بات ہے ۔ اس لیے کہ ڈنک تو یہ بات مارتی تھی’ کہ دفتر میں ہمارے جیسا ہی بابو بیٹھا ہوا ابوالکلام آزاد سے ٹکر لے رہا ہے ‘ بَشَرٌ مِّثْلُنَا (14:10) کیسے ٹکر لے رہا ہے ۔ یہ بات Stand کر جاتی تھی ۔ یہ وجہ ہے کہ ان لوگوں کو جب بھی یہ اس دائرے میں ‘ اس لائن میں ‘ اس گزرگاہ میں آتے ہیں’ تو یہ باقیوں سے ہٹ کے کچھ ہونا پڑتا ہے ۔ پھر یہ اگر ذاتی بات نہ مانیں’ تو پھر تنقید سے سمجھاؤں ۔ مولانا مودودی صاحبؒ کے ساتھ میرے بڑے پرانے تعلقات تھے ۔ شاید آپ کو یہ علم نہیں کہ پنجاب میں آنے سے پیشتر’ یہ فرسٹ کلاس ماڈرن ٹائپ کے جنٹل مین تھے ‘ دو دفعہ کلین شیو کیا کرتے تھے ‘ نہایت عمدہ ان کے وہ جن کو بنگالی بابوؤں جیسے بال’ اس زمانے میں کہتے تھے ۔ آپ کیا جانیں پرانے زمانے کی باتیں ’’ اے بودے رکھے ہوئے جنوں کیندے سن‘‘ یعنی یہ جو اس سے پہلے کٹ ہوتا تھا ۔ یہ جو اب ہے’ سکھوں کے ہاں کے سمگل ہو کے قیس آ رہے ہیں ہمارے ہاں ‘ یہ نہیں اس زمانے میں ہوتے تھے ‘ اس زمانے کے جو بال ہوتے تھے’ بنگالی بال ہوتے تھے’ یہ رکھے ہوئے ہوتے تھے ۔ نہایت عمدہ قسم کے ‘ بڑا عمدہ قسم کا جنٹل مین قسم کا ۔ اس کیفیت سے میرے ہاں سے رخصت ہو کے’ یہ وہاں دارالسلام میں گئے تھے ۔ یہ ایک جرنلسٹ تھے ۔ وہاں پہنچنے کے بعد انہوں نے جب یہ جماعت کی تشکیل کرنی تھی’ اور یہ آنا تھا مذہب کے میدان میں ان لوگوں کے سامنے’ یعنی مذہبی چیزیں پہلے بھی رسالہ ان کا تھا’ اس میں لکھتے تھے’ لیکن جب یہ اس حیثیت میں آنا تھا’ تو انہوں نے اس سے پہلے چھ مہینے اس کی تیاریاں شروع کی تھیں ۔ اس وقت انہوں نے داڑھی رکھی تھی’ ان بالوں کو پٹوں کے اندر تبدیل کیا تھا’ اور یہ جو مولویت کی ہیّت تھی یہ بتائی تھی ۔ اس لیے کہ یہ اعتراض جو ہے أَنتُمْ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا (14:10) یہ نہ رہے ۔ یہی اعتراض تھا بَشَرٌ مِّثْلُنَا ۔ بات جو کہتا ہے وہ نہیں ‘ ہم سے الگ تھلگ ہونا چاہیے ۔ آپ دیکھتے ہیں آج تک بھی ان کے الگ تھلگ گروہ ہیں’ خواہ وہ ہندوؤں کا پنڈت ہو ‘ خواہ وہ عیسائیوں کا پادری ہو ‘ خواہ ہمارے ہاں کا مولوی ہو ۔ اور حضرت صاحب تو پھر آپ پوچھئے ہی نہیں’ عام جو لوگوں کا انداز ہوتا تھا’ اس میں سے الگ انداز ہوتا ہے ۔ یہ چھوٹی سی چیز ہے’ بَشَرٌ مِّثْلُنَا سے ہٹنے کی ۔ کہتے ہیں پہلا اعتراض تو یہ تھا بَشَرٌ مِّثْلُنَا ۔ دوسرا اعتراض ہمارا یہ ہے ۔ عزیزانِ من! آپ دیکھ لیجیے لفظاً آج صحیح آ رہا ہے یا نہیں ۔ یہ جو آپ کو اس قرآن کی آواز کے خلاف بھڑکایا جاتا ہے’ یا روکا جاتا ہے’ ایک ہی دلیل ہوتی ہے’ کہ سلفِ صالحین جس مسلک پہ چلے آ رہے ہیں’ یہ اس سے تمہیں بہکا رہا ہے ۔ ہے ناں یہی ایک دلیل ۔ کچھ کہیے ان سے ‘ وہ کہتے ہیں’ کہ صاحب! اس سے پہلے کسی نے کہا ہے ‘ ہمارے ہاں کے کسی امام کے قول میں ‘ کسی مفسر کی تفسیر میں یہ بات آئی ہے؟ جس مسلک پہ ہمارے اسلاف چلے آ رہے ہیں’ یہ اس سے ہٹی ہوئی بات کہتا ہے ۔ دوسری دلیل یہ ہوتی ہے ۔ پہلی تو انہوں نے کہا’ کہ ہمیں تو اعتراض یہ ہے کہ بَشَرٌ مِّثْلُنَا دوسری یہ ہے تُرِيدُونَ أَن تَصُدُّونَا عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُنَا (14:10) دوسرا اعتراض یہ ہے’ کہ ہمارے آباؤ اجداد جس مسلک پہ چلے آ رہے تھے’ تم ہمیں اس سے روکنا چاہتے ہو ۔ دلیل یہاں بھی نہیں ‘ دلیل وہی ہے جو پچھلی بھیڑ دیا کرتی ہے ۔ ارے کیوں ادھر چلی جا رہی ہو؟ وہ کہتا ہے اگلی بھیڑ جو چلی جا رہی ہے ۔ وہ سب سے پہلی بھیڑ کھائی میں گرتی ہے’ دوسری بھی کھائی میں گرتی ہیں ۔ صاحب! دلیل نہیں ۔ قرآن تو عقل و دانش کو اپیل کرنے کے لیے آیا ہے ۔ وہ کہتا ہے میری ہر بات آن میرٹ پرکھو کہ میں کہتا کیا ہوں ۔ نہیں صاحب! اسلاف کے طریقے تم ہمیں بہکا رہے ہو ۔ او بابا! پرکھ کے دیکھ لیجیے اگر وہ طریقہ قرآن کے مطابق ہوگا بسم اللہ ہم اس کو اختیار کرلیں گے ۔ وہ طریقہ تم نے پھر خود اختیار کیا ہوگا اپنی عقل و دانش کی رو سے ‘ ہم یہ تو نہیں کہتے کہ ہر بات جو چلی آ رہی ہے اس سے انکار کر دیجیے ۔ کہتا ہے کہ نہیں! تم تو اس سے ہٹانے کے لیے ہوگئے ۔ پھر کیا بات ہوگی؟ کہتا ہے یہ جو تم بار بار دھمکی دے رہے ہو’ کہ ہم تباہ و برباد ہوجائیں گے’ اور تمہاری یہ بات جو ہے یہ غالب آ کے رہے گی ۔ فَأْتُونَا بِسُلْطَانٍ مُّبِينٍ (14:10) پھر ٹھیک بات یہی ہے صاحب! غلبہ لا کے بتاؤ’ دیکھ لیں گے اس وقت ۔ یعنی اس وقت بھی دلیل کی بنا کے اوپر نہیں ہم بات مانیں گے’ پھر جوتے کے زور سے مانیں گے ۔ قرآن نے یہ کہا ہے طَوْعًا وَكَرْهًا (3:83) کہ جو ہماری ان چیزوں کو طَوْعًا نہیں مانتا’ بطیب خاطر نہیں مانتا’ زمانے کے تقاضے تھپڑ مار مار کے اس کو منوا دیتے ہیں ۔ یہ ماننا تو پھر ایمان نہیں ہے ۔ فَأْتُونَا بِسُلْطَانٍ مُّبِينٍ (14:10) غلبہ لاؤ ۔ قَالَتْ لَهُمْ رُسُلُهُمْ (14:11) ان کا جواب سنیے ۔ پہلی بات جو ہے یہ’ کہ ہمارے ہی جیسا انسان ۔ ذرا ان لوگوں سے کہہ کے دیکھیے’ کہ وہ حضرت صاحب تو ہمارے آپ کی طرح سے! معاذ اللہ معاذ اللہ لاحول ولا ‘ او میاں! ان کی شان کے اندر کتنی بڑی گستاخی کر رہے ہو ‘ کیا کہہ رہے ہو! وہ تمہارے اور ہمارے جیسے اس قسم کے ۔ سنتے ہو ان کا جواب ‘ حضرت صاحب نہیں’ نبی خدا کا رسول ‘ چنا ہوا برگزیدہ ‘ انسانوں سے بلند ترین مقام کے اوپر کھڑا ہوا ہے ۔ نبی تو کہتے ہی اس کو ہیں جو بلند مقام کے اوپر ہوتا ہے ۔ جواب کیا ہے؟ إِن نَّحْنُ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ (14:11) بالکل صحیح بات ہے’ تمہارے ہی جیسا ایک انسان ۔ آہاہا! عزیزانِ من! یہی ان کا کریکٹر ہے’ ورنہ کیا مشکل تھا’ ان سے ذرا بلند ہو کے بات کرنے سے ۔ یہ تو ان کا ازخود کہنا تو ایک طرف’ یہ تو ایسے مواقع کو بھی Exploit نہیں کرسکتے ۔ یہ ان کے کریکٹر اور سیرت کی بلندیاں ہیں’ ورنہ کیا مشکل تھا’ کوئی اور بنا ہوا ہوتا۔ نبی اکرمﷺ کا ابراہیم جو فوت ہوگیا ہے’ تو دن چڑھا تو سورج کو گرہن لگا ہوا تھا ۔ عرب جیسا Superstitious ملک ‘ یہ تو آج بیسویں صدی میں بھی کہیں ایسا ہوجائے’ تو آپ دیکھیے جھرمٹ کی طرح وہاں چلی جائے صاحب! آپ بالکل سچے ہیں ۔ وہ حضورﷺ کی طرف ہجوم کرکے آگئے’ کہ ہم اسلام لاتے ہیں’ ہم گواہی دیتے ہیں’ کہ آپﷺ سچے ہیں ۔ آپﷺ نے کہا کہ بڑا خوشی کا مقام ہے’ تم اتنی مخالفت چھوڑ کے تم آج اسلام لانے کے لیے آگئے ہو’ مجھے بڑی خوشی ہے’ لیکن میں یہ سمجھنا چاہتا ہوں’ کہ کل شام تک تو تمہاری کیفیت یہ تھی’ کہ تم میری مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگاتے تھے’ آج کیا ہوا؟ کہ تم اس طرح میری طرف آگئے ہو’ کہ ہم ایمان لاتے ہیں’ کیا بات ہوئی؟ انہوں نے کہا کہ اس سے زیادہ آپﷺ کی صداقت کی شہادت اور کیا ہوگی’ کہ آپﷺ کا بچہ فوت ہوا ہے’ اور آپﷺ کے غم میں اجرامِ فلکی نے بھی سیاہ لباس پہن لیا ہے ۔ آپ نے دیکھا یہ خود انہوں نے اس کے اندر کچھ نہیں کیا ‘ ایک بات ہوئی ہے’ اور وہ یوں آگئے ہیں ۔ عزیزانِ من! کوئی بھی اور ذرا پست سطح کا انسان ہوتا’ نہ ہی دانستہ فریب دیتا’ کم از کم اپنے آپ کو یہ فریب دے لیتا’ کہ میں نے تو نہیں ان کو دھوکہ دیا’ یہ از خود آ رہے ہیں’ اور اگلا فریب یہ دیتا’ کہ بالآخر نیک کام کے لیے آ رہے ہیں۔ آج اس طرح سے ان کو لے آؤ’ مسلمان کرلو’ تو کل پھر خود ہی ٹھیک ہوجائیں گے’ لیکن یہ تو نبی ہوتا ہے’ یہ تو قرآن نے کہا ہے وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ (68:4) تو کریکٹر کی بلندیوں کے اوپر ہے ۔ کریکٹر کی بلندیوں کا انسان ان سے یہ کہہ رہا ہے’ کہ اگر اس بنا پہ اسلام لانے کے لیے آتے ہو’ تو مت اسلام لاؤ ۔ چاند اور سورج کو گرہن خدا کے طبعی قوانین کے تابع لگتا ہے’ کسی انسان کی موت و غم سے ان کو کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔ عزیزانِ من! اسے کہتے ہیں ایک رسول کا کریکٹر ۔ ایسے ہی نہیں چن لیا جاتا’ کہ آگ لینے کو جائیں پیامبری مل جائے ۔ آ ہا ہا! یہ ہے اسوۂ حسنہ جس کے اتباع کا حکم دیا ہے ‘ قیامت تک کے انسانوں کے لیے یہ اسوۂ حسنہ ہے ۔ کہ تمہارا خود دانستہ فریب دینا تو ایک طرف رہا’ اگر اس قسم کا یونہی ایک چانس بھی ہوجائے’ تمہاری زندگی میں’ اور تم دیکھو کہ حقیقت کے خلاف ہے’ تو مت Exploit کرو ‘ اعلان کرو حقیقت کا’ کہ نہیں صاحب! مجھے یہ مصیبتیں اور مخالفتیں مول لینا جو ہے’ برقرار ہے’ ٹھیک ہے میں لونگا ‘ میں Exploit نہیں کرنا چاہتا اس چیز کو ‘ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے میرے بچے کی موت کے ساتھ ۔ عزیزانِ من! اگلی بات یہ ہے’ کہ اس طرح سے اسلام لانے والا دوسرے ہی دن چھوڑ کے بھی چلا جاتا ہے۔ کسی دن کوئی بات اس طرح کی نہ ہوئی مرضی کے مطابق ‘ یونہی آنکھیں بند کرکے اسلام لائے تھے آنکھیں بند کرکے چھوڑ کے بھاگے’ لیکن جو دلیل و برہان کی رو سے اسلام لائے گا’ یہ ہے چیز ۔ رسول اللہﷺ کی زندگی کی ایک چیز ہے ‘ تاریخ میں مثال نہیں ملتی’ کہ جب یہ تمام منافقین وغیرہ چھٹ گئے’ اور صحابۂ کبارؓ کی جماعت ساتھ ہوگئی’ ساری تاریخ میں ایک واقعہ نہیں’ کہ ایک شخص نے ساتھ نہیں چھوڑا ۔ اس لیے کہ وہ اس قسم کی تواہم پرستیوں کی بنا پہ اسلام نہیں لائے تھے ‘ انہوں نے ان سے اس طرح سے اپنے آپ کو نہیں منوایا تھا’ کہ فوق البشر ہو کے ان کی اس قسم کی چیزوں سے منوا لے ۔ نہیں بھئی! یہ بات نہیں ہے ‘ عقل و فکر سے مانو گے’ تو جب بات ہے ۔ کہا کہ إِن نَّحْنُ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ (14:11) یہ ٹھیک بات ہے’ تمہارے ہی جیسا ایک انسان ہے ‘ کوئی بات تم سے بڑی نہیں ۔ ایک ہی چیز جو تھی’ کہ خدا کی طرف سے مجھے یہ علم ملتا ہے’ جسے وحی کہا جاتا ہے’ یہ ایک بات ہے’ اور اس میں بھی میری اپنی کاریگری کا کوئی دخل نہیں ہوتا ۔ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَمُنُّ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ (14:11) یہ تو اس کی طرف سے ایک خاص انعام ہے ‘ احسان ہے ‘ اختصاص ہے ۔ وہ جسے اپنے معیار کے مطابق دیکھتا ہے’ وہ اس کی طرف سے یہ مل جاتا ہے’ اس میں تو میرے کسب و ہنر کا بھی کوئی دخل نہیں ہے’ میری محنت و کاوش کا بھی کوئی دخل نہیں ہے ۔ عزیزانِ من! یہاں سے ایک بہت بڑی چیز سامنے آتی ہے’ کہ وحی اکتسابی نہیں ہوتا ۔ یہ بات نہیں ہے’ کہ آپ محنت و کاوش سے آپ درجہ بدرجہ’ پہلے آپ خدا کے ذرا سے مبلغ بنے’ پھر مناظر بنے’ پھر اس کے بعد کچھ ولی بنے’ پھر محدث بنے’ پھر وہ بروجی بنے’ پھر وہ آپ ظہوری بنے’ امتی بنے’ پھر کرشن گوپال بنے’ چڑھتے جائیں’ اور میں نبی بن گیا ۔ يَمُنُّ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ (14:11) قرآن کہتا ہے جسے نبوت ملتی ہے’ اسے ایک ثانیہ پہلے پتہ نہیں ہوتا کہ مجھے یہ ملنے والا ہے ۔ جو اکتساب سے اپنی محنت سے بنتا ہے’ اس کو تو ہر روز پتہ ہوتا ہے ۔ محنت کرنے والے طالبعلم سے پوچھ لیجیے’ وہ کہتا ہے کہ اس دفعہ فرسٹ ڈویژن ضرور آجائے گی’ میں نے بڑی محنت کی ہوئی ہے ۔ اسے تو اس کا پتہ ہی نہیں ہوتا ۔ يَمُنُّ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ (14:11) اور یہ بات ہے جو اتنی بات ہوئی ہے ۔ باقی رہا یہ کہ تم کہتے ہو کہ لاؤ وہ غلبہ جس کا میں یہ کہہ رہا ہوں ۔ وَمَا كَانَ لَنَا أَن نَّأْتِيَكُم بِسُلْطَانٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّـهِ (14:11) یہ بھی میرے اختیار میں نہیں ہے’ کہ میں جب جی چاہے وہ چیز لے آؤں’ جس کا میں یہ کہہ رہا ہوں ۔ یہ تو خدا کے قانون کے مطابق ہوگا ۔ میں جو بات کہہ رہا ہوں’ اس بات کو پرکھ کے دیکھو’ کہ اس کا نتیجہ یہ ہوسکتا ہے یا نہیں’ جو میں تمہیں کہہ رہا ہوں ۔ میں یہ کہتا ہوں تمہیں’ کہ آگ میں ہاتھ مت ڈالو انگلی جل جائے گی ‘ تم کہتے ہو کہ ہم آگ میں تو ہاتھ نہیں ڈالتے ۔ میں تو تمہیں خدا کے قانون کی ایک بات کہہ رہا ہوں’ تم کرکے دیکھ لو ۔ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّـهِ (14:11) باقی رہی یہ بات’ کہ میں اتنا حتم و یقین سے تمہیں یہ کیوں کہتا ہوں’ کہ یہ ایسا ہو کر رہے گا ۔ کہا یہ بھی نہیں ہے’ کہ کوئی اس طرح کا کوئی اندر سے لدنی علم مجھے حاصل ہوگیا ہے’ کشف کوئی ہوگیا ہے’ میں نے دیکھ لیا ہے’ کہ یہ ٹھیک ہے’ کہ محمدی بیگم سے میرا نکاح ہوگا’ وہ اس دنیا میں نہیں ہوگا’ مرتے دم تک نہیں ہوگا’ اس نے کہا تب کیا ہوگا’ محمدی بیگم وہاں بھی تو ہوگی’ وہاں ہوجائے گا ۔ اس نے کہا تم نے اس کی بکری ذبح کرکے کھالی ۔ کہنے لگا ہاں میں نے کھا لی ہے ۔ کہنے لگا یہاں تو تم مکر بھی جاؤ گے’ نہیں دو گے قیامت کے دن’ جب تم خدا کے ہاں پیش ہوگے ‘ وہاں اس نے کہا کہ صاحب! میری بکری اس نے چوری سے ذبح کرکے کھالی ‘ کہنے لگا میں وہاں بھی مکر جاؤں گا ۔ کہنے لگا وہاں بکری بھی ہوگی’ جو کہے گی کہ ہاں! مجھے ذبح کیا تھا ۔ کہنے لگا بڑی آسان بات ہے’ اس کا کان پکڑوں گا اور کہوں گا لے لو اپنی بکری ۔ کہا کہ کس طرح سے یہ بات حتم و یقین سے کہہ دوں ‘ کہنے لگے بالکل یہ صحیح بات ہے ۔ جو میں کہہ رہا ہوں’ وہ اس لیے کہہ رہا ہوں فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ (14:11) جو خدا کے قوانین پہ ایمان لاتا ہے’ اس کے قوانین کی نتیجہ خیزی کے اوپر اس کو اتنا بڑا اعتماد ہوتا ہے’ کہ اس کی کیفیت یہ ہوتی ہے’ کہ وہ دھوئیں کو دیکھتا ہے’ اور کہہ دیتا ہے کہ نیچے آگ جل رہی ہے ۔ عزیزانِ من! اسے توکل کہتے ہیں ۔ اس کے قانون کی نتیجہ خیزی کے اوپر یقینِ محکم ۔ ہمیں اس پہ یقین ہے ۔ مؤمنین جب یہاں کہا ہے’ تو یہاں جماعتِ مسلمین نہیں’ بلکہ وہ شخص جو قانون کی صداقت پر ایمان لاتا ہے’ اسے اس کی نتیجہ خیزی کے اوپر اعتمادِ کامل ہوجاتا ہے ۔ یہ ہے وہ اعتماد جس بنا پہ میں یہ کہتا ہوں کہ
گندم از گندم بروید جو ز جو
تم نے گندم بوئی ہے’ میں آج چھ مہینے پہلے کہہ دیتا ہوں’ کہ اس میں جو نہیں پیدا ہونگے’ گندم پیدا ہوگی ۔ تم یہ کہتے ہو’ کہ صاحب! یہ تو حضرت صاحب نے پیشین گوئی کردی ۔ یہ حضرت صاحب ہوتے تو واقعی کہتے’ کہ ٹھیک ہے صاحب! ہم نے اپنے کشف کی رو سے یہ دیکھ لیا ‘ دیکھ لیجیے گا ٹھیک ہوتا ہے یا نہیں ‘ یہ پیشین گوئیاں کرتے تھے ۔ یہ پیشین گوئیاں نہیں کرتے تھے’ یہ کہتے یہ تھے کہ ہمیں خدا کے قانون کے اوپر اتنا بھروسہ ہے’ ہم جانتے ہیں کہ تم نے کیکر کا بیج بویا ہے’ اس میں انگور نہیں آئیں گے ۔ یہ تَوَكَّل کہلاتا ہے ۔ وَمَا لَنَا أَلَّا نَتَوَكَّلَ عَلَى اللَّـهِ (14:12) کہا ہے سوال یہ ہے’ کہ ہم اس قسم کا اعتماد کیوں نہ کریں ۔ بھئی! کیسے یہ اعتماد تم میں پیدا ہوگیا ۔ وَقَدْ هَدَانَا سُبُلَنَا (14:12) اس نے راستے روشن کردیے ہیں ہمارے سامنے ۔ اور راستے کے اوپر اس نے سائن پوسٹ لگا دیا ہے’ کہ یہ سڑک گلبرگ کو جاتی ہے’ یہ شہر کی طرف جاتی ہے ۔ هَدَانَا کے معنی ہوتا ہے’ کسی چیز کو ابھار کے سامنے لے آنا ۔ راستوں کے نشانات ابھار کے ہمارے سامنے لے آیا ہے’ اور ہمیں یہ پتہ ہے’ کہ وہ جھوٹے نشان نہیں ہوتے ۔ عزیزانِ من! آپ دیکھتے ہیں’ وہ تو خدا کے نشان ہیں ۔ یہی آپ ہائی وے پہ چلے جاتے ہیں ‘ کوئی بتانے والا نہیں ہوتا ‘ سینکڑوں ہزاروں میل یہاں سے وہ یورپ تک چلے جاتے ہیں’ سڑکوں کے اوپر’ کہیں نہیں بھولتے ۔ کیا چیز ہے جس سے نہیں بھولتے؟ ہر موڑ کے اوپر وہاں انہوں نے لکھ کے لگا رکھا ہوتا ہے’ اتنے میل تم آگئے ‘ فلا ں جگہ اتنی میل ہے ‘ Turn to the Right , Turn to the Left ‘ یہاں سے ادھر جاؤ’ وہاں سے ادھر جاؤ ۔ اس قسم کے نشانات جب سامنے آجائیں’ تو وہ موٹر میں سفر کرنے والا یقین اعتماد کے ساتھ جاتا ہے’ کہ میں شام کو وہاں پہنچ جاؤں گا ۔ یہ ہے أَلَّا نَتَوَكَّلَ عَلَى اللَّـهِ وَقَدْ هَدَانَا سُبُلَنَا (14:12) باقی رہا یہ تم ہماری مخالفت کرتے ہو ‘ اذیتیں دیتے ہو ‘ سب کچھ ۔ جسے اس بات کا یقین ہو’ کہ میری اس محنت کا نتیجہ یہ نکل کے رہے گا’ تو وہ راستے میں تھک کے کیوں بیٹھ جائے ‘ کسی مخالفت سے اس راستے کو چھوڑ کے دوسرا راستہ کیوں اختیار کرلے ۔ وَلَنَصْبِرَنَّ عَلَىٰ مَا آذَيْتُمُونَا (14:12) تم جتنی بھی اذیتیں ہمیں دیتے ہو’ ہم جھیلتے جائیں گے’ کیونکہ ہمیں یقین ہے’ کہ ہمارا ہی راستہ ہے’ جو ہمیں منزل تک پہنچا سکتا ہے’ کسی کی اذیت سے ہم غلط راستہ نہیں اختیار کرسکتے ۔ وَعَلَى اللَّـهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ (14:12) اور یہ بات کچھ ہمارے ہی ساتھ نہیں ہے’ جو بھی خدا کے قانون پہ اس طرح سے یقین رکھ کر ایمان لائے گا’ ہو اس کے نتیجوں کے متعلق ایسا ہی بھروسہ اور اعتماد رکھے گا’ جیسا ہم رکھ رہے ہیں ۔ یہ بات نبیوں کے ساتھ ہی نہیں ہے جو بھی ایسا کرے گا یہ چیز اس کے بعد ہوجائے گی ۔
عزیزانِ من ! ہم سورۃ ابراھیم کی آیت 12 تک آگئے ۔ آیت 13 سے آئندہ لیں گے ۔
رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّاط اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
|…|…|