Parwez-Ibrahim-1-to-5

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّ‌حْمَـٰنِ الرَّ‌حِيمِ
درسِ قرآنِ حکیم ازمفکر قرآن علامہ غلام احمد پرویزؒ
پہلا باب:  سورۃ ابراھیم (14) آیات(1تا 5 )
      عزیزانِ من !  آج نومبر 1974 ء کی 10تاریخ ہے اور درسِ قرآنِ کریم کا آغاز سورۃ ابراھیم سے ہوتا ہے ‘  14 ویں سورۃ کی پہلی ہی آیت سے ۔
      یہ آیت بھی مقطعات سے شروع ہوتی ہے ۔ ان کے متعلق میں عرض کرچکا تھا پہلے ہی جب یہ آتے رہے ہیں’ کہ یہ ان مقطعات کے معنی کیا ہیں ۔ الر خدائے علیم و رحیم کا ارشاد ہے کہ كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ (14:1) یہ ایک ضابطۂ قوانین و ہدایت ہے’ جو تیری طرف نازل کیا جاتا ہے ۔ اب اس کے بعد آیا  لِ اس کی غرض کیا ہے ‘  اس کا مقصد کیا ہے ‘  غایت کیا ہے ‘  منتہا کیا ہے ‘  کرے گا کیا ؟  تو بڑی بات ہے ۔ یہ بتایا جائے کہ یہ کتاب ‘  یہ ضابطۂ قوانین کیوں بھیجا جا رہا ہے ‘  اس سے بالآخر ہوگا کیا؟  محض اس کی تلاوت سے ثواب ہوگا؟  اب ایک تو چیز یہ ہے کہ ہم اپنی طرف سے ہی یہ چیزیں طے کرلیں’ کہ یہ ہوگا کیا ؟ اور قرآن تو اسی معنی میں مذہب کے مقابلے میں دین پیش کرتا ہے’ کہ یہ جو کچھ کہتا ہے اس کے ساتھ یہ کہتا ہے’ کہ میں کیوں یہ کہہ رہا ہوں ‘  اس کا نتیجہ کیا ہوگا ‘  اس کا مقصد کیا ہے ‘  یہ کرو گے تو ہوگا کیا ۔ یہ بڑی چیز ہے ۔ اگر صرف حکم دیا جائے’ اور یہ نہ بتایا جائے کہ کیوں’ تو پہلی تو Psychological چیز یہ ہے’ کسی بچے کو آپ نے کسی بات سے باز رکھنا ہو’ تو اگر تو یہی چیز جو ہمارے ہاں عام طور پہ ہے یہی چیز ہے’ وہ ڈانٹ دیا اس کو کہ ایسا مت کرو ‘  یہ نہ کرنا ایسا ۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کے ڈانٹنے سے ‘  آپ کے ڈر سے ‘  خوف سے بچہ اس وقت تو وہ نہ کرے’ آپ دیکھ لیجیے گا آزما کر’ کہ جہاں آپ سامنے نہیں ہونگے’ بچہ ضرور وہ کچھ کرے گا ۔ اور اگر اسے سمجھایا جائے ‘  سمجھنے کی عمر اس کی آگئی ہو’ کہ نہ بھئی بچہ!  اس میں یہ نہیں کرتے’ اس سے یہ ہوتا ہے ‘  اس سے یہ ہوگا ۔ اور اگر وہ یہ بات جو ہے اسے آپ سمجھا سکیں’ اور وہ سمجھ لے’ پھر آپ سامنے ہوں یا نہ ہوں وہ پھر ایسا نہیں کرے گا ۔ یہ انسانی عقل کا خاصا ہے’ کہ جس بات سے یہ مطمئن ہوجائے’ پھر یہ اس طرف نہیں آتی ۔ یہ جو کچھ اس کے باوجود کہ ایک دفعہ کچھ کہا ہے’ اس کے بعد بھی یہی کچھ ہو رہا ہے’ وہ ہوتا یہ ہے کہ وہ مطمئن نہیں کرسکتے ہم اسے ‘  وہ مطمئن نہیں ہوتی ۔ مذہب حکم دیتا ہے ‘  عقل کا اطمینان نہیں کرتا ۔ خدا کتاب نازل کرتا ہے’ تو ساتھ ہی کہتا ہے کہ ہم نے حکمت بھی نازل کی ‘  اس کے ساتھ ہی خدا نے خود بتایا  The why of it   کیوں ہم یہ کہہ رہے ہیں ۔ ایک تو فوراً وہ بچے کو عہدِ طفولیت سے جوانی کے زمانے میں لے گیا’ کہ اس کو کیوں سمجھایا گیا ۔ پھر  ’’کیوں‘‘  بھی یہ ہم پہ نہیں چھوڑ دیا گیا ‘  مذہبی پیشوائیت پہ نہیں چھوڑ دیا گیا ۔ اب تو صورت ہماری یہی ہے کہ کوئی چیز بھی جب ہم سے مذہب یا شریعت کی کہی جاتی ہے’ تو ہم ان کی طرف رجوع کرتے ہیں’ کہ ایسا کیوں ہے؟  وہاں سے یہ جواب ملتا ہے’ کہ خدا کا حکم ہے ‘  ذرا اور آگے چلے بھی تو یہ’ کہ خوشنودیٔ باری تعالیٰ ہے ۔ آپ کی عقل اس سے مطمئن نہیں ہوتی ۔ وہی ایک یا تو آپ کے دل میں خوف ہوگا’ جس کی وجہ سے آپ کریں گے ۔ زیادہ خوف ہی کا جذبہ ہوتا ہے:  ڈرو خدا سے ‘  اس کے عذاب سے ‘  جہنم میں عذاب ہوگا ‘  قبر کاعذاب ہوگا ۔ وہی خوف کا جذبہ جو ہے’ طاری کیا جاتا ہے ۔ نبی اکرمﷺ کی بعثت میں انسان کو صاحبِ اختیار و ارادہ ‘  ذمہ دار ‘  بالغ قرار دیدیا گیا ۔ قرآن نے جہاں کوئی حکم دیا’ اس کے ساتھ وہاں خود بتایا ہے’ کہ یہ ہم کیوں ایسا کہہ رہے ہیں؟  اس کا نتیجہ کیا ہوگا ۔ دوسرا اس سے فائدہ یہ ہوتا ہے’ کہ جب ہم اس پہ عمل کریں اس حکم پہ’ تو پرکھ لیں کہ عمل صحیح ہوا ہے یا نہیں ۔ یہاں تو مذہب کی دنیا میں تو ہمارے لیے پرکھنے کا کوئی نتیجہ نہیں ہے ۔ تیری نماز ہوگئی ہے ‘  وہ ان کے معیار کے مطابق کہ ٹھیک ہے’ تم نے ہاتھ ٹھیک اٹھائے ‘  سینے پہ باندھے ‘  جھکے ٹھیک ‘  سجدہ ٹھیک کیا ‘  پاؤں کے درمیان فاصلہ صحیح تھا ‘  نماز ہوگئی ۔ ہوا کیا اس سے؟  ایک فریضۂ خداوندی ادا ہوگیا ۔ او بھئی!  مجھے کیا اس سے ملا؟  خوشنودیٔ باری تعالیٰ ۔ نہ کرتا عذاب ہوتا ۔ لیکن اگر خدا یہ کہہ دے’ کہ اس سے یہ ہوتا ہے إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ (29:45) صلوٰۃ تمہیں فواحش اور منکرات سے روک دے گی’ تو سیدھی سی بات ہے کہ پھر صلوٰۃ ہوئی ہے یا نہیں ہوئی’ بڑی جلدی پہچان ہوجائے گی ۔ اگر وہ آپ کو ان سے روکتی ہے’ تو صلوٰۃ ٹھیک ہوگئی ‘  وہ نہیں روکتی تو صلوٰۃ نہیں ٹھیک ہوئی ۔ آپ نے دیکھا کتنا فرق ہے’ کہ حکم کے ساتھ اگر یہ بتا دیا جائے’ کہ اگر یہ کرو گے’ تو یہ ہوگا ‘  ہم اس لیے کہتے ہیں ‘  جہاں لکھا ہے كُتِبَ عَلَيْكُمُ (2:183)تم پہ یہ فرض قرار دیا گیا ہے’ آگے ہوتا ہے لَعَلَّكُمْ (2:183) تاکہ اس کا یہ نتیجہ نکلے ۔ اور اس کے معنی یہ ہیں’ کہ یہ کرنے کے بعد مطمئن ہو کے نہ بیٹھ جاؤ’ کہ ہاں صاحب!  ٹھیک ہوگیا ۔ ڈاکٹر نے جب کہہ دیا کہ یہ ہے دوائی ‘  اگر دوائی تمہیں صحیح مل گئی’ تو یاد رکھیے!  پندرہ منٹ کے اندر اندر ٹمپریچر اتنا Low  ہوجائے گا ۔ دوائی دیجیے ‘  پندرہ منٹ کے بعد دیکھئے ٹمپریچر  Low ہوگیا’ تو دوائی صحیح ہے ‘  نہیں Low ہوا تو آپ اس کے بعد اس کو Repeat  نہیں کرتے چلے جائیں گے ۔ کہیں کوئی نقص ہے ‘  تشخیص میں نقص ہے ‘  دوائی تجویز کرنے میں نقص ہے ‘  دوائی میں نقص ہے ۔ کہیں کوئی نقص ہے’ کیونکہ وہ جو  لَعَلَّكُمْ (2:183) کہا تھا  ’’تاکہ اس کا نتیجہ یہ ہو ‘‘  وہ نہیں ہوا ۔ نہیں ہوا تو اب رک جائیں گے ۔ اگر قرآن کا لَعَلَّكُمْ (2:183) سامنے ہوتا ‘  یہ مذہب کی سطح پہ نہ آجاتا ‘  جونہی ان اعمال سے آپ کے وہ نتائج مرتب ہونے بند ہوتے’ کہ جو قرآن نے بتائے ہیں’ تو آپ وہیں کھڑے ہوجاتے ۔ سوچتے کہ پھر یہ بات نہیں ہوئی ہے’ اس لیے وہ جو کچھ قرآن نے کہا تھا’ وہ نہیں میں کرسکا ۔ اور جونہی یہ چیز ہوتی کبھی بھی آپ دوسرے راستوں میں نہ چل پڑتے ۔ آپ کو مطمئن کرا دیا گیا ‘  فریب دیدیا گیا’ کہ یہ چیزیں جو ہیں اس کا نتیجہ وہاں قیامت میں جا کے نکلے گا ۔ تمہارا کام فرائضِ خداوندی ہیں’ ان کو تم ادا کرتے جاؤ ‘  احکام ہیں ۔ خوشنودی زیادہ سے زیادہ ‘  نتیجہ نہیں کچھ ۔ یہ کرو گے وہ خوش ہوجائے گا ۔ قرآن کا انداز یہ نہیں ہے ۔ میں نے کہا ہے کہ وہ کتاب نازل کرتا ہے’ ساتھ کہتا ہے اس کی حکمت بھی ہم نے ہی نازل کی ۔ تم خود نہ یہ طے کرنے بیٹھ جاؤ ۔ مذہب کی دنیا میں جتنے احکام منوائے جاتے ہیں  لَعَلَّكُمْ (2:183)  جو ہے ’’کیوں ‘  کیا ہوگا ‘‘  وہ بھی مُلا بتاتا ہے ۔ نہ اسے پتا ہوتا ہے نہ آپ کو بتا سکتا ہے ۔
نہ دکھ جائے نہ درماں راس آئے
مگر خبطِ دوا ہے اور میں ہوں
کیے چلے جا رہے ہیں ۔ كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ  (14:1) عزیزانِ من!  دو لفظوں میں ساری بات کہہ گیا ۔ اس لیے نازل کی جاتی ہے تاکہ اس سے نوعِ انسانی کو ‘  النَّاسَ کو ( اس کے اندر پوری انسانیت ہے )  تاریکیوں سے نکال کے روشنی میں لے آئے ۔ بات ختم ہوجاتی ہے ۔ غور کیجیے !  کس قدر جامعیت سے ایک بات کہی گئی ہے ۔ سب سے پہلی بات ‘  پہلی وجہ پریشانیوں کی ‘  خوف کی ‘  ڈر کی ‘  تذبذب کی ‘  عدمِ یقین کی ‘  پہلی چیز ہے اندھیرا ‘  تاریکی ۔ تاریکی میں انسان رسی کو بھی سانپ سمجھنے لگ جاتا ہے ۔ کچھ پتہ نہیں ہوتا کوئی شے کہاں ہے ‘  اس کمرے کے اندر کون ہے ‘  دشمن ہے ‘  دوست ہے ۔ وہی جس کمرے میں آپ روز پھرتے ہیں ‘  ذرا بجلی بجھ جاتی ہے’ تو انہی چیزوں سے آپ ٹھوکریں کھانی شروع کردیتے ہیں’ جو آپ نے اپنے ہاتھوں سے وہاں رکھی ہوئی ہوتی ہیں ۔ ذرا سی آہٹ ہوتی ہے’ تو آپ کان کھڑے کرلیتے ہیں  ’’کون ہے ؟ ‘‘ ۔ تاریکی ہے یہ سب کچھ جو پیدا کردیتی ہے ۔ اور پہلی چیز آپ کے لیے یہ ہے کہ روشنی آجائے ۔ روشنی سے ‘  پہلی چیز یہ نظر آتی ہے کہ سانپ سانپ نظر آتا ہے’ رسی رسی نظر آتی ہے ۔ اب آگے چلئے ‘  ٹھیک ہے سانپ ہے تو اس کو مارنے کی تدبیر کیجیے ۔ یہ تو نہ شبہ رہا’ کہ آپ نے رسی کو سانپ سمجھ لیا’ اور خوامخوہ کے لیے کوٹنے لگ گئے’ یا سانپ کو ہی رسی سمجھ لیا ۔ پھر یہ تو نہیں ہوگا’ کہ آپ نے جو خود راستے میں تپائی رکھی ہے’ اس سے ہی ٹھوکر کھا جائیں ۔ تاریکیوں میں تو اپنے ہاتھوں سے رکھی ہوئی تپائیوں سے آدمی روز کتنی ٹھوکریں کھاتا رہتا ہے ۔ عزیزانِ من!  تاریکی سے روشنی کا آجانا جو ہے اس میں پہلی چیز جیسا میں نے عرض کیا ہے’ ہر شے اپنی اصلی حقیقت میں آپ کے سامنے آجاتی ہے ۔ پہلی چیز یہ ہے’ ٹھیک ہے ۔ اب آگے آپ کا اختیار و ارادہ ہے ۔ نہیں بچنا چاہتے سانپ سے ‘  ٹھیک ہے ڈسوا لیجیے ‘  مرئیے ۔ اس غلط فہمی میں تو آپ نہیں رہیں گے کہ یہ رسی ہے ‘  یہ تو واضح ہوجائے گا کہ سانپ ہے ۔ اختیار و ارادہ انسان کا Exercise  اس وقت کرتا ہے’ جب ہر شے کے متعلق پتہ ہو کہ یہ ہے کیا ۔ حضورِ نبی اکرمﷺ کی ایک دعا کا فقرہ میرے سامنے آتا ہے’ تو وجد آجاتا ہے ۔ بڑی گہری دعا تھی’ اور وہ اسی سے لی ہوئی تھی ۔ حضورﷺ نے فرمایا تھا کہ یا اللہ!  مجھے ہر شے کو اس کی اصلی شکل میں دکھا دے ۔ بہت اچھے ۔ عزیزانِ من!  ایک بات میں ساری زندگی کا راز ہے  ’’ یہ مجھے دکھا دے کہ وہ ہے کیا ‘  اس کی اصلی شکل میں دکھا دے ‘‘ ۔ عزیزانِ من!  یہ انسان اگر اپنی اصلی شکل میں سامنے آنے شروع ہوجائیں’ آپ دیکھیں کتنے مسئلے طے ہوجاتے ہیں ۔ یہاں تو دھوکہ اسی سے کھاتا ہے ۔ آپ کے سامنے کتا کتے کی شکل میں آتا ہے ‘  بھیڑیا بھیڑئیے کی شکل میں آتا ہے’ کبھی دھوکہ نہیں کھاتے ۔ کم بخت انسان جو ہے ہر انسان انسان کی شکل میں آپ کے سامنے آتا ہے ۔ کہیں اگر ایسا ہوتا کہ ان میں بھی بھیڑئیے بھیڑئیے کی شکل میں آتے ‘  سانپ سانپ کی شکل میں آتے ‘  بھیڑ بھیڑ کی شکل میں آتے’ تو کبھی بھی یہ تماشا نہ ہوتا ۔ مصیبت یہاں یہ ہے کہ انسان اور انسان کے اندر فرق ہی نہیں ہے’ سارے ایک جیسے نظر آ رہے ہیں ۔ پھر اس کے بعد یہ اس کو جب دیکھتا ہے انسان ہی سمجھ کے تو پھر روتا ہے کہ
زلفِ صورت سے تجھے درد آشنا سمجھا تھا مَیں
تیری صورت سے تجھے درد آشنا سمجھا تھا مَیں
کیوں سمجھا تھا ؟  وہ اپنی اصلی شکل میں سامنے نہیں آیا ‘  بہروپئے ہیں سارے جتنے بھی ہیں ‘  چہروں کے اوپر ماسک لگے ہوئے ہیں ‘  آپ دھوکہ کھاتے ہیں ۔ ایک دعا حضورﷺ کی ‘  کیا جامع دعا ہے!  کہ یا اللہ!  مجھے ہر شے اس کے اصلی روپ میں دکھا دے ۔ کیسے نظر آئے گی اصلی روپ میں ؟ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ (14:1) تاریکی چھٹے گی تو ہر شے اپنی اصلی روپ میں نظر آئے گی ۔ اندھیرے میں نہیں نظر آسکتی ہر شے اپنے اصلی روپ میں ۔ عزیزانِ من! اس کے لیے روشنی نہایت ضروری ہے ۔ پھر قرآن کا یہ اعجاز ہے یہ ایک مقام نہیں’ کئی مقامات میں یہی فقرے آئے ہیں’ قرآن کے متعلق ۔ ہر جگہ ظلمات ‘  تاریکی تو جمع کے صیغے میں آیا ہے:  تاریکیاں ۔ ہر جگہ یہ روشنی واحد کے صیغے میں ہی آئی ہے ۔ تاریکیوں کی کئی قسمیں ہوتی ہیں ‘  کس کس قسم کی تاریکیاں ہیں آپ کے ہاں جو چلی آ رہی ہیں ‘  کس کس گوشے میں تاریکیاں ہیں آپ کے ہاں؟  اقتدار و اختیار و حکومت کے گوشے میں تاریکیاں ‘  اقتصادیات کے گوشے میں تاریکیاں ‘  سب سے بڑی گہری تاریکیاں جو عقیدتوں کی دنیا کے اندر آپ کے سامنے آتی ہیں ‘  مذہب خود ایک سب سے بڑی تاریکی بن کے آپ کے سامنے آتا ہے ۔ تاریکیاں ‘  ظلمات ۔ بڑی عجیب چیز ہے’ کہ تاریکی کتنی بھی گہری سے گہری کیوں نہ ہوتی چلی جائے’ ایک چھوٹی سی کرن روشنی کی’ پورے کمرے کے لیے دیا سلائی کی ایک کرن  وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۚ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا (17:81) روشنی کی کرن آئی’ پورے کمرے کا اندھیرا گھٹا ٹوپ جسے کہتے ہیں’ ایک روشنی کی کرن سے ختم ہوجاتا ہے ۔ اور یہ تو ظلمات سے نور کی طرف لے آتا ہے ۔ یہ اتنا ہی کرتا ہے’ اس کے بعد روشنی میں پھر آپ کا اتمامِ حجت ہوگیا’ کہ ہر شے اپنی اپنی اصلی پوزیشن میں تمہارے سامنے آگئی’ ٹھوکر کھانی ہے کھاؤ ۔ ٹھیک ہے’ سنکھیا کھاؤ سنکھیا معلوم کرکے’ کہ یہ سنکھیا ہے یہ بتا دیا گیا تمہیں’ کہ یہ سنکھیا ہے’ یہ مسری کی پڑی ہے ۔ اس کے بعد وہ آپ پہ جبر نہیں کرے گا’ کہ سنکھیا کھانا چاہیں’ تو آپ کا ہاتھ روک لے گا ۔ اس کا کام یہ بتا دینا ہے کہ یہ سنکھیا ہے اس سے ہلاکت ہوجائے گی ۔ عزیزانِ من !  یہ بڑی چیز ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے خود قرآن کو نور کہا ہے ۔ دوسرے مقام پہ یہی جو چیز آئی ہے’ خود قرآن نور ہے ۔ قَدْ جَاءَكُم مِّنَ اللَّـهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُّبِينٌ (5:15) خدا کی طرف سے تمہاری طرف روشنی آگئی ‘  نور آگیا یعنی ایک کتاب خود بھی واضح ‘  ہر بات کو واضح کرنے والی ۔ یہ جو ہے خود بھی واضح اور ہر شے کو واضح کرنے والی ‘  روشنی کا تقاضا یہ ہوتا ہے ‘  یہ روشنی کو آپ چراغ لے کے نہیں ڈھونڈتے ۔ روشنی کسی چراغ کی محتاج ہی نہیں ہوتی’ اپنے وجود کے ثابت کرنے کے لیے ۔ آفتاب آمد دلیلِ آفتاب ۔ سورج کو آپ دیے جلا جلا کے تلاش کیا کرتے ہیں ؟  قرآن نور ہے ‘  روشنی ہے ‘  یہ کسی اور روشنی کا محتاج نہیں ہے’ اپنی ذات میں وضاحت کے لیے ۔ روشنی خود روشن ہوتی ہے’ واضح ہوتی ہے’ ہر شے کو روشن کرتی ہے ۔ اسی لیے اسے روشنی کہہ کے اس کے ساتھ وضاحت کردی’ یہ ’’و ‘‘ تفسیری کہلاتی ہے۔ روشنی ہے’ یعنی ایک ایسی کتاب ہے’ مُبِين ہے’ خود واضح ہے ہر شے کو واضح کرتی ہے ۔ روشنی کا خاصا ہے’ جیسا میں نے ابھی عرض کیا ہے ۔ يَهْدِي بِهِ اللَّـهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلَامِ (5:16) خدا اس کے ذریعے سے ہدایت دیتا ہے’ جو بھی ہدایت لینا چاہتا ہے’  يَهْدِي بِهِ اللَّـهُ (5:16)۔ اب دیکھا وہ جو ہے کہ خدا صاحب!  جسے چاہے ہدایت دیدیتا ہے’ جسے چاہے گمراہ کر دیتا ہے ۔ يَهْدِي بِهِ اللَّـهُ اب وہ براہِ راست کچھ نہیں کرتا ‘  اس کے ذریعے سے ہدایت دیتا ہے ‘  وہ ایک دفعہ اس نے یہ کتاب اتمام کرکے مکمل کرکے’ غیر متبدل اور محفوظ کرکے’ تمہیں دیدی’ اب خدا بھی اس کے ذریعے سے ہدایت دیتا ہے ۔ درمیان سے قرآن کو ہٹا دیجئے’ خدا بھی ہدایت نہیں دیتا ۔ اس نے کہا ہے  يَهْدِي بِهِ اللَّـهُ ۔ عزیزانِ من!  میں نے جیسا عرض کیا ہوا ہے’ قرآنِ کریم کے تو ایک ایک حرف کے اوپر ٹھہر جائیے ۔ یہ بِهِ اللَّـهُ تو حرف ہی ہے ‘  ’ب‘   تو حرفِ جار ہے  ’ہ‘  اس کے اندر ضمیر ہے ۔ کتنی بڑی چیز ہے جو اتنے میں کہہ گیا وہ ۔ يَهْدِي بِهِ اللَّـهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلَامِ (5:16) سلام بڑی چیز ہے ‘  بڑی جامع چیز ہوتی ہے ۔ اس کے سامنے سلامتی ہی نہیں ہوتی’ بلکہ تکمیلِ ذات بھی ہوتی ہے ۔ جیسا میں نے کئی دفعہ آپ سے کہا’’ مسلَم‘‘ اس شے کو کہتے ہیں جس میں سے کوئی چیز کم نہ ہوئی ہو ۔ انسانی ذات کی تکمیل اور سلامتی ۔ سلامتی نفی کی صورت ہے’ کہ کسی قسم کے خطرات کوئی نہ ہوں ۔ اور یہ تو Negative چیز ہے’ صرف منفی شے ہے’ کہ خطرہ ہی نہ ہو تو As it is رہ گئی ‘  جیسی وہ ہے تو یہ تو کوئی بات نہیں ہے ۔ پتھر کو خطرہ نہیں ہوتا’ لیکن وہ تو صرف Negative سی چیز ہے’ کہ خطرہ نہیں ہوتا ‘  ساری عمر پتھر رہتا ہے ۔ اسے ذرا خطرہ ہو تو وہ ہمارے ہاں کا محاورہ پھر آجاتا ہے  ’’ جے پتھر کُولے ہوندے تے گیدڑ ای کھا جاندے اوہناں نوں ۔ آ ہوئے ہوئے نیں پتھر کُولے ساہڈے معاشرے اچ ‘  گیدڑ ایناں نوں کھائی ترے جاندے نیں ‘‘ ۔ یہ ہمارے سب سے بزدل جانور ہمیشہ گیدڑ کو کہتے ہیں ۔ پتھر سخت ہے’ اسے خطرہ نہیں  ’’خطرہ تے کُولے نوں ہوندا اے ۔ کُولے دا تے ترجمہ ای نئیں ہوسکدا ‘‘ ۔ خطرہ اسے نہیں ہے’ لیکن وہ رہے گا پتھر ہی’ کہ یہ Negative چیز ہے خطرے سے محفوظ ہونا ۔ سلام کے اندر خطرے سے محفوظ ہونا بھی ہے ۔ عزیزانِ من!  یہ عربی زبان عجیب ہے ۔ ایک ہی لفظ کے اندر وہ دونوں باتیں ہونگی’ کہ خطرے سے محفوظ ہو’ اور ہوجائے مکمل اپنی ذات کے اندر ‘  پھر سلام کہیں گے ۔ يَهْدِي بِهِ اللَّـهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلَامِ (5:16)  کئی راستے ۔ یہ سُبُلَ ‘  سبیل جسے آپ کہتے ہیں یہ جو پگڈنڈیاں ہوتی ہیں’ یہ ہوتی ہیں مختلف ۔ وہ جو شاہراہِ اعظم یا ہائی وے جسے کہتے ہیں’ وہ عربی زبان کے اندر ’’صراط‘‘ کہلاتی ہے ۔ ہر پگڈنڈی جو ہے’ صراط پہ جا کے ملے گی’ تو وہ صحیح پگڈنڈی ہوگی۔ زندگی کے مختلف شعبے ‘  مختلف گوشے ہیں ۔ گھر کے اندر بھی ایک زندگی ہے ‘  بازار میں بھی ایک زندگی ہے ‘  ایوانِ حکومت میں بھی ایک زندگی ہے ‘  دوستوں کے معاملے میں بھی ہے ‘  تجارت بھی ہے ‘  ساری چیزیں ہیں ۔ یہ مختلف گوشے ہیں ‘  مختلف مقامات سے آپ نکل کے چلے جاتے ہیں ‘  یہ مختلف پگڈنڈیاں ہیں’ جہاں سے آپ جاتے ہیں ۔ پگڈنڈی کی صحت کی نشانی یہ ہے’ کہ صراط میں جا کے مل جائے ۔ تمہارے سامنے یہ کشاد کی راہیں کھول دیتا ہے’ لیکن ہر راہ جو ہے یاد رکھیے!  خطرات سے حفاظت بھی کرتی ہے’ تمہاری تکمیلِ ذات بھی کرتی ہے’ کہ  سُبُلَ السَّلَامِ (5:16)ہے ۔ اور کہا کہ وَيُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ  (5:16) یوں خدا انسانوں کو تاریکیوں سے نکال کے روشنی میں لے آتا ہے ۔ خطرہ بھی نہ رہے اور تکمیلِ ذات بھی ہوجائے ۔ یہ ہے تاریکیوں سے نکال کے روشنی میں لے آنا ۔ کیسے وہ کرتا ہے؟  بِهِ قرآن کے ذریعے سے ۔ کیا ہے قرآن؟  نُورٌ وَكِتَابٌ مُّبِينٌ (5:15) دیکھ رہے ہیں!  آیت بھی پوری نہیں آیت کے چند الفاظ ہیں’ جو میں بیان کر رہا ہوں ۔ يَهْدِي بِهِ اللَّـهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلَامِ وَيُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِهِ وَيَهْدِيهِمْ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ (5:16) اور ان پگڈنڈیوں سے ‘ راستوں سے لے جاتا ہوا’ اس ہائی کے اوپر تمہیں چھوڑ دیتا ہے’ جس کے لیے تم روز آرزوئیں کرتے ہو’ کہ  اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ (1:6)۔ وہ ایک ہی ہے صراطِ مستقیم ‘  وہ واحد کا صیغہ ہے’ وہ کبھی کہیں جمع نہیں آیا ‘  سوال ہی نہیں ہے ۔ شاہراہ تو ایک ہی ہوتی ہے’ سُبل زیادہ ہوسکتے ہیں ۔ اب یاد رکھیے!  قرآن کے ذریعے سے ہی تاریکی سے نور میں آسکتا ہے’ کہ یہ نور ہے’ اسی سے خدا اب سلامتی کے راستوں ‘  پگڈنڈیوں کی طرف راہنمائیاں کرتا ہے’ اور اسی کے بتائے ہوئے نشاناتِ راہ صراطِ مستقیم کی طرف لے جاسکتے ہیں ۔ کوئی اور شے نہیں ہے ۔ يَهْدِي بِهِ اللَّـهُ (5:16)۔ عزیزانِ من !  جب خدا بھی قرآن کے علاوہ کسی اور چیز سے راہنمائی نہیں کرتا’ تو دنیا میں اور کون ہے جو کسی اور شے سے رہنمائی کرے گا ۔ نہیں جی!  راہنمائی کے لیے تو ایک راہنما کی ضرورت ہے ‘  ایک مرشد کی ضرورت ہے ‘  ایک حضرت جی کی ضرورت ہے ‘  ایک مولوی صاحب کی ضرورت ہے ‘  اٹھارہ علوم کی ضرورت ہے ۔ یعنی وہ خدا جو ان تمام چیزوں سے بے نیاز ‘  قادرِ مطلق ہے ‘  وہ تو یہ کہتا ہے’ کہ ہم بھی اس کے سوا اب ہدایت نہیں کرتے ۔ یہ کہتے ہیں کہ  ’’نہیں صاحب!  حضرت صاحب ایک وظیفہ دسدے ہیگے نیں’ اوہدے نال ہوندا اے ۔ مولوی صاحب اک ذکر دسدے ہیگے نیں’ اوہدے نال ہوندا ہیگا ‘‘ ۔ ان کے ہاں دس دس’ بیس بیس’ سو سو’ طریقے ہیں ۔ اور وہ ہے کہ قادرِ مطلق’ اور اس نے یہ چیز کہی’ کہ صاحب !  ہمارے پاس تو ایک ہی چیز ہے’ جس سے ہم ہدایت دیتے ہیں’ اور یہ ہے بِهِ  اس کے ذریعے سے ہدایت حاصل ہوگی ۔ ہمارے ہاں تو کوئی چِلہ نہیں ‘  کوئی وظیفہ نہیں ‘  کوئی ورد نہیں ‘  کوئی ذکر نہیں ‘  کوئی اور نہیں صاحب!  یہی ایک ہے ۔ کرتے کیا ہیں؟  تاریکیوں سے نکال کے روشنی کی طرف لے آتے ہیں ۔ یہ راستے کشادہ ہوتے چلے جاتے ہیں ‘  روشن ہوتے چلے جاتے ہیں ‘  چھوٹے چھوٹے راستے اور ہر راستہ جو اس کی روشنی میں’ روشن ہوتا ہے’ صراطِ مستقیم میں جا کے ملا دیتا ہے ۔ یہ جو عمل ہے’ کہ جس سے وہ یہ کچھ کرتا ہے ‘  خدا کرتا ہے’ کہ اس نے یہ قرآن کی روشنی دی’ اور اس کے ساتھ پھر اس کی یہ کائناتی قوتیں ہیں’ وہ انسان کے تقویت کا موجب بنتی ہیں ۔ بات اور کہیں چلی جائے گی’ لیکن یہاں دوسری آیت میرے سامنے آگئی’ نہایت اہم آیت ہے ۔ ہم تو ایک ہی آیت قرآن کی سنتے چلے آ رہے ہیں کہ  إِنَّ اللَّـهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ (33:56) اللہ اور اس کے ملائکہ  ( یصلون کا عام ترجمہ جو ہے ) درود بھیجتے ہیں رسول اللہﷺ پر ‘  نبی پر ۔ یہی آیت ہمارے سامنے آتی ہے’ اور حضورﷺ ہی پر درود بھیجا جاتا ہے ۔ درود عربی کا لفظ ہی نہیں ہے’ جیسے نماز عربی کا لفظ نہیں ہے ۔ یہ دونوں لفظ قدیم فارسی زبان کے ہیں ۔ وہ عربی زبان کا لفظ نہیں ہے’ تو قرآن میں یہ کہاں آیا ہوگا’ لیکن اس کا ترجمہ تو ہمارے ہاں یہی ہوتا ہے  ’’درود بھیجنا‘‘ ۔ اور پھر وہ ہمارے ہاں یہ ہوتا ہے ۔ میں کہہ یہ رہا تھا کہ ہمیشہ یہی آیت ہمارے سامنے پڑھی جاتی ہے’ لیکن جس سورۃ میں یہ آیت ہے’ اسی سورۃ میں ذرا پہلے ایک اور آیت بھی ہے ۔ قرآنِ کریم کی عام تلاوت کرنے احباب کی تو نظروں سے گزری ہوگی’ لیکن عام طور پہ نہیں آپ نے یہ سنی ہوگی ‘  قرآن ہی کی آیت ہے’ اسی سورۃ میں ہے’ اس آیت سے ذرا پہلے ہے ۔ وہاں تو یہ ہے کہ خدا اور اس کے فرشتے رسول پر (یہ میں ترجمہ عام کرتا ہوں )  درود بھیجتے ہیں’ ( وہ تو جب آؤں گا تو بتاؤں گا کہ یہ ہے کیا ‘  یہ درود بھیجنا کیا ہے؟ ) ۔ آیت یہ ہے کہ  هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ وَمَلَائِكَتُهُ (33:43) اے جماعت!  يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا (33:41)اے جماعتِ مؤمنین!  ( وہی الفاظ ہیں )  اللہ اور اس کے فرشتے تم پر درود بھیجتے ہیں ۔ يُصَلِّي عَلَيْكُمْ (33:43)۔ الفاظ بھی وہی ہیں ۔ وہ ہیں  إِنَّ اللَّـهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ (33:56) یہ اسی سورۃ کی آیت 43 ہے’ جو میں اب پڑھ رہا ہوں  هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ وَمَلَائِكَتُهُ (33:43) اللہ اور اس کے فرشتے ( وہاں ہے علی النبی ‘  یہاں ہے علیکم )  اے جماعتِ مؤمنین! ( وہی الفاظ جو کچھ وہ وہاں کرتے ہیں’ وہ یہ سارے مؤمنین کے ساتھ یہ ہوتا ہے ) ۔ کہتا ہے کیوں ایسا کرتے ہیں؟  جو کچھ یہ بھی ہے وہ تو میں پھر عرض کروں گا’ کہ یہ ہے کیا بات  يُصَلِّي عَلَيْكُمْ (33:43) لیکن وہ کیوں کرتا ہے؟  ’’تاکہ‘‘  والی بات تو یہاں اس نے بتائی ہے خود ہی ۔ کیوں کرتا ہے؟  لِيُخْرِجَكُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ (33:43) تاکہ تمہیں تاریکیوں سے نکال کے روشنی میں لے آئے ۔ يُصَلِّي عَلَيْكُمْ (33:43) یہ جسے خدا نے یہاں صلوٰۃ کہا ہے جسے ہم درود کہتے ہیں اس کا نتیجہ یہ ہے تمہیں خدا اور اس کے فرشتے کچھ کرتے ہیں ‘  تمہارے لیے ‘  تاکہ تمہیں تاریکیوں سے نکال کے روشنی میں لے آئیں ۔ وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًا (33:43)   وہ اس لیے کہ وہ تمہاری نشوونما چاہتا ہے ۔ میں نے عرض کیا ہے’ کہ یہاں بھی لِيُخْرِجَكُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ آیا ہے ‘  تاکہ یہ کریں ۔ اور اس کے لیے کچھ عمل ایسا ہے’ کہ جس میں خدا بھی کچھ کرتا ہے’ ملائکہ بھی کرتے ہیں ۔ اور خدا نے تو وہاں کہہ دیا’ کہ ہم اس قرآن کے ذریعے سے ہی یہ کچھ کرتے ہیں ۔ قرآن کے ذریعے سے یوں ہوتا ہے’ اور پھر اس کی کائناتی قوتیں ساتھ تقویت کا سامان بہم پہنچاتی ہیں ۔ وہ جو قرآن نے کہا ہے’ کہ فرشتے نازل ہوتے ہیں إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّـهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ (41:30) کہ جو لوگ کہہ دیتے ہیں کہ ہاں !  ہمارا رب صرف اللہ ہے  ثُمَّ اسْتَقَامُوا اور پھر جم کے کھڑے ہوجاتے ہیں اس اپنے دعوے کے اوپر ۔ اسی سے پتہ چل گیا’ کہ یہ کہنا جو ہے’ یہ ایسی چیز ہے کہ جس میں لغزش کے ہزار مقام آتے ہیں’ کیونکہ ساتھ شرط ہے’ کہ پھر جم کے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ یہ تو ہم جانتے ہیں کہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ  یا  رَبُّنَا اللَّـهُ کہنے سے تو کوئی خطرہ ہی نہیں ہوتا ‘  اس کے بعد پھر کیا بات کہ  اسْتَقَامُوا ؟ استقامت تو بہت بڑی چیز ہے’ تو کچھ ایسی چیزیں ہیں’ کہ جس میں واقعی استقامت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اور یہ استقامت صرف کہہ دینا نہیں ہے’ بلکہ استقامت ہے’ جس کی وجہ سے کہتا ہے کہ تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ (41:30) ان کے اوپر فرشتوں کا ‘  ملائکہ نزول شروع ہوجاتا ہے ۔ کیا کرتے ہیں؟  لِيُخْرِجَكُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ (33:43) تاریکیوں سے نکال کے روشنی کی طرف لے آتے ہیں ۔ كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ (14:1) ابھی چار آیتوں کے بعد اس کی تشریح آتی ہے ۔ وہ تو دور بھی نہیں لے گیا’ یہیں آجاتی ہے’ کہ یہ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ  (14:1) کے معنی ہیں کیا ۔ اور اپنے انداز میں وہ بات کرتا ہے ۔ مجھے آگے بڑھ جانا چاہیے ۔ ’’تاکہ نوعِ انسانی کو تاریکیوں سے روشنی کی طرف لے آئے  بِإِذْنِ رَبِّهِمْ (14:1) خدا کے قانون کے مطابق إِلَىٰ صِرَاطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ (14:1) وہی صراط کی طرف آگئی بات ۔ صراط کس کی؟  ہم دعا مانگتے ہیں’ جو سورۃ فاتحہ میں سکھائی گئی ہے  اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ(1:6)۔ اور سورۃ ھود میں ہے کہ  إِنَّ رَبِّي عَلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ (11:56) یاد رکھیے!  میرا رب بھی صراطِ مستقیم پہ جا رہا ہے ۔ اور یہ جو ہے صلوٰۃ اس کے معنی ہوتے ہیں’ کسی کے پیچھے پیچھے چلے جانا ۔ وہ آگے آگے رب جا رہا ہے صراطِ مستقیم پہ ‘  پیچھے پیچھے تم اس کے چلے جا رہے ہو ۔ إِنَّ رَبِّي عَلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ (11:56) ۔ اور یہاں ہے’ کہ تمہیں وہ رہنمائی دیتا ہے  إِلَىٰ صِرَاطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ (14:1) عزیزانِ من!  کیا کیا عرض کروں ‘  ایک ایک لفظ پہ تو رکنا ہوتا ہے ۔ صراط ہائی وے ہے ‘  شاہراہ ہے ۔ کس خدا کی ہے؟  دو صفتیں یہاں بیان ہوگئیں خدا کی:  عزیز ہے ‘  حمید ہے ۔ صاحب!  دو متضاد صفتیں ہیں ۔ الْعَزِيزِ کے تو معنی غلبہ اور عزت والا ۔ عربی زبان میں عزت کے معنی ہی غلبہ ہے ‘  یہ کمزوری کے مقابلے میں آتا ہے ۔ ذلت کے معنی کمزوری ہوتی ہے ۔ ہمارے ہاں تو آ کے اب غلبہ اور قوت اور پھر ذلت یہ معنی ہی ایسے نہیں رہے’ بات ہی کچھ اور ہوگئی ہے ۔ عزیز :  غلبے والا ۔ اب الْحَمِيد کے لیے لفظ کہاں سے لاؤں ۔ اربابِ علم سے پوچھئے ۔ یہ دو لفظ کہہ دیجیے’ کہ خدا ہمارے ہاں جو اپنا تصور دیتا ہے’ وہ عزیز کا بھی دیتا ہے ‘  حمید کا بھی دیتا ہے ۔ عزیزانِ من!  اگر سائیکولوجی کا عالم ہے’ تو وجد میں آجائے گا’ کہ ایک ہی ذات کے اندر یہ دو متضاد جسے ہم کہتے ہیں’ یہ دونوں صفات اکٹھی کردیں ۔ ایک چیز ہے جو غلبے کی ہے’ دوسری چیز ہے Appreciation  جسے آپ کہتے ہیں ‘  ’’تحسین‘‘ جسے آپ کہتے ہیں ‘  ’’تحمید‘‘ جسے آپ کہتے ہیں ۔ یہی وہ شے ہے جو ہمارے ہاں پرانے دور سے جلال اور جمال کے دو الفاظ سے آتی ہے ۔ ’’جلال‘‘ قوت ہوتی ہے ‘  ’’جمال‘‘ کے اندر پھر ترجمہ نہیں ہوسکتا ۔ Aesthetic Sense (جمالیاتی احساس) جسے آپ کہتے ہیں۔ Aesthetic Sense  جو ہے وہ جذباتی شے ہوتی ہے ۔ تحسین و حسن ۔ راستہ چلتے ہوئے کہیں ایک ٹہنی کے اوپر جھکا ہوا گلاب ‘  نیچے ندی کے آئینے میں خود اپنی صورت دیکھ کے جو مسکرا رہا ہوتا ہے ۔ چلتے چلتے کتنے ضروری کام کے لیے کیوں نہ جا رہے ہوں’ آپ کے پاؤں پکڑ لیتا ہے ‘  کھڑے ہوجاتے ہیں’ اور بے ساختہ کہتے ہیں واہ واہ واہ واہ ۔ اسے کہتے ہیں تحمید ۔ اب دیکھتے ہیں کہ اس میں قوت کا کوئی شائبہ نہیں ہے’ اور قوت اس کے اندر آئے تو یہ بات ہی پیدا نہیں ہوسکتی ۔ وہ تو سراپا نزاکت اور لطافت اور نزہت ہے’ لیکن اگر خدا یہ ہو کہ وہ تحسین ہی تحسین ہو ‘  لطافت ہی لطافت ہو ۔ وہی پھول جب اس قسم کا آپ دیکھتے ہیں ذرا آپ نے ہاتھ بڑھایا نہیں’ کہ اتنا نوکیلا کانٹا یہاں چبھتا ہے’ کہ پیچھے ہٹ جاتے ہیں ۔ عزیزانِ من!  اس کی حفاظت کے لیے حمید اور عزیز دونوں اکٹھے ہیں’ اس شاخ کے اوپر ۔ یہ عزیز ہے جو نیچے کانٹا ہے اور کانٹا
حفاظت پھول کی ممکن نہیں ہے
اگر کانٹے میں ہو خوئے حریری
کانٹا بھی اگر ریشمی بن جائے ‘  گلاب کے پھول جیسا ہی بن جائے’ تو پھر پھول کی حفاظت نہیں ہوسکتی ۔ حسنِ  کائنات کی حفاظت کے لیے قوت کی اشد ضرورت ہے ۔ اور اگر قوت ہی قوت کہیں ہو’ اس کے ساتھ یہ لطافت اور حسن و تحمید نہ ہو’ تو ہلاکو اور چنگیز ہوجائے گا ۔ زندگی جلال اور جمال دونوں چاہتی ہے ۔ اور اصل تو یہ ہے کہ یہ جسے ہم جلال اور قوت کہتے ہیں’ وہ تو حسن اور جمال کی حفاظت ہی کے لیے ہوتا ہے’ لیکن دونوں ہونے ضروری ہیں ۔ دنیا نے جہاں جہاں دیکھا یا تو یکسر جمال ہی دیکھا ۔ God is mercy, God is love   یہ سارا کچھ قصہ وہ ہے ۔ چل ہی نہیں سکتی دنیا صرف اس پہ ۔ چھوڑ بیٹھی یہ ساری دنیا اس عیسائیت کے اس وعظ کو’ کہ وہ Mercy  ہی Mercy   ہے’ اور Love  ہی Loveہے ۔ چل ہی نہیں سکتا یہ قصہ کائنات کا ۔ اپنے وقت کے اوپر وہ Mercy   اور Love بھی ایک چیز ہونی چاہیے ‘  دوسرے وقت کے اوپر آپ کو بچے کو ڈانٹنا بھی پڑتا ہے ۔ عزیز ہونا نہایت ضروری ہے ۔ مظلوم کی حفاظت کے لیے قوت نہایت ضروری چیز ہے ۔ ایک ہی ذات کے اندر دو متضاد صفات ۔ یہ چیز تھی جو فلسفے کی سمجھ میں نہیں آتی تھی ۔ وہ ایک شے میں وہ کہتا تھا’ کہ ایک ہی صفت کا ظہور ہوسکتا ہے’ دو متضاد چیزیں نہیں ہوسکتیں ۔ قرآنِ کریم جو الاسمآء الحسنٰی ( صفاتِ خداوندی )  بتا رہا ہے’ ان میں آپ دیکھیں گے کس قدر متضاد صفتیں آتی ہیں ۔ إِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيدٌ (85:12) بھی آتا ہے اس کی گرفت اتنی سخت ہے ظالم کی ہڈیاں توڑ دیتی ہے ۔ غفور رحیم بھی ہے ‘  رؤف بھی ہے ‘  کریم بھی ہے ‘  جبار بھی ہے ‘  تکبر بھی ہے ۔ کائنات چل ہی اس طرح سے سکتی ہے ۔ اور یہ کہ وہ ایک ہی ذات کے اندر ہوتی ہے ۔ بات تو فلسفے کی لمبی چلی جائے گی ۔ میں نے ابھی جو مثال آپ کو دی ہے’ وہ پھول کی ٹہنی نرم و نازک ‘  جس وقت ابھی وہ ٹہنی ہوتی ہے’ اس میں نہ پھول ہوتا ہے’ نہ کانٹا ہوتا ہے۔ یہ پھول اور کانٹے کہاں ہوتے ہیں؟ اسی شاخ کے اندر ہی تو ہوتے ہیں ‘  باہر سے کہیں کانٹا لگتا ہے آکر اس میں؟ یہ دونوں متضاد صفات اس شاخ کے اندر مضمر ہوتی ہیں یا نہیں؟  پوچھئے ان سے ۔ فلسفے کی دنیا میں تو الفاظ ہی سے کھیل ہوتی ہے۔ پوچھئے ان سائنسدانوں سے ۔ کہیں باہر سے نہ پھول ٹانکا جاتا ہے’ نہ اس میں کانٹا باہر سے لا کے لگایا جاتا ہے ۔ وہی جو پھر اقبالؒ کہہ گیا ہے وہ عجیب چیزیں کہہ جاتا ہے ‘  اس کے سامنے قرآن تھا ۔ کہ
درونِ او نہ گل باشد نہ خارے
یہ اس کی نمود ہے اس کی صفاتِ خداوندی کی اس کائنات کے اندر ‘  کہیں وہ پھول بن کے مہکتا ہے’ کہیں کانٹا بن کے اس کی حفاظت کرتا ہے ۔ اس لیے کہ  صِرَاطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ (14:1)  ۔ صفات تو اتنی تھیں ‘  میں نے کہا ہے’ کہ جہاں جامعیت سے یہ چیز کہی’ کہ وہ تاریکیوں سے روشنی کی طرف لے آتا ہے’ بڑی Comprehensive اور جامع تھی یہ بات ۔ عزیزانِ من!  اسی طرح سے یہ جو دو صفات گنائی ہیں’ کائنات کی قطبین گنا دی ہیں اس میں ۔ عزیزانِ من!  عزیز اور حمید ہونا جو ہے’ دو صفتیں کسی معاشرے کے اندر یہ آجائیں’ معاشرہ دنیا کے اندر خدائی کرنے لگ جاتا ہے ۔ یہ صفاتِ خداوندی کیا ہیں؟  اپنی کائنات میں ہوا کرے وہ عزیز و حمید ‘  مجھے کیا ۔ صفاتِ خداوندی یہ ہیں’ کہ تمہارے اندر بھی یہ Potentialities  (صلاحیتیں )  ہم نے رکھی ہوئی ہیں ۔ ان صلاحیتوں کی نشوونما کرو اور ان کی پھر جب نمود ہو’ تو جہاں حفاظت مقصود ہو کانٹا بن جاؤ ‘  جہاں لطافت مقصود ہو پھول بن جاؤ ۔ مومن کی زندگی کے اندر صفاتِ خداوندی اسی طرح سے مضمر ہوتی ہیں’ جس طرح شاخ کے اندر کانٹا اور پھول ہوتا ہے’ اپنے  اپنے وقت پہ ان کی نمود ہوتی ہے ۔ اقبالؒ  کہتا ہے کہ
گزر جا بن کے سیلِ تند رو کوہ و بیاباں سے
گلستاں راہ میں آئیں تو جوئے نغمہ خواں ہوجا
مسافِ زندگی میں سیرتِ فولاد پیدا کر
شبستانِ محبت میں حریر و پرنیاں ہوجا
الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ (14:1) دونوں صفات ضروری ہیں ۔ اور یہی وجہ ہے قرآنِ کریم نے سورۃ حدید کے اندر جہاں کہا’ کہ ہم نے انبیا کے پاس کتابیں نازل کیں’ اور اس کے ساتھ ہی یہ کہا  وَأَنزَلْنَا الْحَدِيدَ(57:25) شمشیرِ خارہ شگاف بھی ہم نے نازل کی ۔ کتاب کی حفاظت شمشیر کے بغیر ممکن نہیں ہے’ اور شمشیر کے اوپر اگر کتاب کی پابندیاں نہ ہوں’ تو شمشیر ہلاکو بن جاتی ہے’ ڈکٹیٹر بن جاتی ہے ۔ إِلَىٰ صِرَاطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ ﴿١﴾ اللَّـهِ الَّذِي (14:1-2) میں نے کہا ہے کہ وقت اگر ہو اور نصاب ہو تو یہ دو ہی لفظ عزیز اور حمید جو ہیں’ میں بتاؤں اس کو کہ اس کے اندر کائنات کے دونوں گوشے سمٹے ہوئے ہیں ۔ مجھے تو آگے بڑھنا ہے ‘  یہ صرف درس ہے ۔ اللَّـهِ الَّذِي لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ (14:2) اب آئی اس کی شانِ قوت ۔ یہ لَهُ کے معنی یہی نہیں ہیں’ کہ وہ اس کی ملکیت میں ہے ‘  یہ عربی زبان کے اندر ملکیت کے لیے بھی آتا ہے’ لیکن یہ ’’ل‘‘ اس کو نافع کہتے ہیں ۔ اس کے پروگرام کی تکمیل کے لیے ۔ ارض و سماوات میں جو اس کا پروگرام کارفرما ہے’ اس کے لیے اس کا عزیز اور حمید ہونا ضروری ہے ۔ قرآن تمہاری رہنمائی اس راستے کی طرف کرے گا’ جس میں حمدیت بھی ہے’ اور عزت بھی ۔ دیکھتے نہیں کہ خارجی کائنات کے اندر کس طرح سے اس کی دونوں صفات کی نمود ہو رہی ہے ۔ پھول بھی ہے’ اور ساتھ اس کے کانٹا بھی ہے ۔ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ (14:2) ہماری کارفرمائی تو یہ ہے  وَوَيْلٌ لِّلْكَافِرِينَ مِنْ عَذَابٍ شَدِيدٍ (14:2) آگئی وہ قوت لیکن جو انکار کرتے ہیں ان چیزوں سے’ یعنی عزیز اور حمید ہونے سے ۔ عزیزانِ من!  قانونِ خداوندی کی رو سے عزیز اور حمید ہونا ۔ جو اس سے انکار کرتے ہیں’ ان کے لیے بڑی سخت تباہی ہے ۔ اس کا نتیجہ بڑی سخت تباہی ہوتا ہے ۔ لِّلْكَافِرِينَ (14:2) یہاں کہا ہے’ کافرین کے لیے ۔ کون ہیں کافرین؟  ’’آ ہندو جیہڑے سرحدوں پار وسدے ہیگے نیں بس سیدھی جی گل اے ‘‘  ان کے لیے ہے جی یہ ۔ اس سے پوچھو!  اس سے پوچھتے ہی ہم اس لیے نہیں کہ ڈر لگتا ہے ۔ کون ہیں کفار؟  الَّذِينَ (14:3) تین صفات یہاں ان کی گنائی ہیں ۔ نکلئے ان میں سے کس گوشے سے آپ باہر جاتے ہیں ۔ يَسْتَحِبُّونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا عَلَى الْآخِرَةِ (14:3) جہاں کہیں انسانیت کی اقدارکا ‘  Values کا’ Higher Values کا ‘  خدا کی دی ہوئی ان چیزوں کا’ جسے آخرت یا مستقبل کہتا ہے’ اس کا’ اور دنیا کے Physical مفاد کا ‘  مال و دولت کا ‘  عزت و جاہ کا ‘  اقتدار کا ‘  ان دونوں میں جہاں ٹکراؤ واقع ہوتا ہے’ وہ یہ جو مادی دنیا کے مفاد ہیں’ ان کی طرف لپک کے جاتے ہیں’ اُن کو پس و پشت ڈال دیتے ہیں ۔ لِّلْكَافِرِينَ (14:2) کافر تو ایک یہ ہوگئے ۔ پوچھ رہے تھے Definition کہ مسلمان کسے کہتے ہیں ‘  یہ بحثیں چلی تھیں ۔ پوچھئے ان سے ۔ الَّذِينَ يَسْتَحِبُّونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا عَلَى الْآخِرَةِ (14:3) پہلا کفر یہ ہے ۔ بہت اچھا جی ۔ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ (14:3) پھر جب اقتدار و اختیار ان کے ہاتھوں میں آتا ہے’ تو وہ کوشش یہ کرتے ہیں’ کہ وہ خدا کی طرف جانے والے راستوں کے اندر رکاوٹیں کھڑی کردی جائیں ‘  دیواریں کھڑی کردی جائیں ‘  اُدھر نہ کوئی جا سکے ‘  قانونِ خداوندی کی کارفرمائی نہ ہونے پائے ‘  نظامِ خداوندی کہیں قائم نہ ہوجائے ۔ يَصُدُّونَ (14:3) دیواریں کھڑی کردیتے ہیں ۔ اس کے لیے قوت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اور یہ جو چیز ہے یہ اقتدار اور اختیار کی بنا پہ کیا جاتا ہے ۔ پہلی چیز تو اس ہوس کے اندر تو آگئی’ سب ہی شامل ہوگئے ‘  چھوٹے سے چھوٹے خوانچہ فروش سے لے کے بڑے سے بڑا Industrialist  ‘  وہ سارے يَسْتَحِبُّونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا عَلَى الْآخِرَةِ (14:3)  ۔ وہ جو ذرا سا خوانچہ فروش ڈنڈی مارتا ہے’ وہ بھی یہ کرتا ہے ‘  یہ جو بڑے سے بڑا لوٹتا چلا جاتا ہے’ وہ بھی یہی کرتا ہے ‘  اسی کے اندر آگئے ۔ دوسری چیز  وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ (14:3)  وہ جو کچھ چاہتے ہیں کہ کسی طرح سے اس راستے کے اوپر چل نکلیں ان کے راستے میں دیواریں کھڑی کر دیتا ہے ۔ یہ دوسری چیز آگئی کافرین کی:  دیواریں کھڑی کرنے والے ۔ اور ایک اور طبقہ بھی ہے’ وَيَبْغُونَهَا عِوَجًا (14:3) دیواریں جو یوں کھڑی نہیں کرسکتے ‘  وہ کیا کرتے ہیں؟  وہ اس میں ٹیڑھ پن پیدا کردیتے ہیں ‘  یوں راستہ جاتا ہے’ تو ان کو ادھر لگا دیتے ہیں ۔ یہ ساری مذہبی پیشوائیت اس کے اندر یہ کرتی ہے ۔ مذہبی پیشوائیت کرتی ہی يَبْغُونَهَا عِوَجًا (14:3) ہے’ ٹیڑھ پیدا کرو ‘  اِدھر نکال دو ان کو ۔ یہ کبھی یہ نہیں کہتے کہ نہیں صاحب!  یہ خدا کی طرف جانے والی بات نہیں ہے ۔ ٹھیک ہے ہمیں جانا چاہیے ‘  ذکر اللہ نہایت ضروری ہے ۔ ذکر اللہ تو یہ تھا’ کہ خدا کے قانون کو ہر وقت اپنے سامنے رکھو ۔ اب وہ نماز کے بعد مسجد کے اندر لے کے بیٹھ جاتے ہیں ہزار دفعہ یہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کرو ۔ يَبْغُونَهَا عِوَجًا (14:3)۔ یہ کرتے ہیں اس کے اندر ۔ عزیزانِ من!  کفر کے تین طبقات یا تین کیفیات بتائیں:  مفادِ عاجلہ جس طرح بھی حاصل ہوجائے جائز و ناجائز کی تمیز ختم ‘  پہلا کفر ۔ قوت اور اقتدار کی بنا پر خدا کی طرف جانے والے راستوں کے اندر دیواریں کھڑی کر دینا’ کہ نہیں ادھر جا سکتے ‘  دوسرا کفر ۔ تیسرا یہ کہ نام وہی رکھنا ‘  الفاظ بھی وہی رکھنے ‘  بظاہر مقاصد بھی وہی بتانے ‘  راستے میں ذرا سی ٹیڑھ پیدا کردینا ۔ جس چوراہے پہ سے آپ کے جو راستہ پوچھے کہے کہ میں نے شہر کی طرف جانا ہے’ تو آپ ذرا کہہ دیجیے جی یوں ہوجائیے ۔ بس آپ ذرا سا کردیتے ہیں’ کہ یوں ہوجائیے’ اس سے پھر پوچھئے کہ اس کے ساتھ ہوتا کیا ہے ۔ یہ ہزار سال سے یوں ہوا ہوا ہے یہ کارواں ۔ يَبْغُونَهَا عِوَجًا ۚ أُولَـٰئِكَ فِي ضَلَالٍ بَعِيدٍ (14:3) یہ ہیں وہ راستہ کھوئے ہوئے ۔ کیا بات ہے بَعِيد کی!  جتنا چلتے جائیں گے’ صحیح راستے سے اتنا ہی دور ہوتے چلے جائیں گے ‘  دور ہٹتے چلے جائیں گے ۔ یہ ہیں جن کے متعلق کہا أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ(3:22) ایک تو وہ ہیں جو کچھ کرتے ہی نہیں ہیں ‘  یہ ہیں کہ سب کچھ کرتے ہیں’ لیکن ان کے یہ اعمال ان کے یہ کام’ کوئی صحیح نتیجہ پیدا نہیں کرتے۔ یہ غلط راستے پہ جو آپ ڈال دیتے ہیں کسی کو ‘  کتنا چلتا ہے بے چارہ ‘  شام کو وہ تھک کے چور ہوجاتا ہے ۔ دیکھا کیسے عمل رائیگاں جاتا ہے ۔ مذہب میں عمل تو بہت ہوتا ہے ‘  مار دیتے ہیں صبح سے شام تک اس کو ‘  تباہ کر دیتے ہیں اس قوم کو ۔ جتنی زیادہ مذہبی ہوتی چلی جاتی ہے’ اتنی ہی زیادہ واماندہ ہوتی ہے’ اور تھکی ہوئی وہ قوم ہوتی ہے ۔ اس میں بس ذرا سی ٹیڑھ پیدا کی ہوئی ہوتی ہے ۔ یہ ہیں جی کفر کی تین نشانیاں جو قرآن نے بتائی ہیں ۔ ضَلَالٍ بَعِيدٍ (14:3)۔ اب آیا وہ قرآن لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ(14:1)۔ وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ (14:14) پہلی چیز یہ ہے اس کے نور ہونے کی روشنی ہونے کی’ کہ رسول کو اس کی قوم کی زبان کے اندر کتاب دی جاتی ہے ۔ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ (14:14) بات واضح ہوجائے ۔ یہ تو ظاہر ہے کہ جب رسول آئے گا تو اس کو اسی ایک ہی زبان میں کتاب ملے گی’ دنیا کی ہزار زبانوں میں تو نہیں ملے گی ۔ اب اس کے بعد یہ چیز ہوگی’ کہ آپ کو وہ زبان سیکھنی ہوگی جس میں وہ کتاب آئی ہے ۔ سیدھی سی بات ہے ۔ کہ جی! بڑا وقت چاہتی ہے’ بڑا مشکل ہے ۔ کسی کی  Appointmentکر دیجیے جرمنی میں ‘  اس کی خواہ Embassy  میں’ یا فرم میں’ اور وہ شرط لگا دیں’ کہ جانے سے پیشتر اتنی سی جرمن زبان تمہیں آنی چاہیے’ جب وہاں جا کے کلرکی ملے گی ۔ آپ دیکھتے ہیں کس طرح سے نائٹ کلاسز آپ اس کے لیے Join کرلیتے ہیں ۔ اس کے لیے تو آپ یہ کرتے ہیں ۔ ’’اے بڑی اوکھی اے ‘‘ ۔ اس لیے کہ اس کا مفاد سامنے نظر آتا ہے’ یہ اس کی بات نظر نہیں آتی ۔ وہ اس کے بعد اور بات ٹھیک ہے’ وہ  يَبْغُونَهَا عِوَجًا (14:3) والے تھے وہ انہیں دیکھتے ہیں’ کہ صاحب !  سارا قرآن ان کو حفظ یاد ہے’ ساری تراویحوں میں یہ ختم کردیتے ہیں’ اور روز پڑھتے رہتے ہیں’ دیکھو تو ان کی زندگی کیا ہے ۔ یہ ان کے ساتھ وہ کچھ کیا ہے’ مجھے یہ کیا کردے گی’ تحت الشعور میں یہ بات ہے’ کہ جب ثواب ہی کی بات ہے’ تو پھر بہرحال اس کے پڑھنے سے بھی ثواب ہی ہوتا ہے’ اور کیا ہوتا ہے ۔ پہلی بات یہ ہے کہ  بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ (14:14) ۔ اب یہ جو چیز ہے کہ یہ جو قرآن آیا ہے’ اس کو تم نے سمجھنا ہے’ جبھی تو یہ لِسَانِ کہا  لِيُبَيِّنَ لَهُمْ (14:14) کہا’ تاکہ بات واضح ہوجائے ان پہ ۔ تو یہ پہلی چیز اس روشنی کے بعد کچھ تمہارے کرنے کی ہوگئی ۔ کرنے کی کیا ہے؟  سورج نکلنے کے بعد بھی جو شخص سویا رہے’ یہ سورج کی روشنی اس کے لیے کچھ بھی مفید ہوسکتی ہے؟  سورج تو اس نے نکال دیا ‘  روشنی اس نے دے دی ‘  تاریکی کافور بھی ہوگئی ‘  کس کے لیے؟  جس نے آنکھ کھولی ۔ جو پھر بھی آنکھ بند کرکے پڑا رہا اس کے لیے تاریکی ہی رہی’ روشنی نے کچھ فائدہ نہ دیا ۔ یہاں اب خود کچھ کرنا پڑ گیا ۔ يَهْدِي بِهِ (5:16) اس کے ذریعے سے خدا پھر راہنمائی کرتا ہے ۔ کس کی کرتا ہے؟  فَيُضِلُّ اللَّـهُ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي مَن يَشَاءُ (14:4) جو اس روشنی سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے’ اور وہ صحیح راستے پہ آجاتا ہے ‘  جو فائدہ نہیں اٹھانا چاہتا’ آنکھیں بند کرکے رہتا ہے’ تاریکی کا تاریکی میں رہتا ہے ۔ اگلا کام اب ہمیں خود کرنا پڑا ۔ وہ صرف نمودِ سحر کرتا ہے ‘  طلوعِ آفتاب کرتا ہے ‘  آنکھیں کھولنا یا بند رکھنا’ اب انسانی اختیار یہاں آگیا ۔ اور یہاں فَيُضِلُّ اللَّـهُ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي مَن يَشَاءُ (14:4) جسے چاہتا ہے وہ ہدایت دیدیتا ہے ۔ سورج بھی نکالتا ہے  ’’ فیر آ کے تہاڈی اکھیاں وی او کھولدا اے ‘‘ ۔ مَن يَشَاءُ جو اس سے فائدہ اٹھانا چاہے’ اپنی آنکھیں کھول لے ‘  نہیں اٹھانا چاہتا بند رکھے آنکھیں ۔ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (14:4) عزیز ہے صاحبِ قوت ہے’ کہ سورج جیسی شے’ اپنے وقت کے اوپر ایک سیکنڈ اس میں تاخیر نہیں ہوتی’ چڑھاتا ہے قوت کے زور سے ۔ اگلی بات یہ ہے’ کہ اس سے فائدہ کیوں نہیں اٹھاتا ۔ حکیم بھی تو ہے ‘  یہ جو چیز ہے’ اس کی حکمت یہ ہے کہ انسانی اختیار و ارادہ جو ہے’ وہ کام میں لائے ‘  یہ اس کے ساتھ حکمت ہے’  Rationally وہ یہ چیز کراتا ہے ۔ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (14:4) ‘  وہاں الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ (14:1) تھا ۔ عزیزانِ من!  یہاں عزیز اور حکیم آیا ہے ‘  انسان کا اختیار و ارادہ ساتھ آگیا ۔ تو عزیز کی تو صورت اس کی یہ ہے’ کہ یہ کائنات کے اندر جو روشنیاں ہوتی ہیں’ وہ اسی قادرِ مطلق کی قوتِ فاعلہ ہے’ جس کی وجہ سے یہ سب کچھ ہوتا ہے’ عزیز ہے ۔ اور اگلی بات یہ ہے’ کہ صاحب!  وہ اتنا بڑا عزیز ہے ‘  قادرِ مطلق ہے’ میری آنکھ کیوں نہیں آ کے کھول دیتا ؟  وہ کہتا ہے کہ یہ تقاضائے حکمت یہ ہے’ کہ ہم نے تمہیں صاحبِ اختیار پیدا کیا ہے ۔ ہم چاہتے تو اپنی قوت سے یہ کرسکتے تھے’ کہ تم بھی حیوانوں کی طرح ایک ہی راستے پر چلنے کے لیے مجبور پیدا کردئے جاتے ۔ وہ پھر Rationally نہ ہوتا’ جو تم اختیار کرتے ۔ حکیم کے معنی ہی ہوگئے’ کہ اگلی بات جو ہے’ وہ حکمت اور  Reasonپہ مبنی ہے ۔ اور صاحبِ اختیار و ارادہ کسی کو بنانا اور خود اس کو صحیح راستے پہ لگانا’ یا خود گمراہ کر دینا’ یہ تو Wise  نہیں ہے’  Wisdom نہیں ہے’    Reasonنہیں ہے’ ‘Rationality نہیں ہے ۔ میں نے Rationalism نہیں کہا ‘  ISM   اور بات ہوجاتی ہے ۔ حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ پھر اختیار و ارادے والے انسان سے کہا جائے کہ لیجیے!  یہ ہماری قدرتِ کاملہ نے کیا ہے’ تمہارے بس کی بات نہیں تھی کہ سورج چڑھا دیتے ۔ خدا عزیز ہے ۔ اگلی بات جو ہے کہ تمہارا اختیار و ارادہ ہے وہ حکیم بھی ہے ۔ اور آگے آگئی وہ بات ۔ بات تو چلی تھی  مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ (14:1) ‘Abstract  ہو رہی تھی ‘  تجریدی گفتگو ہو رہی تھی ‘Theoratical ہو رہی تھی’ Academic سی چیز تھی ‘  لفظی بات تھی ۔ آگیا قرآن اپنے انداز میں ‘  سمجھانے کے لیے سب سے پہلی چیز’ کہ تاریخی شواہد پیش کیے ہیں ۔ یوں ابھر کے بات سامنے آجاتی ہے’ کہ ہوتا کیا ہے ۔ وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَىٰ بِآيَاتِنَا (14:5) موسٰیؑ کو بھی ہم نے اپنے قوانین دئے۔ کاہے کے لیے؟  أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ (14:5) اور اس سے کہا کہ جاؤ!  اپنی قوم کو تاریکیوں سے نکال کے روشنی میں لے آؤ ۔ بات ساری کھل گئی ۔ کیا تھی وہ تاریکیاں جس کے اندر وہ قومِ بنی اسرائیل تھی ؟ تاریخ سے پوچھئے ‘  بتاتا ہے ۔ يُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ(2:49) وہ چلا ہوا ہے قصہ ۔ فرعون کی فرعونیت ‘  ہیتِ حاکمہ جو محکوم قوموں کے ساتھ کرتی ہے’ کہ اس قوم کے اندر جو بھی ذرا سے ابنا نظر آئیں ‘  سر اٹھا کر چلنے کے قابل نظر آئیں ‘  کلپ کرکے رکھ دیا جائے ان کو ۔ ظلمات ‘  استبدادِ فرعونیت ‘  قوت اور اقتدار والوں کا استبداد ۔ پہلی ظلمات میں سے ظلمت یہ ہے ۔ تاریخ میں لایا ہے’ اور قرآن میں ساری تفاصیل اس نے دی ہے’ کہ ظلمات پھر کیا ہوتی ہیں ۔ پہلی چیز یہ کہ بڑھاؤ آگے اس قوم میں سے انہیں’ جو جوہرِ مردانگی سے عاری ہوں ۔ اصول یہ بنا دو کہ یہاں کوئی سر اٹھا کے نہ چلے’  يُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ (2:49) ابنائے قوم کو ذبح کرتے چلے جاؤ ‘  ذلیل کرتے چلے جاؤ ۔ ذبح کے معنی یہ بھی ہوتے ہیں ۔ دباتے چلے جاؤ ‘  علم و عقل سے ان کو بے بہرہ رکھو ۔
مست رکھو ذکر و فکرِ صبحگاہی میں اسے
گناتے چلے جاؤ کہ ہم نے اسلام کی کتنی خدمت یہاں کی ہے  ’’کنے لوٹے پائے نیں مسیتاں اچ ‘‘ ۔ يُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ (2:49)۔ دیکھا!  ظلمات کی تفصیل اب آ رہی ہے ۔ موسٰیؑ سے کہا نکالو تاریکیوں سے ۔ پھر کیا تاریکی تھی اس کی؟  قرآن بتاتا ہے’ جب کہتا ہے موسٰیؑ سے کہ جاؤ فرعون کی طرف  إِنَّهُ طَغَىٰ (20:24) اوہو! وہ تو پوچھو نہیں کیا بن بیٹھا ہے’ بے حد سرکش ہوگیا ہے ۔ جی!  کیا کرتا ہے؟  کہا ہے وہ قوم کو پارٹیوں میں تقسیم کر رہا ہے’ کبھی ایک کو اوپر چڑھاتا ہے’ کبھی دوسرے کو نیچے کرتا ہے ۔ یہ طبقاتی تقسیم پیدا کردی’ انسان اور انسان کے اندر ۔ ایک انسان دوسرے انسان کا دشمن اس نے بنا دیا ‘  خون کا پیاسا بنا دیا ۔ جاؤ!  اس نے اندھیر مچا دیا ہے ۔ کیا بات ہے صاحب!  دیکھا!  دوسری چیز وہ کیا کرتا تھا ۔ پھر کیا ظلمات تھی ؟  وہ تاریکی کونسی تھی وہاں سے جہاں سے نکال کے موسٰیؑ نے لانا تھا؟  وہ ذراپڑھئے قرآنِ کریم میں فرعون کا وہ اعلان’ کہ اے مصر کے باشندو!  بتاؤ یہ زمین کس کی ہے؟  میری ملکیت ہے ‘  اس میں بہنے والی نہریں کس کی ہیں؟  ہماری ہیں یہ ساری نہریں ۔ جسے چاہیں ہم بھوکا مار دیں’ جسے چاہیں ہم کشادہ رزق دے دیں  أَنَا رَبُّكُمُ الْأَعْلَىٰ (79:24) تمہارے رزق کے وسائل میرے ہاتھ میں ہیں ۔ کہو!  کیا کہتے ہو ۔ اور پھر اس کے دربار کے وہ جو ساحر تھے’ جنہوں نے اپنی آنکھوں سے صداقت کو دیکھ کر یہ کہا تھا’ کہ ہم ایمان لے آئے ربِ موسٰیؑ کے اوپر ۔ کہا ہائیں!  ہماری اجازت کے بغیر ایمان لے آئے ۔ ظلمات میں ضمیر کی آزادی نہیں مل سکتی ‘  فکر کی آزادی نہیں مل سکتی ‘  تم وہی سوچو جو ہم سوچتے ہیں ‘  اپنے ضمیر کے مطابق تم فیصلہ نہیں کرسکتے ۔ یہ تھا وہ سب سے بڑا جرم ان بیچارے ساحرینِ دربارِ فرعون کا ۔ الفاظ اس کے یہ ہیں’ کہ ہائیں ! ہماری اجازت سے پیشتر ہی تم نے یہ بات کردی ۔ ہوسکتا تھا کہ ہم تمہیں اس بات کی اجازت دیدیتے ۔ جرم ان کا یہ ہے’ کہ ہماری اجازت سے پہلے ہی تم نے خود اپنا فیصلہ کرلیا ۔ اتنی آزادی بھی نہیں مل سکتی’ کہ ان کی اجازت کے بغیر آدمی اپنی ضمیر کے مطابق قدم اٹھا سکے ۔ دیکھا آپ نے ظلمات ۔ جب حضرتِ موسٰیؑ کے دلائل سے تنگ آگیا’ جواب کوئی نہ بن پڑا’ تو الجھایا ان کو مذہبی بحث میں ۔ ہاں ہاں!  ذرا موسٰیؑ میں یہ بات تو بعد میں کرونگا بنی اسرائیل کی ‘  بڑی ایک اہم بات یاد آئی ۔ یہ جو میرے ہاں کے امرا ‘  وزرا ‘  یہ اربابِ اقتدار بیٹھے ہیں’ ( وہ سارے کے سارے مشرک تھے کافر تھے )  یہ بتاؤ کہ ان کے اسلاف اور ان کے جو بزرگ فوت ہوگئے ہیں’ وہ جنت میں ہیں یا جہنم میں ہیں؟  سیدھی سی بات ہے’ اسے پتہ تھا کہ کہے گا کہ جہنم میں ہیں ۔ دیکھتے ہو!  تمہارے اسلاف کے متعلق کیا کہہ رہا ہے ‘  کیا کہہ رہا ہے ؟ سنتے ہو!  مجھے اور تمہیں نہیں ‘  ٹھیک ہے’ میں اپنی ذات کا انتقام نہیں لینا چاہتا کچھ نہیں ‘  تمہارے اسلاف کے متعلق کیا کہہ رہا ہے ۔ اب وہ جو تاریکیوں سے مامور ہوا تھا نور کی طرف لانے والا ‘  وہ تو نبی تھا’ وہ تو خدا کی کتاب کی روشنی تھی اس کی آنکھوں کے اندر ‘  وہ جانتا تھا کہ تاریکی کیا کرتی ہے ۔ اُس نے یہ کچھ کیا ‘  دیا الجھاؤ ذرا سا ۔ یہاں کسی مولوی صاحب سے پوچھتا اور وہ مسئلہ ہوتا کہ رسول اللہﷺ نور تھے یا بشر اور یہ آمین بالجہر یا بالخفی تو آپ دیکھتے’ پھر اس کے بعد جو بحثیں شروع ہوتیں ۔ اس نے پوچھا کہ موسٰیؑ!  بتاؤ کیا بات ہے اس کے لیے ۔ انہوںؑ نے کہا جی!  ان کا معاملہ میرے خدا کے ساتھ ہے’ وہ نپٹ لے گا ‘  تم بتاؤ بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیجتے ہو یا نہیں ۔ خود تاریکی میں نہیں تھا ‘  خود بھی تاریکی میں ہوتا وہی اسلاف کے متعلق ہی ایمان ہوتا تو الجھ جاتا’ کہ تمہارے اسلاف جو ہیں ہمارے اسلاف کا مقابلہ کریں گے؟  وہ بھی جنت میں ہوں یہ بھی جنت میں ہوں’ یہ کبھی ہوسکتا ہے؟  دونوں تاریکی میں الجھتے ۔ یہ روشنی میں تھا ۔ دیکھتے ہیں ظلمات کیوں کہا ہوا ہے اور دیکھتے ہیں’ ایک ہی مثال قرآن لے کے آیا ہے’ کہ ذرا ان کے سامنے موسٰیؑ کی بات واضح کردو ‘  تاریخی شواہد میں سے یہ پیش کردو ۔ اور پھر اس سے ہم نے کہا تھا لو یہ کتاب اور جاؤ اپنی قوم کو تاریکیوں سے نکالو’ روشنی کی طرف لے آؤ ۔ آگے ہے  وَذَكِّرْهُم بِأَيَّامِ اللَّـهِ (14:5) أَيَّامِ اللَّـهِ ‘  یہ دن اور رات کی گردشیں ساری خدا کی ہیں  لَّهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ (2:255) ابھی کہا تھا ‘  یہ خدا کے دن ان میں سے کونسے ہوگئے؟  أَيَّامِ اللَّـهِ (14:5)۔ عربوں کے ہاں ایام تاریخ کو کہتے ہیں ۔ جس دن یا کسی عصر میں ‘  کسی زمانے میں ‘  کسی دور میں ‘  کوئی معرکہ آرا واقع ہوا ہو’ جس کی یادگار قائم رکھی ہوں’ انہیں وہ تاریخ میں ایام کہہ کے پکارتے ہیں ۔ ’’ایام العرب‘‘ کے معنی ہیں عرب کی وہ تاریخ جو بڑی نمایاں طور پہ کام کرنے والی ہو ۔ قرآن نے یہاں أَيَّامِ اللَّـهِ (14:5) کہا ہے ‘  خدا کی کائنات ساری لیکن کچھ دن ایسے بھی کہ جو خود خدا نے کہا ہے’ یہ ہمارے دن ہوتے ہیں ۔ جس دور میں ‘  کسی زمانے میں ‘  کسی عصر میں ‘  کسی ایک دن میں ‘  کوئی ایسا واقع’ کہ جس میں خدا کا یہ انقلاب جو ہے کائنات کے اندر چھائے’ اس کی روشنی محیط ہوجائے ظلمات کے اوپر ‘  کسی فرعون کو شکست مل جائے ‘  کوئی محکوم قوم ان طغیانیوں سے نکل کے صحرائے سینا کی روشنیوں میں آجائے’ اسے اللہ نے اپنا دن کہہ کے پکارا ہے ۔ وَذَكِّرْهُم بِأَيَّامِ اللَّـهِ (14:5) اے رسول! یاد دلاؤ ان کو ‘  أَيَّامِ اللَّـهِ کی یاد دلاؤ جب یہ کشمکش اس مقام پہ پہنچی تھی ‘  ہمارے دنوں کی یاد دلاؤ ۔ اور آگے پھر چلتا ہے سلسلہ ۔ تفصیل آگے آئے گی ۔ میں آپ سے آج کوئی پندرہ منٹ کی چھٹی مانگنا چاہتا ہوں ‘  مجھے ایک ضروری کام میں جانا ہے ‘  پونے دس بجے ہیں  ’’ ایہدی کسر کڈ دیاں گے اگے کدی جا کے ‘‘ ۔
سورۃ ابراھیم کی پانچویں آیت تک ہم آئے ‘  چھٹی سے ہم آئندہ لیں گے ۔
 
رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّاط اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
|…|…|

Popular Posts