بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
درسِ قرآنِ حکیم ازمفکر قرآن علامہ غلام احمد پرویزؒ
چوتھا باب: سورۃ ابراھیم (14) آیات( 24 تا 37 )
عزیزانِ من! آج دسمبر 1974 ء کی پہلی تاریخ ہے اور درسِ قرآنِ کریم کا آغاز سورۃ ابراھیم کی 24 ویں آیت سے ہو رہا ہے:(14:24) ۔
سابقہ آیات میں زندگی کے دو گوشے سامنے آئے تھے’ جو ایک دوسرے سے متضاد تھے ۔ ایک اہلِ جہنم کا گوشہ’ اور دوسرا اہلِ جنت کا گوشہ ۔ ان کی کیفیات اور انداز زندگی کا وہ جتنا بھی سامنے آیا ’اب اس کے بعد قرآن یہ بتاتا ہے’ کہ ان دونوں کی بنیاد کیا ہوتی ہے؟ اصل کیا ہوتی ہے؟ وہ بیج کیا ہوتے ہیں ؟ اور یہ وہ چیز ہے جس کی اہمیت اس دور میں نمایاں طور پر سامنے آتی ہے ۔ جب یہ لوگوں نے ‘ دانشوروں نے ‘ قوموں نے پھر کہنا شروع کیا ہے’ کہ اصل اور بنیاد زندگی کے نظریہ پر ہوتی ہے ۔ اس سے پہلے یہ چیز تھی’ کہ بہرحال زندگی گزارنی ہے ۔ کسی نے قوت حاصل کرلی ‘ کسی نے دولت حاصل کرلی ‘ کسی نے اقتدار حاصل کرلیا ۔ قومیں یورش کرکے آگئیں ‘ دوسری قومیں ان کا مقابلہ نہ کرسکیں’ وہ تباہ ہوگئیں ۔ لیکن اب زمانے کے تجربے کے بعد آہستہ آہستہ انسان اس چیز پہ پہنچا ہے’ کہ یہ ساری چیزیں جتنی ہمیں اوپر نظر آتی ہیں’ یہ نتیجہ ہوتی ہیں کسی دوسری چیز کا ۔ اور وہ دوسری چیز ہے’ اصل اور اساس اور بنیاد’ اور وہ ہے نظریۂ زندگی جسے آج کل کہا جاتا ہے ۔ وہ بنیاد ہوتی ہے’ جس پہ یہ عمارت اٹھتی ہے ۔ یہ نظریہ جو ہے ہمارے دور میں اس کے لیے لفظ’ اگرچہ یہ ہمارے ہاں نظریہ کہہ دیا گیا ہے’ یہ درحقیقت ISM ہوتی ہے۔ ان کے پاس چونکہ اس کے لیے اور کوئی لفظ نہیں تھا’ اس لیے انہوں نے اس کو ISM سے تعبیر کیا ہے ۔ ایک تو چیز ہے مثلاً Social System ‘وہ تو ہے نظام سوشل ۔ اور ایک ہے Socialism ‘یہ ہے نظریہ ‘ ایک تصور زندگی کا ‘ ایک بنیاد ۔ اور اسے قرآن کی اصطلاح میں کلمہ کہتے ہیں ۔ یہ جو ہمارے ہاں اب آگئے’ پہلے کلمہ طیبہ یہ عام تھا’ اور اس کے بعد پھر چھ کلمے ۔ انہی میں کچھ الفاظ کا اضافہ کیا ‘ رد و بدل کیا ‘ کلمہ ۔ تو آپ دیکھیے کہ یہ اتنی بنیادی چیز’ جب یہی دین سے نیچے اتر کے مذہب میں آگئی ہے’ تو اس کلمہ کا کوئی خاص اثر آپ کے اوپر ہوتا ہے ؟ پڑھ کلمہ ‘ بس وہ کلمہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِ بس ختم کلمہ ۔ یعنی اب کلمہ جو ہے’ اس کا مصرف یہ رہ گیا ہے’ کہ اچھا بھئی! یہ ذرا سی یہاں تھوڑی سی کثافت لگ گئی’ یہ برتن پلید ہوگیا’ کیا کیا جائے ؟ اس کو تین دفعہ دھویا جائے کلمہ پڑھ کے دھویا جائے ۔ غور کیجیے کہ پھر زندگی کے نہج اور تصور بدلنے سے’ خود الفاظ کا مفہوم کیسے بدل جاتا ہے ۔ کہیے کہ کبھی بھی جب ہم کہتے ہیں کلمۂ طیبہ’ اور ٹھیک ہے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ ‘ کبھی آپ کے قلب میں کوئی ارتعاش ‘ آپ کی روح میں کسی قسم کا کوئی خروش اس سے پیدا ہوتا ہے ‘ کوئی اثر آپ کے ذہن کے اوپر ’آپ کے قلب کے اوپر ہوتا ہے؟ چند الفاظ ہیں جنہیں ہم زبان سے دہرا لیتے ہیں ۔ اور وہ بھی اب ایسے غیر شعوری طور پر دہرائے جاتے ہیں’ کہ ان کا کچھ اردو میں مفہوم یا معنی بھی ذہن میں نہیں آتے ۔ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ ۔ پہلا کلمہ تو یہی ہوتا ہے’ جو روز ہوتا ہے’ پڑھ کلمہ’ یا وہی پاک کرنے کے لیے کلمہ ۔ اور دوسرا کلمہ ہے’ وہ جو ( معاذاللہ ) بڑا ہی ڈراؤنا ہوتا ہے’ کلمۂ شہادت ‘ وہ جو جنازے کے ساتھ پڑھا جاتا ہے ۔ یعنی اب کلمہ کا مفہوم تو کچھ ہمارے ذہن میں ہے ہی نہیں ‘ الفاظ ہیں اور الفاظ کا استعمال اس طرح سے ہو رہا ہے ۔ اور یہ حقیقت میں وہ بیج ہوتا ہے’ جس سے کوئی درخت اگتا ہے ۔ اب ذہن میں آئی کہ بیج کی اہمیت کتنی ہوتی ہے ۔ کسان اس چیز کو ڈھونڈتا پھرتا ہے’ کہ صاحب ! وہ صحیح بیج کہیں سے مل جانا چاہیے ۔ وہاں سے بیج منگایا ہے فلاں چیز کا ‘ یہ اس نے اچھا پھل نہیں دیا’ وہ کہتا ہے اس کے بیج میں نقص تھا ۔ بیج ہی تو اصل ہے ۔ بس یوں سمجھ لیجیے کہ یہ جسے ہم بیج کہتے ہیں کسی چیز کا’ اسے کلمہ کہا جاتا ہے ۔ اصل شے ہی نظریۂ زندگی ہے ۔ یہ چیز کہ اس کو ہمارے ہاں تھیوری کہتے ہیں یعنی ان کے ہاں بھی یہ صورت ہے’ زبان جو ہے’ وہ کسی ایک ہی زبان کے ساتھ یہ نہیں’ ہر زبان کے ساتھ یہی بیتتی ہے ۔ یہ ’’تھی اوری‘‘ جو تھا حقیقت میں اٹیلین کے اندر ’’تھی‘‘ ان کے ہاں بھی خدا کو کہتے ہیں ۔ یہ THE’’تھی‘‘ یہ تھیالوجی میں تو یہ بات رہ گئی’ تھیوری میں یہ بات نہ رہی آ کر ۔ وہ بھی ہمارے ہاں کا کلمہ ہی بن گیا ۔ حتیٰ کہ تھیوری جو ہے اب ان کے ہاں’ وہ کوئی چیز جو محض لفظوں میں ہو’ وہاں تک اسے تھیوری کہتے ہیں’ اور جب وہ تھیوری پریکٹس میں آجاتی ہے’ تو وہ پھر پریکٹس ہوجاتی ہے ۔ قرآن نے بھی یہ دو لفظ استعمال کیے ہیں ۔ ایک تو کلمہ ہے’ یا کلمات اس کی جمع بنا لی قرآن نے ۔ یہ تو ہے) Law in theory قانون الفاظ کے اندر ) ۔ اور جب یہی تھیوری یا نظریہ یا Law , in practice آجاتا ہے ‘ عمل میں آتا ہے’ تو اسے سنت اللہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں دونوں ہی چیزیں آئی ہیں لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمَاتِ اللَّـهِ (10:64) اور وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّـهِ تَبْدِيلًا (33:62)۔ یہ جو نہجِ زندگی ہم بتا رہے ہیں اس کے نہ تو بیج میں تبدیلی ہوگی’ اور نہ ہی پھر اس پودے اور اس کے پھل میں کچھ تبدیلی آپ کو نظر آئے گی ۔ یہ تھا کلمہ جو بیج ہے’ اور وہ تھا اس کا پھل جو سنت کے اندر آپ کے سامنے آیا ہے ۔ اس کلمہ پر جب عمل کیا جائے تو وہ جو محسوس چیز سامنے آجاتی ہے’ اور اس کے نتائج سامنے آتے ہیں وہ سنت کہلاتی ہے’ اور جب یہ چیز تھیوری کے اندر ابھی ہوتی ہے’ تو یہ کلمہ کہلاتا ہے ۔ عزیزانِ من! یہ تھا کلمۂ طیبہ ۔ اور پھر طیب کے معنی پاک کیا’ اور پھر وہ ٹھیک کیا’ پھر یہ پانی ڈال کے پاک کرنے کے لیے کلمے کا استعمال ’’اینوں ذرا پاک کردے ۔ اے گھراں دے وچ ہوندا اے ۔ میں گھراں دے وچ جدوں کینا آں ساہڈے پرانے گھراں اچ ہجے ہوندا ہیگا اے ‘ خیر نال نویں گھراں دے وچ اے وی گل تر گئی ہوئی ہیگی وے ۔ نی کاکی پانڈا دھوتا ای ؟ جی ہاں اماں دھو لیا ۔ او پاک وی کیتا ای ؟ ‘‘ یہ الفاظ ہمارے ہاں ابھی تھے اور ’’ پاک کرن دے معنی ہوندے سن’ کلمہ ‘‘ طیب کے معنی ہم نے پاک کیا ۔ تو ایک چیز تو ہوئی برتن صاف کیا’ اور جو اگلی بات ہوئی برتن پاک کیا ۔ اس میں ماں نے یہ کہا ’بیٹی نے کلمہ پڑھا’ ذہن ایک سکون تسکین پیدا ہوئی’ کہ ہم نے پاک بھی کیا ۔
طیب کے تو معنی ہی کچھ اور تھے ۔ طیب کے معنی ہیں وہ بیج جو پھل دیدے اپنا ۔ خبیث کے معنی ہیں وہ بیج اور درخت جو پھل دار نہ ہو ۔ شکلیں دونوں کی ایک جیسی ہوتی ہیں ۔ اب معلوم ہوا’ کہ کلمۂ طیبہ کے معنی کیا ہوئے ۔ وہ نظریۂ زندگی کہ جب اس کے ساتھ اعمالِ صالح ملیں’ تو وہ اپنا موعودہ پھل تمہیں دیدے ‘ یہ ہوا کلمۂ طیبہ ۔ زندگی کے دو گوشے سامنے آئے تھے جو میں نے ابھی عرض کیے ہیں ‘ ایک اہلِ جہنم کا جس میں ہم گزر رہے ہیں ‘ ایک اہلِ جنت کا’ کہ جس کی باتیں تو ہم سنتے ہیں’ دیکھنے کی سعادت نصیب نہیں ہوئی ۔ قرآن نے دونوں گوشوں کو سامنے لانے کے بعد بتایا یہ’ کہ ان کا دارومدار درحقیقت کلمات کے اوپر ہے ‘ نظریاتِ زندگی کے اوپر ہے ‘ بنیاد کے اوپر ہے ‘ بیجوں کے اوپر ہے ۔ أَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللَّـهُ مَثَلًا كَلِمَةً (14:24) أَلَمْ تَرَ وہ باتیں جو تھیں غیر محسوس سی ہو رہی تھیں غیر مرئی سی ہو رہی تھیں ۔ کہا تم نے دیکھا ہے کہ خدا اس بات کو مثال کے ذریعے کیسے سمجھاتا ہے ۔ اور جب بھی قرآن اپنے ہاں کوئی تجریدی حقائق لاتا ہے ‘ غیر مرئی ‘ جو نظر آنے والے نہ ہوں ‘Abstract ‘اس کے بعد ان کو ہمیشہ مثال کے ذریعے سمجھاتا ہے ۔ اور مثال تشبیہ ہمیشہ محسوس کی دی جاتی ہے ۔ بات نکھر کر سامنے آتی ہے ۔ أَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللَّـهُ (14:24)کس طرح خدا نے مثال دے کے بات سمجھائی كَلِمَةً طَيِّبَةً کی مثال كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ (14:24) ایک پھل دار درخت اور پھل بھی نہایت خوشگوار ‘ بطیب خاطر جسے ہم کہتے ہیں ۔ اب آگئی بات سامنے ۔ ایک درخت جو نہایت عمدہ ‘ خوشگوار پھل دینے والا ہو ۔ اب اس درخت کی خصوصیات ملاحظہ فرمایے ۔ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ (14:24) اس کی جڑیں تو پاتال کے اندر گئی ہوئی ’ مضبوط ہوں اور اس کی شاخیں آسمان کو چھو رہی ہوں ۔ قرآن دو لفظوں میں کیا بات کہہ گیا ہے! کوئی درخت اگ ہی نہیں سکتا’ تاوقتیکہ اس کی جڑیں مضبوط ‘ زمین کے اندر نہ ہوں ۔ وہ پھل ہی نہیں دے سکتا’ تاوقتیکہ اس کی شاخیں فضا میں نہ پھیلی ہوئی ہوں۔ اور زندگی کے یہی دونوں گوشے ہیں کہ جن کا باہمی امتزاج اگر ہو تو پھر زندگی پھل دار بنتی ہے ’ یعنی اس مادی دنیا کے اندر جڑیں مضبوط ہوں قوم کی’ اور اپنے نظریات آسمانی رہنمائی سے لے’ جب زندگی اپنے خوشگوار پھل دیتی ہے ۔ دونوں میں سے ایک چیز بھی اگر کم رہ گئی ہے’ تو زندگی کا درخت مرجھا کے رہ جائے گا’ یا کوئی جھکڑ آئے گا’ تو الٹ کے رہ جائے گا ۔ أَصْلُهَا ثَابِتٌ (14:24)۔ قوم کی زندگی کے لیے پہلی چیز یہ ہے’ جو قرآن نے کہا ہے تمکن فی الارض ’ اس دنیاوی ‘ مادی زندگی کے اندر تمکن ‘ گڑا ہوا ہو وہ بالکل ۔ جب تک اس دنیاوی یا مادی زندگی کا تمکن حاصل نہ ہو’ یہ کلمات صحیح پھل دے ہی نہیں سکتے ۔ اگر یہ تمکن حاصل نہ ہو’ تو دین مذہب پہ آجاتا ہے’ تو پھر یہ کلمے ’’پانڈے پاک کرن واسطے رہ جاندے ہیگے نیں ‘‘ بس پھر ان کا مصرف اتنا ہی باقی رہ جاتا ہے ۔ کیوں ہمارے گھروں سے یہ الفاظ اٹھ گئے ؟ کوئی نتیجہ سامنے نہیں آ رہا تھا ۔ ایک یونہی متواتر رسم چلی آ رہی تھی’ جو بے معنی ہوگئی’ کیونکہ اس نے اپنا نتیجہ کوئی نہ دیا ۔ آئندہ آنے والی جنریشن نے وہ بھی چھوڑ دیا ۔ اگر کہیں یہ گھر کے اندر اگتا‘ گھر کے اندر جتنے بھی پودے اگتے ہیں’ پھول دیں ’پھل دیں’ اس کو تو نہیں بچے توڑتے یا اکھیڑتے ۔ یہ کلمۂ طیبہ کیوں ہمارے گھروں سے مٹ گیا ؟ ان کے سامنے کوئی محسوس چیز نہیں آ رہی تھی ۔ كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ (14:24) عزیزانِ من! اسلام نام ہی اس چیز کا ہے أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ (14:24) اس امتزاج کا نام ہے جسے آپ اسلام کہتے ہیں ۔ اس دنیاوی زندگی میں اس مادی زندگی میں’ Material Prosperity جسے آپ کہتے ہیں اس کے اندر اتنا بڑا تمکن’ کہ آپ کی قوم کی جڑیں مضبوط ہوں مادہ کے اندر۔ عزیزانِ من! دو لفظ یا دو ٹکڑے جس میں قرآنِ کریم ایک تو باطل کے تمام نظریاتِ زندگی کی تردید کر گیا: پہلا نظریۂ زندگی مذہب کا’ کہ مادہ یا Matter یا Physical Life (مادی زندگی ) ‘ اس دنیا کے متاع ‘ ساری قابلِ نفرت’ ترک کر دینے کے قابل’ چھوڑ دینے کے قابل’ ناپاک’ پیچھا چھڑاؤ’ لاشیں’ جس کے گرد کتے منڈلا رہے ہیں’ بھونک رہے ہیں ۔ یہ نظریاتِ زندگی آپ کے ہاں ہر مذہب میں ملیں گے ۔ قرآن نے جب کہا ہے کہ أَصْلُهَا ثَابِتٌ تو پہلی چیز یہ کہی’ کہ کوئی درخت پھل ہی نہیں دے سکتا ’تاوقتیکہ اس مٹی کے اندر اس کے پاؤں نہ جمے ہوئے ہوں ۔ مادہ جسے آپ کہتے ہیں’ وہ تو اتنی اہم اور ضروری چیز ہے ۔ پہلی چیز تمکن فی الارض ہے ۔ اب مذہب کی دنیا میں’ خواہ وہ دھرم اور Religion کی زندگی ہو’ یا رہبانیت اور تصوف کی زندگی ہو’ دونوں کو قرآن نے کاٹ کے رکھ دیا’ جب کہا کہ جب تک أَصْلُهَا ثَابِتٌ نہیں زندگی کا’ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ (14:24) ہو نہیں سکتا ۔ آپ دیکھتے ہیں کہ تشبیہ تشبیہ میں ہی بات کتنی عجیب کہہ گیا ۔ بہت اچھا جی! أَصْلُهَا ثَابِتٌ ہونا چاہیے ‘ اس مادی زندگی کے اندر پاؤں گڑے ہوئے ہونے چاہئیں ‘ اس کا کنٹرول ہونا چاہیے ‘ تمکن ہونا چاہیے ‘ اس کی Prosperity ہونی چاہیے ۔ کیا یہی ہے اصلِ حیات؟ اس نے کہا کہ ذرا سوچو تو سہی اگر یہ مادہ جو ہے’ یہی اس بیج کے اوپر یہ مٹی جوہے اتنی بڑی ڈھیلوں کی طرح اس کے اوپر آجائے’ تو اگے گا اس میں سے کچھ؟ اس کے لیے وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ (14:24) بھی تو ہونا ضروری ہے۔ یہ تعلق جو سما کے ساتھ ہے یہ ہے جسے آپ آسمانی راہنمائی کہتے ہیں ۔ یہ دونوں چیزوں کا امتزاج ہے’ کہ جس کا نام اسلام یا قرآن کی زندگی ہے ۔ پہلی چیز جو ہے’ کہ یہ وہی رہبانیت وغیرہ ’یا مذہب کی دنیا ‘ اس میں یہ کہ صاحب! یہ تو ترک کردینے کے قابل’ بلکہ نفرت کے قابل’ اور وہ گیان دھیان کی زندگی ‘ قربِ خداوندی کی زندگی ‘ روحانیت کی زندگی ’ یعنی وہ شاخیں آسمان میں پھیلا رہے ہیں بغیر جڑوں کے زمین میں گاڑنے کے ۔ فریبِ نفس ہے ۔ وہ ٹھیک کہہ گیا ہے’ اور وہ تو کہتا ہی ہے جب قرآن پہ اس کی نگاہ ہوتی ہے کہ
اگر نہ سہل ہوں تجھ پہ زمیں کے ہنگامے
بری ہے مستیٔ اندیشہ ہائے افلاکی
بیٹھے ہوئے ہیں ۔ ذہنی لذت تو آپ کو مل جاتی ہے ۔ عزیزانِ من! شاعری ہے ‘ بھوک نہیں اس سے مٹتی ہے ۔ بری ہے مستیٔ اندیشہ ہائے افلاکی۔ خواہ وہ فلسفیانہ محض ادراک اور Intellect کی مستیٔ اندیشہ ہائے افلاکی ہو’ یا وہ آپ کی نام نہاد روحانیت کی مستی ہو’ کچھ بھی ہو۔ اگرنہ سہل ہوں تجھ پر زمیں کے ہنگامے ۔ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ (24:55)۔ الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ (22:41) دیکھ رہے ہیں قرآن! مومن کی زندگی ‘ قرآن کے مطابق زندگی ‘ خدا والوں کی زندگی ۔ بات کہاں سے وہ شروع کرتا ہے! فِي الْأَرْضِ (22:41) زمین کے اندر سے ۔ کوئی بیج درخت بن ہی نہیں سکتا’ اگر زمین کے اندر اس کی جڑیں مضبوط نہ ہوں ۔ لیکن اس کے ساتھ یہی نہیں’ کہ زندگی یہی Physical زندگی ہے’ یہی مادی زندگی ہے’ یہی طبعی زندگی ہے’ یہی زمین کی زندگی ہے ۔ اس درخت کے لیے زمین سے باہر نکل کر’ آسمانی سورج کی شعاعوں سے حرارت اور روشنی لینا ‘ اس فضا کی ہوا کے اندر سے غذا حاصل کرنا ‘ اس فضا کے اندر جھومنا جھولنے جھلانا ‘ بڑھتے چلے جانا ‘ پھیلتے چلے جانا ‘ یہ بھی تو درخت کے لیے ضروری ہے ۔ قرآن کیا مثال دے جاتا ہے! ایک درخت کی مثال سے ساری بات واضح کرگیا ۔ زمین میں تمکن اور آسمان کی طرف نگاہیں ‘ وہاں سے یہ حرارت ‘ وہاں سے یہ روشنی ‘ وہاں سے یہ ہوا یعنی اقدارِ سماوی سے اپنے لیے زندگی کی روشنی اور ذریعۂ حیات وہاں سے حاصل کرے’ اور زمین کے اندر پاؤں گاڑ کر رکھے ۔ تمکن فی الارض ‘ آسمانی اقدار کی روشنی میں یہ ہوگئی ’ اسلام کی زندگی’ یہ ہوگئی قرآن کی زندگی ۔ اور متعدد مقامات میں قرآن نے اس کو اور وضاحت سے بیان کیا ہے ۔ کبھی ذہن میں یہ بات نہیں آتی تھی’ کہ یہ قرآن اس قسم کی چیزیں جو کہہ جاتا ہے’ مفہوم کیا ہوتا ہے ۔ میں نے جیسا عرض کیا تھا تصریفِ آیات سے ملا کے دیکھیے’ مفہوم سامنے آتا ہے ۔ یہاں کہا ہے کہ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ (14:24) تو الْأَرْضِ یہاں لی’ اور السَّمَاءِ لیا’ یہ دونوں زندگی کے گوشے لیے ایک مادی زندگی اس زمین کا تمکن ‘ دوسرے سماوی اقدار اس کے ساتھ جو ہوں ۔ اور کہا کہ وَهُوَ الَّذِي فِي السَّمَاءِ إِلَـٰهٌ وَفِي الْأَرْضِ إِلَـٰهٌ (43:84) زندگی یہ ہے کہ اس زمین کی زندگی کے اندر بھی’ اسی کو صاحبِ اقتدار سمجھو’ اور فضا میں بھی اسی کو صاحبِ اقتدار سمجھو ۔ یہ کہنے کی ضرورت کیا تھی؟ حالانکہ ساتھ ہی اس کے یہ پڑا ہوا ہے کہ وَتَبَارَكَ الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا (43:85) اس کی بادشاہت ‘ اس کی مملکت تو پھیلی ہوئی ہے ارض پہ بھی ‘ سما میں بھی ‘ اس کے درمیان میں بھی ۔ کہا : تمہارے لیے یہ ضروری ہے’ یہ تمہارا ایمان ہونا چاہیے ‘ کیا ایمان؟ وَهُوَ الَّذِي فِي السَّمَاءِ إِلَـٰهٌ وَفِي الْأَرْضِ إِلَـٰهٌ (43:84) زمین کی زندگی میں بھی وہی صاحبِ اقتدار ‘ سماوی زندگی میں بھی وہی صاحبِ اقتدار ۔ مذہب کی دنیا کے اندر خدا اوپر اوپر کا خدا ہوتا ہے’ زمین کے ہنگاموں سے اس کو کوئی تعلق نہیں ہوتا’ یہ تو ہوتے ہی قابلِ نفرت ہیں ۔ طبعی زندگی کے اندر مادی نظریۂ حیات کے اندر‘ یہ صرف زمین کے معاملات جو ہیں‘ انہی کا تعلق زندگی سے گنا جاتا ہے‘ یہیں ایک الہ کی ضرورت پڑتی ہے‘ ساتھ کوئی دوسرا الہ نہیں ملایا جاتا ۔ یا ثنویت کی شرک کی زندگی ہوتی ہے‘ کہ یہاں اور الہ‘ وہاں کا کوئی اور الہ ۔ یہ ہے سیکولر نظامِ حیات کہ دنیاوی معاملات کے لیے مملکت یا سلطنت‘ اور سماوی معاملات کے لیے مسجد یا گرجا ۔ کسی درخت کو ان دو حصوں میں کاٹ دیجیے‘ زمین میں اس کی جڑیں رہنے دیجیے‘ اوپر سے کاٹ کے اس کو سما کے اندر رہنے دیجیے‘ جڑیں بھی سوکھ جائیں گی شاخیں بھی مرجھا جائیں گی ۔ یہاں تو ایک ہی الہ ہونا چاہیے زمین کی زندگی کا بھی وہی الہ ‘سما کی زندگی کا بھی وہی الہ ۔ کہیے کسی درخت کو وہ پھل پھول دیدے‘ اگر اس کے ہاں آپ ایک الہ رکھیں‘ اور دوسرا الہ اس کو کاٹ دیں ۔ فِي السَّمَاءِ إِلَـٰهٌ وَفِي الْأَرْضِ إِلَـٰهٌ (43:84) یہ ہے اسلام کی زندگی ۔ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ (14:24) کہا جب یہ کیفیت اس کی ہوجائے تُؤْتِي أُكُلَهَا كُلَّ حِينٍ بِإِذْنِ رَبِّهَا (14:25) یہ جو ہے درخت ‘ یہ جو ہے شجرِ حیات’ یہ تمہارے خدا کے قانون کے مطابق ہر موسم میں پھل دیے چلے جا رہے ہیں ‘ سدا بہار پھل دیے چلے جا رہے ہیں ‘ دیے جائے گا یہ پھل ۔ یہ ابھی ابھی ہم نے سورۃ الرعد میں وہی مثال پھر دیکھی مَّثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِي وُعِدَ الْمُتَّقُونَ ۖ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ (13:35) ایسے درخت کہ جن کے نیچے پانی رواں ہو أُكُلُهَا دَائِمٌ وَظِلُّهَا (13:35) ان کی آسائشیں بھی خزاں نادیدہ ’ اور ان کے پھل بھی ہمیشہ رہنے والے تِلْكَ عُقْبَى الَّذِينَ اتَّقَوا (13:35) قوانینِ خداوندی کے مطابق زندگی بسر کرنے والوں کی زندگی کا یہ انجام ہوتا ہے ۔ یہاں وہی چیز جو تھی أُكُلَهَا كُلَّ حِينٍ بِإِذْنِ رَبِّهَا (14:25) وہی اقبالؒ کا مشہور شعر کہ
یہ نغمہ فصلِ گل و لالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ
اب د یکھا یہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کے معنی کیا ہوگئے’ وہی جسے ہم کلمہ کہتے ہیں ۔ وَيَضْرِبُ اللَّـهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ (14:25) کہتا ہے کہ خدا اس طرح سے مشہود مثالیں اور محسوس مثالیں دے کر بات کو سمجھاتا ہے’ تاکہ وہ اس پہ غور و فکر کریں ۔ وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيثَةٍ (14:26) اس کے مقابلے میں وہ درخت کہ جو پھل نہیں دیا کرتے ۔ کیفیت کیا ہوتی ہے ؟ اُس درخت کی مثال تھی أَصْلُهَا ثَابِتٌ جڑیں زمین میں گڑی ہوں ‘ یہ ہے كَشَجَرَةٍ خَبِيثَةٍ اجْتُثَّتْ مِن فَوْقِ الْأَرْضِ (14:26) یوں تو وہ زمین میں ہوتا ہے’ لیکن زمین کے اوپر اوپر ہی اس کی جڑیں ہوتی ہیں ۔ کیفیت یہ کہ مَا لَهَا مِن قَرَارٍ (14:26) ذرا سا کوئی جھکڑ چلا ‘ تیز ہوا چلی’ اور وہ اکھڑ کے گیا ۔ درخت یہ بھی ہوتا ہے’ درخت وہ بھی ہوتا ہے ۔ بظاہر ایسا نظر آتا ہے’ کہ یہ مختلف نظریات یا Systems جو ہیں’ ذرا سی بات بھی ان کی آ کے ادھر ملے’ اسلام یا قرآن کے ساتھ’ اور یہ کہتے ہیں کہ ہاں صاحب ! دیکھ لیجیے اسلامی سوشلزم یعنی شجرِ خبیثہ اور شجرِ طیبہ دونوں کا اکٹھا پیوند لگا ہوا ہے ۔ نظر آنے میں یہ بھی آپ کو درخت نظر آئے گا’ وہ بھی آپ کو درخت نظر آئے گا’ لیکن درخت اور درخت میں فرق کیا کرکے بتایا ؟ کہ وہ جس کی اصل اتنی ثابت ہیں زمانے کے تقاضوں کے جھکڑ چلتے رہیں’ وہ ہر ایک کا حریف بن کے اپنے پاؤں کے اوپر کھڑا رہے گا’ اس کے اندر لغزش نہیں آئے گی ‘ وہ زمانے کے ہر بدلتے ہوئے تقاضے کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوگا’ جس درخت کی جڑیں مضبوط ہیں ۔ اور جس کی جڑیں مضبوط نہیں ہیں’ درخت تو وہ نظر آئے گا’ مساعد حالات کے اندر وہ درخت کی شکل اختیار کرے گا’ اور وہ نظر بھی آتا ہے’ لیکن جہاں نامساعدِ حالات کے تھپڑ یا جھکڑ چلے’ ایک سیکنڈ میں اکھڑ جائے گا ۔ عزیزانِ من ! کتنے ہی ISMS اس قسم کے آئے’ کتنے ہی اکھڑ گئے’ زمانے کا ساتھ تو نہ دے سکا کوئی ۔ زمانے کے جھکڑ اور تلاطم خیزیوں کا ساتھ تو وہی درخت دے گا’ کہ جس کی جڑیں زمین کے اندر ہونگی’ جس کی شاخیں پاتال کے اوپر کھڑی ہونگی ۔ کہا اس کی کیفیت یہ ہے’ کہ درخت تو ہوتا ہے’ جڑیں پاتال میں نہیں ہوتیں’ اس لیے وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ (14:24) نہیں ہوتا’ ذرا سا جھکڑ چلا اور وہ گیا مَا لَهَا مِن قَرَارٍ (14:26) مثال سامنے آئی ۔ ثبات زندگی میں نہایت ضروری ہوگیا ۔ درخت کا اس مادی زندگی کے اندر مضبوط ہونا ‘ جڑیں پکڑنا نہایت ضروری ہوگیا ۔ یہ جو ثبات ہے اس کے لیے يُثَبِّتُ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا (14:27) یہ ثبات عطا کرتا ہے خدا’ ان لوگوں کو جو اس کی صداقت پر ایمان لاتے ہیں ۔ کس چیز سے ثبات عطا کرتا ہے ؟ عزیزانِ من ! میں نے کہا تھا کہ قرآن کی رو سے کلمہ یا نظریہ یا ISM یا بنیاد جو ہے’ نہایت اہم ہے’ اس کے بغیر نہ کوئی عمارت اٹھ سکتی ہے’ نہ کوئی درخت اگ سکتا ہے۔ جو آج سمجھ میں بات نہیں آتی’ کہ صاحب ! ایمان کی ضرورت کیا ہے ‘ نیک کام جہاں بھی کوئی کرلے بہت اچھا ہے ٹھیک ہے ۔ اور ہمارے ہاں کا یہ نوجوان طبقہ’ وہ ٹھیک ہے’ چونکہ اس کے سامنے یہ ایمان جسے ہم کہتے ہیں’ کچھ اس کا مفہوم نہیں ہوتا’ اس لیے اس کی سمجھ میں بات نہیں آتی ۔ ایمان کا ترجمہ ہوا Faith ‘ Faithکے معنی ہیں اندھا یقین ۔ یہ اندھی بات ماننے کو تیار نہیں ہے ‘ ماننی ہی نہیں چاہیے ۔ اس لیے یہ کہتا ہے کہ صاحب ! ایک شخص خدا کو مانتا ہے’ ایک نہیں مانتا’ نیک کام دونوں ہی کرتے ہیں’ اس کے اندر فرق کیا ہے ؟ کہاں ضرورت پڑتی ہے ایمان کی؟ بات اصل میں یہ ہے’ کہ وہ بات ایمان کی ان کو بتانے والا نہیں ۔ ان سے پوچھو کہ صاحب ! ISM کی ضرورت کہیں پڑتی ہے یا نہیں ؟ کیسی ہی اچھی Welfare State کیوں نہ ہو’ وہ کہتا ہے کہ نہیں صاحب! Socialism کے اوپر جب تک اس کی بنیاد نہیں ہوگی’ یہ نظام صحیح نہیں ہوسکتا ۔ Matter نہیں Materialism ‘Spirit نہیں Spiritualism ۔ ان سے کہیے کہ ISM کچھ ہے ناں زندگی کے اندر اہمیت ۔ اب وہ سمجھنے لگ گئے ہیں’ کہ ISM کے بغیر کوئی سسٹم چل نہیں سکتا ۔ تو کہیے کہ جسے تم ISM کہہ رہے ہو’ اسے ہی عربی زبان میں ایمان کہا جاتا ہے ۔ یہ حقیقت میں Lifeism ہے ۔ قرآن کہتا ہے کہ يُثَبِّتُ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا (14:27) ہم ان لوگوں کو تثبیت عطا کرتے ہیں’ زندگی کے اندر ثبات عطا کرتے ہیں ‘ کاہے سے ؟ بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ (14:27) زندگی کا ثبات قولِ ثابت کے بغیر ہو نہیں سکتا’ محکم نظریۂ حیات کے بغیر زندگی کو ثبات نصیب ہی نہیں ہوسکتا ۔ يُثَبِّتُ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ (14:27) ۔ قولِ ثابت ہونا چاہیے ۔
Two sides of a triangle are always greater than the third.
The Sum of three angles of a triangle is equal to the two right angles.
یہ قولِ ثابت جسے وہ کہتا ہے کہ انہیں لے جائیے اور ان پہ عمل کرتے چلے جائیے قیامت تک اس پہ عمل کرتے چلے جائیے’ اس کے خلاف کبھی نہیں پاؤ گے ۔ کوئی Triangle نہیں آپ کو نہیں ملے گی’ کہ جس کے تین اینگلز کا مجموعہ Two right anglesسے کم یا زیادہ ہوگا ۔ دو سائیڈز Triangle کی جو ہونگی’ کبھی ہو نہیں سکتا کہ ان کا مجموعہ تیسری سائیڈ سے کم رہ جائے ۔ یہ قولِ ثابت کہلاتا ہے ۔ يُثَبِّتُ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا (14:27) ثبات عطا کرتا ہے خدا’ ان لوگوں کو جو ان صداقتوں پہ یقین رکھتے ہیں ‘ قولِ ثابت کے ذریعے سے ۔ اب یہ قولِ ثابت جب تک نہ ہو’ کسی قوم کے اندر’ اس کو ثبات زندگی میں مل ہی نہیں سکتا ۔ کیوں تھپیڑے کھا رہی ہے’ ہماری کشتی اس چھبیس سال سے ؟ ساری تدبیریں کر رہے ہیں ‘ قوم کے پاس قولِ ثابت نہیں ہے ‘ ہمارے پاس غیر متبدل نظریہ حیات نہیں ہے ‘ متعین Destiny نہیں ہے’ ہمارے پاس ‘Destinationنہیں ہے ہمارے سامنے ‘ منزلِ مقصود نہیں ہے ‘ نصب العین نہیں ہے ۔ محکم ۔ یہ عارضی چیزیں نہیں ہیں’ کہ صاحب ! اس قسم کے الیکشن میں یوں ہوجائے گا’ اور اس قسم کی تدبیر کرنے سے یہ دانے آجائیں گے ‘ وہاں سے امپورٹ کرلیں گے’ روٹی ہوجائے گی ۔ یہ قولِ ثابت نہیں ہے ۔ عزیزانِ من ! قولِ ثابت تو ایک غیر متبدل نظریۂ حیات ہے ۔ وہ کہتا ہے’ ثبات آتا ہے الَّذِينَ آمَنُوا کو بھی ’وہ جو ایمان رکھنے والے ہیں’ ان کو ثبات زندگی میں عطا ہوتا ہے بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ (14:27) ۔ تو جب آپ دیکھیں کہ کوئی قوم باوجود تمام سعی و کاوش کے ‘ سرگردانیوں کے ‘ پریشانیوں کے ‘ کاوشوں کے پھر بھی نہیں پنپ رہی’ تو سمجھ لیجیے کہ اس کے پاس قولِ ثابت نہیں ہے۔ عزیزانِ من ! یہ ہے جسے ہم Lack (فقدان)کر رہے ہیں’ یہ ہے جس کی کمی ہے ۔
سبب کچھ اور ہے تو جس کو خود سمجھتا ہے
زوال بندۂ مومن کا بے زری سے نہیں
قولِ ثابت نہیں ہے اس کے پاس ۔ آپ دیکھتے ہیں وہ کہتا ہے’ ثبات عطا کرتا ہے اللہ ’اس قوم کو ‘ ایمان رکھنے والی قوم کو ثبات عطا کرتا ہے’ بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ محکم ‘ غیر متبدل نظریۂ حیات ۔ یہی جس کو ہم نے نظریۂ پاکستان کہہ کے پکارا تھا’ اور جو اب الفاظ ہمارے ہاں وہی لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِ کی طرح بن کے رہ گئے ہوئے ہیں ۔ کوئی نہیں سمجھتا کہ یہ نظریہ کیا تھا؟ کیا ہونا چاہیے؟ یہ تھا قولِ ثابت ۔ بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ بہت اچھا جی ! روحانیت ملتی ہے اس سے ’ بقول ان کے قربِ خداوندی حاصل ہوتا ہے ’ وہاں جا کے جنت مل جائے گی ؟ یہاں دنیا بھر کی ذلت اور خواریاں ہوتی رہیں’ کوئی نہیں صاحب ! مقربینِ خداوندی کی یہ نشانیاں ہوتی ہیں یہ ہوگا ۔ یہ ثبات زندگی کا کہاں ملے گا ؟ عزیزانِ من ! سنیے بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا (14:27) جی ! وہ تو یوں رہنے نہیں دیتا ۔ جب کہا تھا اس نے کہ أَصْلُهَا ثَابِتٌ! فِي الْأَرْضِ (22:41) کہا تھا تو اس کو پھر نمایاں طور پہ بتا دیا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا (14:27) اس دنیا کی زندگی میں ثبات ملے گا’ قولِ ثابت کے ذریعے سے ۔ جو جی میں آئے کرکے دیکھ لیجیے’ قولِ ثابت نہیں ہے’ تو کبھی ثبات نہیں ہے ۔ وقتی طور کے اوپر وہ ثبات کہتا ہے’ کہ ایک ڈاکو کو بھی مال تو مل جاتا ہے راتوں رات ‘ ایک ہلاکو کو بھی ایک حملے کے اندر اقتدار مل جاتا ہے ‘ ثبات تو نہیں ہے ۔ ثبات ملتا ہے قولِ ثابت کے ذریعے سے ۔ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا (14:27) اس زندگی کے اندر بھی۔ تو بس یہاں سے اتنے سے تو یہی ہوا’ کہ بس پھر ٹھیک ہے زندگی اسی دنیا کی زندگی’ کہ یہاں کے متعلق کوئی نظریۂ حیات جو مستحکم ہو’ اختیار کرلیجیے’ ثبات مل گیا ۔ یہی چاہتا ہے قرآن ؟ کہتا ہے کہ نہیں ! وَفِي الْآخِرَةِ (14:27) لیکن یہ ثبات فی الحیٰوۃ الدنیا مقدم ہے ۔ اسی منطق کی رو سے نظر آگیا’ کہ اگر ثبات فی الحیٰوۃ الدنیا نہیں ہے’ تو ثبات فی الاٰخرۃ مل نہیں سکتا ۔
وہ قوم نہیں لائقِ ہنگامۂ فردا
جس قوم کی تقدیر میں امروز نہیں ہے
یہ ہے یہ جو شخص کہہ گیا تھا’ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ (14:27) ۔ اب رہے اس کے خلاف کہنے والے جن کے پاس یہ قولِ ثابت نہیں ہے’ وَيُضِلُّ اللَّـهُ الظَّالِمِينَ (14:27) ان کو ظالم کہا گیا ہے ‘ کسی شے کو اس کے صحیح مقام پہ نہ رکھنا ۔ ان کے اعمال رائیگاں جاتے ہیں ‘ ضل کے معنی ہوتا ہے رائیگاں چلے جانا ۔ اور یہ سب کچھ یونہی At Random نہیں ہو رہا ‘ اتفاقیہ طور پہ نہیں ہو رہا ‘By Chance نہیں ہے ۔ وَيَفْعَلُ اللَّـهُ مَا يَشَاءُ (14:27) خدا کا قانونِ مشیت ہے جس کے مطابق یہ کچھ ہو رہا ہے ۔ ثبات نہیں نصیب ہوسکتا
تدبر کی فسوں سازی سے قائم رہ نہیں سکتا
جہاں میں جس تمدن کی بنا سرمایہ داری ہے
ثبات نہیں نصیب ہوگا ‘ وقتی طور کے اوپر تو یہ اس قسم کی خوشگواریاں ‘ خوشحالیاں وہ مل ہی جائیں گی ۔ وہ ایسا ہی ہے’ وہ جیسے شام کے وقت شراب کے گھونٹ سے چہرے پہ سرخیاں آجاتی ہیں ۔ عزیزانِ من ! صحت کی سرخیاں اور ہوتی ہیں’ نشے کی سرخیاں اور ہوتی ہیں ۔ یہ جو شام کو سرخیاں آتی ہیں’ صبح کے خمیازے سے پوچھیے کیا کیفیت ہوتی ہے ؟ ایک ایک ہڈی ٹوٹ رہی ہوتی ہے ۔ اب قرآن کا انداز آیا ۔ مثالوں کے ذریعے سے بات واضح کی’ کہ صحیح نظریۂ حیات جو ہے’ اس پہ دارومدار ہوتا ہے ۔ اب وہ بات ہوگی کہ قولِ ثابت اگر نہیں ہے’ تو یہ چیزیں میسر آئیں گی ‘ خوشگواریاں بھی میسر آجائیں گی ‘ دولت بھی میسر آجائے گی ‘ اقتدار بھی میسر آجائے گا ۔ قوم بھی ہوگی ‘ کارواں بھی اس کا ہوگا ‘ ہوگا کیا ؟ وہ جو آیت کئی بار سامنے آئی ہے’ دہرایا کرتا ہوں ’ ہر بار کلیجہ شق ہوجایا کرتا ہے’ دل خون بن کر آنکھوں سے ٹپک پڑا کرتا ہے ۔ کس طرح بات سمجھائی ہے ؟ أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ (14:28) آگیا قرآن تاریخ کی طرف پھر ‘ اپنا انداز جو اس کا سمجھانے کا ہے ‘ قوموں کی تاریخ کی طرف آگیا ۔ تم نے دیکھا بھی ہے انجام ان قوموں کا ؟ یہ بھی تم نے نظارہ دیکھا ہے ‘ کیا ؟ إِلَى الَّذِينَ بَدَّلُوا نِعْمَتَ اللَّـهِ كُفْرًا (14:28) تم نے دیکھا ہے اس قوم کے کارواں کو’ کہ سالارِ کارواں جو ان کے تھے ان کے رہنما جو تھے’ انہوں نے کیا کیا؟ بَدَّلُوا نِعْمَتَ اللَّـهِ كُفْرًا (14:28) خدا کی دی ہوئی ان تمام آسائشوں کو ‘ Prosperity کو’ خوشحالیوں کو ‘ نعمتوں کو انہوں نے کیا کیا ؟ كُفْرًا آپ کو معلوم ہے کفر کے معنی ہیں’ چھپا کر رکھ لینا ‘ دبا کر رکھ لینا ‘ ناقدر شناسی بھی جسے ہم کہتے ہیں ۔ نعمت کی قدر شناسی یہ ہے’ کہ جہاں ہونی چاہیے ‘ جس کے ہاں ہونی چاہیے ‘ جس کے لیے ہونی چاہیے’ یہ وہاں استعمال ہو ۔ ناقدری اور ظلم اس کا یہ ہے’ کہ ہو تو یہ سب کچھ’ لیکن کوئی شے اپنے ٹھکانے پہ نہ ہو ۔ کہا کہ یہ لوگ کہ جنہوں نے بدلوا ۔ خدا نے اتنی آسائشیں اور خوشگواریاں دی تھیں’ انہوں نے اسے کفر سے بدل لیا ۔ اور یہ وہ کارواں سالار تھے’ قافلے کو لے جانے والے’ وَأَحَلُّوا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ (14:28) اور یہ کارواں سالار اپنی قوم کو اس منڈی میں جا کے انہوں نے اتارا دیدیا’ جہاں اس جنسِ کاسد کا کوئی پوچھنے والا نہیں تھا’ کوئی خریدار نہیں تھا ۔ وَأَحَلُّوا قَوْمَهُمْ اس قافلے کے اونٹوں کی رسیاں کھول دیں’ اور وہاں جا کے اتارا اس کو دیدیا ’ کہ جس منڈی میں اس جنس کا پوچھنے والا کوئی نہیں تھا ۔ تجارت کا قافلہ آئے’ کتنی منزلیں طے کرکے وہ بے چارہ آتا ہے’ کتنی مشقتوں کے بعد آتا ہے’ مال بھی اس کے اوپر لدا ہوا ہوتا ہے ۔ وہ کسی ایسی منڈی میں آ کر اگر ان کارواں سالاروں نے اس کو اتارا دیدیا ’ کہ جہاں اس مال کا پوچھنے والا ہی کوئی نہیں ہے ۔ میں کہتا ہوں اس سے زیادہ اور تضاد کیا ہوگا ؟ جہاں اس جنسِ کاسد کا پوچھنے والا کوئی نہیں ۔ کہا ہم نے چار آیتیں پہلے تمہیں بتایا ہے’ کہ جہنم کی زندگی کیا ہوتی ہے ؟ تمہیں بتاؤں کیا ہوتی ہے ؟ جَهَنَّمَ (14:29) یہ ہوتی ہے’ جہنم ‘ اسے کہتے ہیں’ جہنم ‘ کوئی مُل ہی نہ پڑے اس جنسِ کاسد کا ۔ يَصْلَوْنَهَا (14:29) جہنم جس میں دھکیل دی گئی یہ قوم جو تھی ۔ وَبِئْسَ الْقَرَارُ (14:29) منزل ملنے کو تو مل گئی’ اتنی بری منزل ملی ۔ قرار یہ بھی ہے’ قرار وہ بھی ہوتا ہے ۔ قافلے کے لیے تو قرار کی ضرورت ہے ‘ کہیں تو اترنا ہی ہے اس نے ۔ کہا ایک اتارا یہ ہوتا ہے’ جہاں اتارا جاتا ہے’ یہ انداز بھی ہوتا ہے ۔ کیوں ہوا یہ ‘ کیا کردیا انہوں نے ؟ کہا سیدھی سی بات وَجَعَلُوا لِلَّـهِ أَندَادًا (14:30) خدا کے ساتھ اور خدا بنا لیے ۔ یہ ہوا ان کے ساتھ ۔ اب خدا بنانا جو تھا’ وہ تو پہلے اس نے بتا دیا’ کہ الہ فی الارض بھی وہی ہو’ الہ فی السمآء بھی وہی ہو ۔ یہاں کے یوں کہیے’ دنیاوی رہنماؤں کو سیاسی رہنماؤں کو تو ایک طرف چھوڑیے ۔ جس مذہب کی یہ کیفیت ہو’ کہ یہاں شخصی قوانین تو اور ہونگے’ اور Public Laws اور ہونگے ۔ یہ دو خدا بنانے والی بات نہیں ہے ؟ یہ مطالبہ آپ کے ہاں کی مذہب کی دنیا کا چلا آ رہا ہے’ چھبیس سال سے ‘Constitutions کے اندر لکھا ہوا ہے’ Personal Laws اور ہونگے’ اور Public Laws اور ہونگے ۔ وَجَعَلُوا لِلَّـهِ أَندَادًا لِّيُضِلُّوا عَن سَبِيلِهِ (14:30) اور مقصد دونوں کا یہ ہوتا ہے’ جب الگ الگ یوں کرلیں’ کہ دونوں زندگی کے حصوں کو ‘ زمین کو آسمان سے الگ کرلیں گے آپ ‘ یہاں اور الہ ہوگا’ اس کے لیے اور الہ ہوگا’ تو ہوگا کیا ؟ اور تو سب کچھ ملے گا ‘ خدا کی طرف لے جانے والا راستہ نگاہوں سے اوجھل ہوجائے گا ۔ بس اتنا ہی ہوگا ۔ جواب دیں گے’ کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں صاحب ! دیکھیے تو سہی کتنی خوشحالیاں ‘ کتنی فارغ البالیاں انہیں نصیب ہو رہی ہیں’ یہ بنا ہوا ہے’ اور وہ بنا ہوا ہے’ یہ کچھ کیا گیا ہے’ وہ کچھ کیا گیا ہے ۔ بہت کچھ ہے یہ ۔ کہا قُلْ تَمَتَّعُوا (14:30) ٹھیک ہے جی ! بڑی خوشحالیاں ہیں ‘ ان سے پوچھو کتنے دنوں کی ہیں ۔ اس کے بعد تم دیکھو گے’ کہ جس راستے پہ بھی چلتے ہو راستہ تمہیں جہنم کی طرف لے جائے گا ۔ جہنم کے بھی تو ابواب ہیں ‘ ایک باب نہیں ہے’ بہت سے دروازے ہوتے ہیں اس کی طرف لے جانے والے ۔ لِّيُضِلُّوا عَن سَبِيلِهِ (14:30) اس کے ایک راستے کی طرف سے جب وہ راہ گم ہوجاتی ہے’ تو پھر جتنے جی چاہے راستے اختیار کرو’ Prosperity بھی وقتی طور پہ حاصل ہوتی ہے’ یہ سب ملتا ہے’ لیکن مَصِيرَكُمْ إِلَى النَّارِ (14:30) جن راستوں پہ جی چاہے گھومتے پھرو’ ہر راستہ آخرالامر تمہیں جہنم کی طرف لے جائے گا ۔ اور یہ کچھ بتانے کے بعد کہا’ قُل اے رسول لِّعِبَادِيَ الَّذِينَ آمَنُوا (14:31) کہہ دو میرے ان بندوں سے الَّذِينَ آمَنُوا جو ہماری صداقتوں پر یقین لے آئے ہیں ۔ آپ نے دیکھا کہ یہ کس قدر وحشت انگیز سا ‘ کپکپا دینے والا منظر تھا ۔ اس منڈی میں قافلے کو لے جانا’ جہاں جنسِ کاسد کا کوئی خریدار نہیں ‘ جس راستے سے جاؤ’ آگے جہنم ہے ‘ جہنم وہ جس میں نہ زندگی ہے’ نہ موت ہے ‘ موت چاروں طرف سے دکھائی دے رہی ہے’ دھاڑتی ہوئی’ چنگھاڑتی ہوئی ‘ ڈرتا ہے’ کانپتا ہے ۔ قرآن کا انداز قُل لِّعِبَادِيَ میرے بندوں سے یہ کہہ دو ۔ یہاں یہ میرا جو کہنا ہے’ کتنا پیار ہے اس کے اندر ۔ عزیزانِ من ! وہ ساری دہشت اور وحشت اور کپکپاہٹ ایک لفظ کے اندر قرآن نے دور کردی ۔ کس جگہ قرآن یہ لایا ہے ؟ اے رسول میرے بندوں سے کہہ دو الَّذِينَ آمَنُوا جو ہماری صداقتوں پہ ایمان لائے ہیں’ کہ تم نہ گھبراؤ ‘ تم نہ ڈرو ‘ خوف نہ کھاؤ ۔ يُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُنفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً (14:31) ان سے کہہ دو کوئی بات ڈرنے کی نہیں ۔ نظامِ صلوٰۃ قائم کرو’ اور جو کچھ بھی خدا نے تمہیں دے رکھا ہے’ وہ تمہاری صلاحیتیں ہوں’ ہنر مندیاں ہوں’ کمائی ہو’ جو کچھ بھی ہے یہ سب رَزَقْنَاهُمْ (14:31) کے اندر آجاتا ہے’ جو کچھ بھی ہم نے سامانِ زیست دیا ہے’ اس کو كُفْرًا دبا کے چھپا کے نہ رکھو’ اس کو کھلا رکھو ۔ سِرًّا وَعَلَانِيَةً (14:31) اور اس کے استعمال کے لیے کھلا رکھنے کے بعد عندالضرورت ہے’ ٹھیک ہے’ یوں اعلان کرکے دو’ یوں خفیہ طور پہ دو’ لیکن دیتے چلے جاؤ’ کھلا رکھتے چلے جاؤ ۔ ان سے کہو کہ یہ کرو’ لیکن اس میں دیر نہ کرو ‘ اس کے لیے انتظار نہ دیکھو ۔ مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا خِلَالٌ (14:31) قبل اس کے کہ وہ دن آجائے’ کہ جس میں تمہیں پھر ضرورت پڑے’ اس چیز کی’ کہ ایسا وہ نقشہ ‘ ایسی وہ چیز ’ جس سے امن نصیب ہو کہاں سے ملے ؟ ’’ اے ہٹیاں تے وکن والا سودا نئیں کہ جدوں جی چاہے خرید لے جا کے ‘‘ لَّا بَيْعٌ فِيهِ (14:31)’’اے سودے وکدے نئیں ہوندے ہیگے‘‘ ۔ قبل اس کے کہ وہ دن آجائے’ کہ پھر تم اس کو تلاش کرتے پھرو’ یہی اپنی متاعِ حیات جھولیوں میں ڈال کے’ کہ کہیں سے خرید کے اس کو لے آیئں’ یہ خریدا نہیں جاسکتا ۔ بہت اچھا ! خریدا نہیں جاسکتا ‘ کسی دوست کے ہاں سے مستعار لے لیں گے ۔ کہا وَلَا خِلَالٌ (14:31) یہ دوستوں سے مستعار بھی نہیں ملا کرتا ’’فیر او وی نہ کر دیندے نیں پئی ہن ساہڈے کول وی نئیں ہے’ جاؤ کھسماں نوں کھاؤ جا کے ‘‘ ۔ نہ قیمتاً کہیں سے ملے ‘ نہ دوست داری کے اعتبار سے یوں ملے ۔ دو ہی تو طریقے ہوتے ہیں ۔ قَبْلِ أَن يَأْتِيَ يَوْمٌ (14:31) قبل اس کے کہ تم اس کیفیت ‘ اس مقام میں پہنچ جاؤ کہ جہاں پھر یہ نہ تو قیمتاً تمہیں مل سکے’ اور نہ کہیں سے مستعار مل سکے’ کسی دوست کے ہاں سے مل سکے’ اس سے پہلے یہ کیفیت اپنے ہاں پیدا کرلو ۔ وہی مہلت کا وقفہ جو ہوتا ہے ۔ اس نے کہا ہے کہ یہ اس وقفے کے اندر تو تم اس چیز کا ازالہ کرسکتے ہو’ لیکن جب خَفَّتْ مَوَازِينُهُ (101:8) کی صورت ہو تخریبی خرابیوں کا پلڑا جو ہے جب جھک جائے پھر یاد رکھو اس وقت لیے پھرو یہ دام اپنی جھولی میں ‘ نہ کہیں سے قیمتاً مل سکتی ہے’ نہ کہیں سے پھر دوست کے ہاں سے مل سکتی ہے’ اس سے پہلے پہلے یہ کرلو اپنا انتظام ۔ کہا یہ جو ہم نے تمہیں کہا ہے’ یہ سب کچھ سامانِ زیست کھلا رکھو ‘ کہا دیکھتے ہو’ کہ ہم خالق تھے’ ہم نے تمہیں پیدا کیا’ تو تمہارا سامانِ زیست کس طرح کھلا رکھا ۔ یہ ہے نظام جو تمہیں اپنے ہاں نافذ و جاری کرنا چاہیے ۔ نظامِ انفاق ۔ اللَّـهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ (14:32) بتایا کہ یہ نظام کیسے قائم ہوگا ؟ پہلی چیز تو وہی کہ مادی ضروریات کے لیے اس نے سماوات وارض کو پیدا کیا ‘ تمہاری تخلیق ہوئی ۔ وَأَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً (14:32) یہ نظام تم خود اگر چاہتے کہ انسان پیدا ہوتے’ ان کے ہاں بچے پیدا ہوتے’ اور یہ نظام موجود نہ ہوتا’ کیا زندگی کا وجود قائم رہ سکتا تھا ؟ بچہ پیدا ہو’ دنیا میں انسان آئے’ اور یہاں ہوا موجود نہ ہو ۔ یہ ہوا اس کے ماں باپ نے پیدا کردی تھی’ جنہوں نے یہ بچہ پیدا کردیا’ یا اس نے کچھ انتظام کر رکھا تھا’ کہ جونہی میں باہر جاؤں آکسیجن موجود ہو’ جس میں میں سانس لے رکھوں ۔ زندگی کا مدار پانی پہ ہو’ او رزندگی والا انسان پیدا ہو یہاں اور پانی موجود نہ ہو ۔ کہا قبل اس کے کہ تمہیں ہم یہاں بھیجتے’ یہ سارے جتنے بھی سامانِ زیست درکار تھے ‘ تمہاری زندگی کے قائم رکھنے کے لیے چاہئیں تھے’ تم دیکھتے ہو کہ کس طرح سے ہم نے انہیں مہیا کیا ’اور بلا معاوضہ’ بلا قیمت یہاں تمہارے لیے مہیا کیا ۔ اور ہر ایک کے لیے مہیا کیا’ نہ ہم نے طبقات کی تقسیم کی’ نہ ان کو گوشوں میں اور شعبوں میں اور Departments میں بانٹا ۔ وہ بچہ آپ کے ہاں اگر شودر کے ہاں پیدا ہو’ یا برہمن کے پیدا ہو’ دونوں کے لیے یکساں ہوا موجود ہے ۔ امیر کے محل میں پیدا ہو’ یا فقیرکی جھونپڑی میں پیدا ہو’ ہم نے تو اس بچے کے لیے یکساں یہ ہوا پیدا کی تھی ۔ پانی یکساں آسمان سے برسایا تھا ۔ کبھی یہ نہیں ہوا’ کہ وہاں فرشتوں کو حکم دیدیا جائے’ کہ ہاں صاحب! یہاں یہ لے جائیے’ یہ جتنے Millionares ہیں ان کے گھروں پہ برسا دیجیے ۔ ہمارے ہاں تو یہ نہیں ہوتا ۔ فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَّكُمْ (14:32) دیکھتے ہیں مٹا دیے طبقات ۔ نوعِ انسانی کو کہا جا رہا ہے ۔ سامانِ زیست لَکُمْ تم سب کے لیے ۔ وَسَخَّرَ لَكُمُ الْفُلْكَ لِتَجْرِيَ فِي الْبَحْرِ بِأَمْرِهِ (14:32) پھر ایک جگہ کا سامانِ زیست وہیں نہیں رہتا ۔ آپ دیکھتے ہیں کہ کس طرح سے یہ نظام کیا ‘ پانی پہ تیرنے والی یہ کشتیاں’ ایک جگہ سے دوسری جگہ یہ سب لیے چلی جا رہی ہیں ۔ لَکُمْ تمہارے لیے ۔ وَسَخَّرَ لَكُمُ الْأَنْهَارَ (14:32) پانی اوپر سے بھی برسا پھر اس کے بعد جو فالتو پانی تھا’ پہاڑوں کی چوٹیوں کے ریزروائر میں’ ہم نے سردیوں میں جمع کردیا’ کہ آج کل کم ضرورت ہے’ کل کو زیادہ ضرورت ہوگی’ تو پھر گرمیوں میں پگھلانا شروع کردیا’ اور وہ بہے چلا آ رہا ہے’ ہر ایک کے گھر سے آگے سے آوازیں دیتا ہوا چلا جا رہا ہے ۔ وَسَخَّرَ لَكُمُ الْأَنْهَارَ (14:32) یوں پانی یہ بھی تمہارے لیے مسخر ۔ میں نے کہا تھا’ کہ جنت کی نہر کو اس نے سلسبیل کہا ہے’ کہ وہ بہتا ہوا چلا جائے راستے میں’ اور سوال کرتا چلا جائے ’’پانی دی لوہڑ ہیگی اے بھئی ؟ پانی دی لوہڑ ہیگی اے بھئی ؟ ‘‘ ۔ سلسبیل اس کا نام ہے ‘ راستے میں پوچھتا چلا جائے’ آوازیں دیتا چلا جائے ’’کینوں کینوں لوہڑ ہیگی اے آجاؤ اے ترا جاندا جے پیا‘‘ ۔ وَسَخَّرَ لَكُمُ الْأَنْهَارَ (14:32) ۔ ایک نظامِ خداوندی ہے ۔ ایک فرعونی نظام ہوتا ہے ‘ فرعون نے کیا کہا تھا ؟ یہی کہا تھا کہ یہ انہار یہاں کی زمینیں سب میری ہیں’ لَکُمْ نہیں ہیں ۔ بس اتنا ہی فرق ہے ۔ وَسَخَّرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَائِبَيْنِ (14:33) زندگی کے لیے سورج اور چاند کی روشنی دونوں کی ضرورت ہے ۔ چاند کی روشنی سے پودوں میں خوشوں میں دانہ پڑتا ہے’ سورج کی روشنی اور حرارت سے وہ سارا کچھ پکتا ہے ۔ کہتا ہے کہ یہ ہم نے مسخر کردیا ۔ اور پھر یہ نہیں ہے’ کہ کسی ایک جگہ ان کو کھڑا کردیا ہو’ کہ ان کے فوکس میں جو آئے’ اسے تو یہ کچھ ملے’ اور جو دور رہ جائیں وہ کہیں کہ صاحب ! ہمیں ملا ہی نہیں ہے ۔ کیا بات ہے دَائِبَيْنِ کی ! تم ایک جگہ ہوتے ہو’ یہ چلتے ہوئے جاتے ہیں تمہارے پاس ۔ آ ہا ہا! کیا بات ہے اس قرآن کی صاحب ! یہ پانی ہمارا جنت کا وہ سلسبیل کی طرح بہتا ہے ۔ یہ جو ہیں شمس و قمر جن کے اوپر اتنا دارومدار زیست کا ہے’ یہ چل کے تمہارے پاس آتے ہیں’ تم تو اپنے مقام پہ رہتے ہو’ تمہیں جانا نہیں پڑتا ان کے پاس ۔ وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ (14:33) اور دن اور رات کی گردش تم دیکھتے ہو’ کس طرح از خود یہ چیز ہوتی چلی جاتی ہے’ کہ سارا دن تھکے تھکائے ہوئے اس کے بعد اطمینان سے رات کو سو جاؤ تم ۔ یہ تمہاری پیدائش سے سب کچھ ہے ۔ عجیب بات ہے یہ کچھ گنانے کے بعد کہا’ لمبی چوڑی بات کیا کہیں وَآتَاكُم مِّن كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ (14:34) جس جس چیز کی ضرورت تھی زندگی کے لیے’ وہ ہم نے پہلے مہیا کی’ اور زندگی بعد میں یہاں پیدا کی ۔ کیا الفاظ ہیں ! وَآتَاكُم مِّن كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ (14:34) ۔ کہا یہ زندگی جو ہے’ یہ ہم نے پہلے سے یہ سب کچھ کیا ۔ اب اس کے بعد تمہیں ہم کہہ رہے ہیں’ کہ اس قسم کا ایک نظام قائم کرو ۔ عزیزانِ من ! اس نظام کی آیت ذہن میں آگئی’ وہ نظامِ خداوندی کہ جسے اس نے جنت کہہ کے پکارا ہے ۔ کہا کہ وہ کیا ہوتی ہے’ اس کی خصوصیت ؟ پہلے تو یہ کہ جنت ہوتی کیا ہے ؟ إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّـهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا (41:30) یہ ثبات تھا ’ کہ اس کو ثبات حاصل ہو ۔ کہا کہ وہ لوگ کہ جنہوں نے کہہ دیا’ کہ اللہ ہمارا رب ہے ‘ وہ ہے نشوونما وینے والا پروردگار ۔ جنہوں نے یہ کہہ دیا ’اعلان کردیا ’نصب العینِ حیات اپنا یہ رکھ لیا ثُمَّ اسْتَقَامُوا (41:30) اور پھر اس پہ جم کے کھڑے ہوگئے ۔ ثبات نہایت ضروری ہے ۔ ثُمَّ اسْتَقَامُوا (41:30) جم کے کھڑے ہوگئے’ یہ شرط ہے ۔ عزیزانِ من ! دو لفظ ہیں’ ہوتا کیا ہے ؟ تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ (41:30) ان کے اوپر فرشتے نازل ہونے شروع ہوجاتے ہیں ۔ اللہ اکبر ! کیا نتیجہ ہوتا ہے نزولِ ملائکہ کا ؟ ہوتا کیا ہے پھر یہ ؟ ہوتا یہ ہے وہ کہتے ہیں’ کہ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا (41:30) نہ تمہیں کوئی خوف ہوگا’ نہ حزن ہوگا ۔ وہ آ کے یہ کہتے ہیں’ کوئی خوف و حزن نہیں ہوگا ۔ خوف خارجی خطرات سے مامونیت ‘ حزن دل کی گرفتگی’ اور حزن اور ملال جسے کہتے ہیں’ افسردگی’ دونوں ہی چیزیں نہیں ہونگی ۔ وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ (41:30) ہم تمہیں بشارت دیتے ہیں’ بلکہ لو بشارت اس جنت کی’ کہ جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے ۔ عزیزانِ من ! سنیے وہ جنت ۔ نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا (41:31) او ہم کوئی ہائی کورٹ کی تاریخ نہیں تمہیں دے رہے’ کہ چھ مہینے کے بعد دو سال کے بعد مقدمے کی پیشی ہوتی ہے ۔ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا (41:31) اسی زندگی کے اندر ہم تمہیں بشارت دیتے ہیں’ ایک ایسے نظام کی ۔ اور یہیں تک نہیں ہے وَفِي الْآخِرَةِ (41:31) وہی بات ساتھ اس کے ۔ کہا کیا ہے وہ جنت ؟ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا پہلی جنت دیکھ لیجیے فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ہے’ اس کی یہاں خوشخبری دی جا رہی ہے’ ملائکہ آ کے خوشخبری دے رہے ہیں ۔ کیا کہا اس جنت کے متعلق’ کہ اس میں کیا ہوگا ؟ دو لفظوں میں بات ہے صاحب ! وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنفُسُكُمْ (41:31) اس کے اندر جس چیز کو جی چاہے گا’ ملے گی وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ (41:31) جس چیز کو آواز دو گے’ حاضر ہوجائے گی ۔ جنت ۔ اس سے زیادہ اور جنت کی کیا بات ہوگی ۔ یہاں عام طور پہ کہا کرتے ہیں کہ صاحب ! جب یہ کہا کہ جس چیز کو جی چاہو گے وہ ملے گا’ اور جس چیز کو بلاؤ گے’ وہ حاضر ہوجائے گی’ تو اب یہ جو خراب چیزوں کی بھی تو بہت خواہش ہوتی ہے’ اور اس کو بھی تو بہت جی چاہتا ہے’ تو یہ بھی پھر اس میں ہوگا ؟ کیا جواب ہے ! کہا تمہیں پتہ نہیں ہم نے یہ شرط جو مومن کی لگائی ہے’ اس کی کیفیت یہ ہوتی ہے ۔ وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّـهُ (81:29) ان کا جی وہی چاہتا ہے’ جو خدا چاہتا ہے ۔ ملائیے ان ٹکڑوں کو ۔ اس دنیاوی زندگی کے اندر جنت’ جس کی بشارت فرشتے آ کے تمہیں دیں گے’ اس میں کیفیت یہ’ کہ جو جی چاہے وہ ہوگا ‘ جو مانگو گے ملے گا’ لیکن مومن کی تو کیفیت یہ ہے’ کہ ان کا جی وہ چاہے گا’ جو ان کا خدا چاہتا ہے ۔ بہت اچھا جی ! یہ کچھ ملے گا’ جو مانگو گے ملے گا جو چاہو گے ہوگا ۔ یہاں تو کیفیت ہماری یہ ہے کہ
بے نیازی سے تیرے ناز اٹھائے کیا کیا
جو نہ مانگا وہ ملا اور جو مانگا نہ ملا
مبداء فیض سے بس اتنا گلا ہے مجھ کو
جو نہ چاہا وہ ہوا اور جو چاہا نہ ہوا
یہاں وہ یہ کہتا ہے’ کہ تمہارے لیے مَا تَشْتَهِي أَنفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ (41:31) جو چاہو گے ہوگا’ جو مانگو گے ملے گا ۔ عزیزانِ من ! یہ ہے فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا (41:31) کی زندگی ‘ اس جنت کی زندگی ۔ بہت اچھا جی ! یہ کچھ ملے گا’ اور بہت بڑا کرم آپ کا ۔ اگر احسان کے طور پہ ملے گا’ تو یہ سب کچھ ملنے کے باوجود’ جو چیز خیرات کے طور پہ ملے’ احسان کے طور پہ ملے’ اس میں تو پھر عزت اور وقار تو باقی نہیں رہتا ۔ ہوسکتا تھا کہ یہ چیز ذہن میں آئے ۔ کہا کہ نُزُلًا مِّنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ (41:32) کہا ایسی عزت کے ساتھ ملے گا’ جیسا ایک میزبان مہمان کو دیتا ہے ‘ خدا میزبان ہوگا’ تم اس کے مہمان ہوگے ۔ افوہو ۔ آ ہا ہا ! وَآتَاكُم مِّن كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ (14:34) سب کچھ وہ دے گا ۔ دونوں معنی سَأَلَ کے ہوتے ہیں جس کی کسی کو ضرورت ہو’ یا جو کچھ وہ کسی سے مانگے ۔ جو مانگو گے وہاں ملے گا ‘ جو ضرورت تھی وہ سب مہیا کردیا ۔ یہ کہا ہے پہلے’ کہ آسمان سے پہلے بارش برسائی’ اس میں سے تمہیں پھل دیے’ کھیتیاں دیں’ فصلیں دیں’ چاند اور سورج کو تمہارے مسخر کیا’ پانی کو مسخر کیا’ شمس و قمر کو مسخر کیا ’لیل و نہار کو مسخر کیا ۔ کہا وَإِن تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللَّـهِ لَا تُحْصُوهَا (14:34) ارے ! کیا کیا گنائیں تمہیں ‘ گننے پہ آؤ تو گنی ہی نہ جائیں ہماری نعمتیں جو ہیں ۔ کہا یہ کچھ ہم نے دیا’ بلا مزد و معاوضہ’ لَكُمْ ہر ایک کے لیے ‘ تمہیں یہاں بھیجنے سے پہلے’ یہ سب کچھ انسان کے لیے کیا ۔ اور انسان کی کیفیت إِنَّ الْإِنسَانَ لَظَلُومٌ كَفَّارٌ (14:34) اس کم بخت کی کیفیت یہ ’ کہ یہ سب کچھ یہاں بلا مزد و معاوضہ ملا اس کو ‘ اس نے کیا کیا ؟ لَظَلُومٌ كَفَّارٌ کچھ وہ آئے کہ جنہوں نے جہاں کسی کو ہونا چاہیے تھا’ وہاں اس کو نہیں رکھا ۔ روٹی بھوکوں کو نہیں ‘ اس کے ہاں جہاں کے کتوں کو بھی یہ سب کچھ ملتا ہے’ وہاں دیا ۔ لَظَلُومٌ جہاں ہونا چاہیے تھا اس رزق کو’ وہاں نہیں ‘ وہاں دیا جہاں نہیں ہونا چاہیے تھا ۔ اس نے تو یوں بانٹ دی’ اور جس نے بانٹا نہیں’ كَفَّارٌ اس نے چھپا کے رکھ دیا ۔ ہم نے تو یہ کیا تھا ۔ جب قرآن الْإِنسَان یا انسان کہتا ہے’ اس کے معنی ہوتی ہے’ انسان وحی کی راہنمائی کے بغیر ‘ حیوانی سطح پہ زندگی بسر کرنے والا ۔ اسے کہا جاتا ہے’ کہ ہم نے یہ کچھ کیا’ یوں دیا لَكُمْ ہر ایک کے لیے دیا’ اور جب یہ سارا کچھ انسانوں کے ہاتھ میں آیا’ تو ان کی کیفیت یہ ہوگئی’ کہ لَظَلُومٌ كَفَّارٌ بانٹا تو اس طرح سے بانٹا’ کہ محتاج محتاج تر ہوتا گیا’ غنی غنی تر ہوتا چلا گیا ۔ یہ ہے ظلم کہ جہاں کسی شے کو ہونا چاہیے’ وہاں نہ ہو’ کسی دوسری جگہ ہو ۔ اور یا كَفَّارٌ چھپا کے ہی رکھ لیا ۔ کہا یہ ہے وہ جہنم ۔ ہم نے تو نہیں جہنم تمہارے لیے بنایا تھا ۔ ہم نے تو زندگی دینے سے پہلے سامانِ حیات تمہارے لیے’ سب کے لیے یکساں طور پہ مہیا کردیا تھا’ بلا مزد و معاوضہ ’ لیکن إِنَّ الْإِنسَانَ لَظَلُومٌ كَفَّارٌ (14:34) ۔ وہی جو مشہور آیت ہے’ جس کا جو مفہوم بیان کیا جاتا ہے’ عجیب الجھنیں پیدا ہوتی ہیں ۔ وہی کہ ہم نے اپنی امانت زمین و آسمان پہ’ او رپہاڑوں پہ’ اور ان پہ رکھی’ اور وہ جو کہتے ہیں کہ جی ! انہوں نے انکار کردیا’ اور انسان نے پھر اس کو آگے بڑھ کے اٹھا لیا ’ اور وہ عام ترجمہ کہ بڑا ہی ظالم اور جاہل تھا’ اس نے اٹھا لیا ۔ بات ہی یہ تھی کہ کائنات کے اندر کسی نے بھی اس امانت میں خیانت نہ کی’ یہ انسان تھا کہ جس نے اس کے اندر خیانت کی ۔ ’’حملِ امانت‘‘ کے معنی ہی ہوتا ہے’ امانت میں خیانت کرنا ۔ ہم نے تو یہ سارا کچھ پوری نوعِ انسانی کے لیے بکھیر دیا تھا’ لیکن انسان کے سامنے آیا إِنَّ الْإِنسَانَ لَظَلُومٌ كَفَّارٌ (14:34) ۔ کہا کہ وہ نظام جس کا ہم نے پہلے ذکر کیا ہے’ کہ جس میں انسانیت کے لیے’ یہ تمام سامانِ زیست اس طرح سے عام ہوگا’ کہ جہاں جتنی جس کو ضرورت ہو’ وہاں اس کو مل جائے رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُمَا (2:35) ہر ایک پیٹ بھر کر کھائے’ جہاں بھوک لگے وہاں کھائے ۔ قرآن نے جنت کی یہی Definitionکہی ہے ۔ آدم کی جنت ۔ کہا کہ انسانوں نے یہ کچھ کیا’ لیکن اس کے بعد پھر ہماری طرف سے ایسے انسان آتے رہے’ کہ جنہوں نے پھر اس باطل کے نظام کو مٹا کے’ پھر اس کی جگہ صحیح نظام جو تھا’ اس کو قائم کیا ۔ اور قرآنِ کریم اس کے لیے ابتدا حضرتِ ابراہیم علیہ السلام سے کیا کرتا ۔ اگرچہ آپ سے پہلے کے انبیاء نے بھی اپنے اپنے مقام پہ کیا’ لیکن عالمگیر نظام کی جو طرہ ڈالی ہے’ وہ حضرتِ ابراہیمؑ کے ہاتھوں سے پڑی’ جنہوں نے جسے کہا گیا ہے تعمیرِ کعبہ ‘ پوری نوعِ انسانیت کے لیے مرکزِ حیات ۔ تو عالمگیر انسانیت کے لیے جو نظام ہے’ اس کی ابتدا حضرتِ ابراہیمؑ نے کی تھی’ اس لیے ہمیشہ وہاں سے ذکر کرتا ہے ۔ کہا ہم نے یہ کیا’ انسان نے یہ کیا’ لیکن انہی انسانوں میں سے وہ انسان بھی تو آئے وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ (14:35) بات وہاں سے شروع کی ۔ دوسرے مقامات کے اوپر ہے’ کہ ہم نے کہا کہ اپنے بیٹے کو یہاں بساؤ’ اور بناؤ ایک گھر ۔ کس کا گھر ؟ گھر تو میرا گھر ہوتا ہے’ تیرا گھر ہوتا ہے’ زید کا گھر ہوتا ہے ۔ پہلی بات جب آپ کسی اجنبی سے پوچھتے ہیں’ یا ملنے والے سے جس کا پتہ نہیں ہوتا’ کہتے یہ ہیں کہ ’’ تیرا گھر کتھے ہیگا؟ گھر تے ہمیشہ تیرا گھر ہوندا ہیگا ‘ میرا گھر ہوندا ہیگا ‘‘ ۔ ابراہیمؑ سے کہا کہ ابراہیمؑ ایک گھر بناؤ ۔ کہا جی کس کے لیے بناؤں ‘ اپنے لیے بناؤں ‘ بیٹا ساتھ ہے اس کے لیے بناؤں ‘ کس کے لیے بناؤں ؟ کہا کہ نہیں ! یہ گھر جو ہیں’ یہ تو لوگوں کے بنے ہوئے ہیں بَيْتِيَ (22:26 ) میرے لیے بھی ایک گھر بنا دو ’’اک کوٹھا مینوں وی چھت دے ابراہیمؑ ۔ ایناں گھراں دیاں سارے ونڈیاں پا لیاں ہیگیاں نیں ‘‘ اس لامکاں کے لیے بھی بَيْتِيَ میرا گھر بنا دو ۔ کہا کہ مالک الملک! یہ ساری کائنات تیری ہے ‘ کیا کہا تم نے کہ یہ میرے لیے بھی ایک گھر بنا دو ۔ کہا اے ابراہیمؑ ! ’’بیت للناس‘‘ وہ گھر بنا دو کہ جسے کوئی انسان میرا گھر نہ کہے’ پوری انسانیت کے لیے وہ گھر ہو ۔ إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا (3:96) بَيْتِيَ کہا ہے اس کو ‘ میرا گھر اور اس کے بعد کہا ’یہ کہ یہ گھر پہلا گھر ۔ سارے گھر انہوں نے اپنے اپنے ناموں سے الاٹ کرالیے تھے’ قبضہ کرکے بیٹھ گئے تھے’ انسانوں نے بانٹ لیا تھا ۔ پہلا گھر کہ جو وُضِعَ لِلنَّاسِ کہ جسے عالمگیر انسانیت کے لیے ہم نے بنایا ہے’ اس لیے ہم نے اس کو اپنا گھر کہا تھا ’ کہ کوئی ملکیت جتا نہ بیٹھے ۔ ابراہیمؑ نے گھر بنانے کے بعد پہلی دعا مانگی رَبِّ اجْعَلْ هَـٰذَا الْبَلَدَ (14:35) اے میرے نشوونما دینے والے ! اس شہر کو جس میں یہ میں نے گھر بنایا ہے’ دعا میری یہ ہے ۔ عزیزانِ من ! سنیے دعا کیا ہے ۔ دنیا میں دنیاوی نظاموں کا ستایا ہوا انسان ’ہر جگہ امن تلاش کرتا پھر رہا ہے’ کہیں اس کو امن نہیں مل رہا ۔ آپ کو شاید یاد نہ ہو’ ایک دو سال پہلے کا ذکر ہے’ غالباً وہ یوگنڈا تھا یا افریقہ کی اسی قسم کی ریاست تھی ۔ وہاں سے ایک ستائی ہوئی لڑکی’ غالباً وہ عیسائی لڑکی تھی یا ہندو لڑکی تھی ۔ وَمَا هُم بِخَارِجِينَ مِنَ النَّارِ (2:167) مصیبت یہ ہوتی ہے’ کہ ان مستبد نظاموں سے باہر نکلنے کا بھی تو کوئی راستہ نہیں ہوتا ۔ قرآن یہ کہتا ہے’ کہ جہنم سے جب وہ باہر نکلنے کا ارادہ کریں’ تو اس کے دربان دھکا دے کے ان کو اندر داخل کردیں گے ۔ وہ اس قدر بے چاری ستائی ہوئی تھی’ کہ اس کو وہاں تو امن مل ہی نہیں سکتا تھا’ باہر جانے نہیں دیتے تھے ۔ کسی ملک کا کوئی جہاز آیا[ اور وہ چوری چھپے اس جہاز کے اندر چھپ گئی ۔ اور جہاز جب وہاں سے چل پڑا سمندر کے اندر چلا گیا’ تو اس وقت اس نے وہاں پھر اپنا سر نکالا ۔ تو اب وہ جہاز نہ واپس آسکتا تھا’ نہ اسے دھکیل سکتا تھا سمندر میں ۔ عزیزانِ من ! اس کی داستان پھر اخباروں میں چھپی ۔ وہ سامان کا جہاز تھا’ دنیا کے مختلف بندرگاہوں پہ اس نے جانا تھا’ قریباً آدھی دنیا کی بندرگاہوں پہ ۔ وہ جس بندرگاہ کے اوپر پہنچا یا’ انہوں نے اس لڑکی سے کہا’ کہ یہاں اترو یا اس لڑکی نے اترنا چاہا’ جہاں جس خشکی کے اوپر پہنچا ’وہاں والے نے اسے پوچھا کہ بتاؤ تمہارے پاس تمہارا پاسپورٹ اور ویزا کہاں ہے ۔ تو اس کے پاس نہیں تھا’ ہر بندرگاہ سے اس کو انکار ہوا’ اور اس کو دھکیل دیا اس جہاز کے اندر’ تآنکہ وہ جہاز چھ مہینے میں ساری دنیا کا سفر کرنے کے بعد اس پناہ ڈھونڈنے والی بچی کو پھر وہیں لے آیا’ جہاں سے وہ بھاگ کے گئی ہوئی تھی ۔ وَمَا هُم بِخَارِجِينَ مِنَ النَّارِ (2:167) جہنم سے نکل کون سکتا ہے ۔ عزیزانِ من ! امن کا کوئی گوشہ دنیا میں نہیں مل رہا ۔ کیا تھی دعائے ابراہیمیؑ ؟ رَبِّ اجْعَلْ هَـٰذَا الْبَلَدَ آمِنًا (14:35) میرے پروردگار ! اس گھر کو تو کم از کم ایسا رکھ’ کہ دنیا میں ہر ستم رسیدہ کے لیے یہ امن کا مقام ہو ۔ خدا نے یہ کہا تھا کہ ہاں ! ٹھیک ہے یہاں ایسا نظام قائم ہوگا ۔ وَمَن دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا (3:97) جو اس کے زیرِ سایہ آجائے گا اسے امن نصیب ہوجائے گا ۔ وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَن نَّعْبُدَ الْأَصْنَامَ (14:35) اور دعا میری یہ ہے کہ پھر مجھے اور میرے ان بچوں کو بھی جن کے ہاتھوں سے یہ کعبہ بن رہا ہے اسے ایسا کر ۔ یہ الْأَصْنَامَ صنم کی جمع ہے ویسے عام ترجمہ اس کا بت پرستی کیا جاتا ہے’ کہ ہمیں بت پرستی سے باز رکھ ۔ کیا یہ ہوسکتا تھا کبھی یہ تاثر’ کہ بت پرستی شروع ہوجائے ۔ صنم ہر اس جذبے اور شے کو کہتے ہیں’ جو کسی کو خدا سے دور لے جائے ۔ کہا یہ چیز ہم چاہتے ہیں ۔ یہ نظام اس صورت میں قائم ہوسکے گا’ن کہ میں اور میرے بعد بھی جو آنے والے ہیں کسی ایسی شے کی محکومیت اختیار نہ کرلیں’ کسی کے تابع دب کے نہ رہ جائیں’ کہ جو تیری طرف جانے والے راستے سے دور کردے۔ رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ (14:36) ہم اس لیے کہہ رہے ہیں یہ دعا پہلی اس لیے مانگ رہے ہیں’ کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ لوگوں کو تیرے راستے سے گمراہ ہی اس بات نے کیا ہے’ کہ ان کے دل میں یہ اس قسم کے جذبات پیدا ہوتے رہیں’ جو تجھ سے دور لے جاتے رہیں أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ (14:36) یا اس قسم کے صاحبِ اقتدار لوگ آتے رہے’ کہ جو انسانوں کو تیرے راستے سے دور لے گئے ۔ عزیزانِ من ! اب یہاں پہلی اینٹ رکھی گئی’ اسلام کے نظریۂ زندگی کی’ اور وہ ہے دو قومی نظریہ ۔ جس کے الفاظ ہمارے ہاں کے کلمہ کی طرح دہرائے اتنے جاتے ہیں ’’ساہنوں ایناں ای اوندا ہیگا اے پئی پانڈا صاف ہوگیا تے پاک وی کرلو ‘‘ ۔ نظریۂ پاکستان تو پھر بھی ایک ایسی ٹرم ہے ‘ دو قومی کے تو معنی ہی یہ ہیں’ دو قومیں ۔ عزیزانِ من ! ان میں سے جو جتنے دہرانے والے ہیں’ ان سے پوچھیں دو قومی نظریہ کہ صاحب ! یہاں وہ دو قومیں ہیں کونسی ؟ سیدھی سی بات ہے’ Two Nations جو آپ کہتے ہیں’ دو قومی جو کہتے ہیں’ یہ دو قومیں ہیں کونسی ؟ یہ دو قومیں ہیں جو پہلے دن سے خدا نے انسانوں کے متعلق قائم کی تھیں ۔ اس نے کہا یہ تھا کہ دنیا میں قومیت کا مدار نہ تو کسی وطن کی چار دیواری کے اندر بسنا ہے’ نہ کسی کا ہم نسل ہونا ہے’ نہ ہم زبان ہونا ہے’ نہ ہم رنگ ہونا ہے’ یہ سوال نہیں ہے ۔ جو اس نظریۂ حیات کو تسلیم کریں گے’ دنیا میں کہیں بسنے والے وہ ہوں’ وہ ایک قوم’ قومِ مومن ‘ جو اس سے انکار کریں گے’ وہ دوسری قوم ۔ دو ہی قومیں ہیں دنیا کے اندر خدا نے کہا تھا انسان دو ہی قوموں میں بٹ سکتا ہے’ یا اس نظریۂ حیات کو جو یہاں بیان ہو رہا ہے’ ماننے والے یا اس کا انکار کرنے والے ۔ تو یہ تھیں دو قومیں جن میں انسان بٹتا تھا ۔ تحریکِ پاکستان کی بنیاد اس پہ تھی کہ
بنا ہمارے حصارِ ملت کی اتحادِ وطن نہیں ہے
یہ غلط ہے کہ ایک ملک کے اندر بسنے والے سارے باشندے مسلم اور غیر مسلم ’ ایک قوم بن سکتے ہیں ۔ مسلمان ایمان کے اشتراک کی بنیاد پر خدا کے حکم کے مطابق’ قرآن کی رو سے الگ ایک قوم ہے’ باقی دنیا کی ساری قوموں سے ۔ باقی دنیا کی ساری قومیں ایک قوم ‘ دوسری قوم مسلمان ۔ دو ہی تو قومیں ہیں ۔ یہ ہم نے اپنا مطالبہ وہاں منظور کرایا تھا’ اور اس بنیاد پہ جب انہوں نے مان لیا’ کہ مسلمان الگ قوم ‘ اس کا منطقی نتیجہ یہ تھا’ کہ قوم کے لیے الگ مملکت ۔ یہ بنیاد تھی ۔ دو قومیں سمجھ لیا کیا معنی ہوئے ۔ ایک ملک کے اندر بسنے والے ‘ پوری دنیا کے اندر بسنے والے ‘ ایمان کے اشتراک کی بنا پہ مسلم ایک قوم ‘ جو بھی اس قوم میں داخل نہیں’ وہ دوسری قوم ۔ اپنے طور پہ وہ ہزار قوموں میں کیوں نہ بٹ جائیں’ ہمارے نقطۂ نگاہ سے دوسری قوم’ جسے ہم غیر مسلم کہتے ہیں ۔ یہاں ہم آگئے تو ایک مملکت ہمارے پاس ہے’ اس میں مسلمان بھی بستے ہیں’ غیر مسلم بھی بستے ہیں’ یہ سارے جتنے بھی ہیں’ یہ ایک قوم ہیں ۔ یہ جو تصور تھا’ آپ دیکھیے کہ کعبے کی بنیاد رکھنے کے ساتھ ہی’ اس معمارِ حرم نے جو پہلی بات وہاں کہی تھی’ وہ کہا یہ تھا کہ یہ جو چیز ہے کہ یہ میری نسل ہے’ یہ میرا وطن ہے’ یہ میرے ہم رنگ لوگ ہیں’ بالکل غلط ہے ۔ فَمَن تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي (14:36) جو میرے پیچھے چلے گا وہ میرا ہے وَمَنْ عَصَانِي فَإِنَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (14:36) اور جو اس سے سرکشی اختیار کرے گا تو میرا تو کوئی واسطہ نہیں ہے تو جان وہ جانے ۔ فَمَن تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي (14:36) عزیزانِ من ! یہ بنیاد ہے دو قومی نظریہ کی ۔ جو اتباع کرتا ہے خدا کے رسول کی ‘ خدا کے پیغام کی ‘ اس کے احکام کی ‘ اس کے قوانین کی ‘ اس کے نظام کی فَإِنَّهُ مِنِّي ۔ اب پتہ چلا ابراہیمؑ سے ذکر کیوں شروع ہوتا ہے ۔ فَمَن تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي ۖ وَمَنْ عَصَانِي فَإِنَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (14:36) بات ساری چلی آ رہی تھی کہ یہ رزق اس طرح سے ہم نے بکھیر دیا ۔ ایک مرکز ایسا بناؤ جو ہمارے نظام کا مرکز ہو ۔ بات یہ تھی کہ کیا اس کا بھی ذکر کہیں یہ آ رہا ہے ‘ ابراہیمؑ نے یہ جو دعائیں مانگی ہیں ‘ دعا ابھی ختم نہیں ہوئی دعائے ابراہیمیؑ کا یہ ٹکڑا ضروری ہے جو میں ساتھ ملا دوں ۔ رَّبَّنَا إِنِّي أَسْكَنتُ مِن ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِندَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ (14:37) میرے نشوونما دینے والے ! تیرے حکم کے مطابق میں نے اس وادیِ غیر ذی زرع میں اس مقام پہ جہاں کچھ نہیں اگتا ’ وہاں لا کے بسا دیا ہے میں نے ۔ کیوں یہاں بسا دیا ؟ عِندَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ (14:37) تیرے گھر کی رکھوالی کے لیے ۔ ’’گھر وی اپنا نئیں ایناں دا تے اگدا وی ایتھے ککھ نئیں ہیگا‘‘ ۔ یہاں میں نے بسا دیا ہے ان کو ۔ کاہے کے لیے بسا دیا ہے ابراہیمؑ نے ‘ ایسی جگہ کون بساتا ہے’ جہاں کوئی او رگھر بھی نہ ہو’ جہاں کچھ اگتا بھی نہ ہو پانی بھی نہ ہو ۔ میں نے یہاں بسا دیا ہے کاہے کے لیے ؟ بڑا عظیم مقصد تھا لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ (14:37) آپ سمجھتے ہیں اس صلوٰۃ کے معنی پھر کیا ہیں ۔ صلوٰۃ کو قائم کرنے کے لیے ۔ او میرے بابا ! اگر نماز پڑھنا ہی تھا تو یہ صلوٰۃ تو شام کی ان سر سبز وادیوں میں بھی تو پڑھی جا رہی تھی’ یعنی اس کے لیے یہ سارا تردد کرنا اور وہاں لا کے ایک گھر خدا کا بنا دینا’ اور وہاں ان کو بسا دینا کاہے کے لیے ؟ لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ (14:37)۔ دیکھتے ہیں یہ ہے زندگی کا نصب العین ‘ اقامتِ صلوٰۃ ‘ اس کے لیے یہ کہا جا رہا ہے لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ اس لیے یہ دیکھیے یہ سب کچھ ہم نے کردیا فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ (14:37) تو ایک بات تو یہ ہے کہ بڑے ویرانے کے اندر یہ بنایا ہے’ ایسا انتظام کردے ۔ یہ نہیں کہا کہ لوگ کھنچ کے ان کی طرف آئیں ‘ لوگوں کے دل ان کی طرف کھنچ کے آئیں ۔ عزیزانِ من! ویرانوں کی آبادیاں لوگوں کے کھنچ کے آنے سے نہیں ہوتیں’ آبادیاں تو دلوں کے کھنچ کے آنے سے ہوتی ہیں ۔ دیکھ رہے ہیں دعائے ابراہیمیؑ کیا ہے’ تَهْوِي إِلَيْهِمْ (14:37)۔ اور ا سکے بعد پروردگار ! دل میں جو بات اٹھتی ہے’ تُو تو جاننے والا ہے اور زبان پہ آ کے رہتی ہے وَارْزُقْهُم مِّنَ الثَّمَرَاتِ (14:37) ’’روٹی دا وی انتظام کردیں ایناں دا‘‘ ۔ دیکھتے ہیں ارض کے اندر درخت کی جڑوں کا مضبوط ہونا کتنا ضروری ہے ۔ تعمیرِ کعبہ کے بعد پہلی دعا خدا کا ایک پیغمبر مانگ رہا ہے’ اپنے دوسرے بیٹے کے لیے جو خدا کا پیغمبر ہونے والا ہے’ وہاں بسا رہا ہے’ پہلی دعا ہے ۔ یہ تو ٹھیک ہے لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ (14:37) مقصد یہ ہے’ تاکہ صلوٰۃ کا قیام کرسکیں ۔ وَارْزُقْهُم مِّنَ الثَّمَرَاتِ (14:37) رزق کا سامان کردے ۔ اتنا ضروری ہے یہ سامانِ رزق ۔ کاہے کے لیے ؟ پھر آیا ہے لَعَلَّهُمْ تاکہ ۔ یہ کیوں سامانِ رزق پیدا کردے ’’روٹی کھان نوں دیدے‘‘ تاکہ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ (14:37) تاکہ ان کی محنتیں بھرپور نتائج پیدا کریں ۔ روٹی نہ ملے تو کسی کی محنت بھرپور نتیجہ ہی نہیں پیدا کرتی ۔ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ (14:37) عزیزانِ من ! پیغمبر پیغمبروں کے لیے دعائیں مانگ رہا ہے ۔ روٹی کی تو اتنی بڑی اہمیت ہے ۔ یہاں بھوک کا عذاب جو ہے اسے خدا کے مقرب بندوں کی نشانیاں بتایا جا رہا ہے! پہلی دعائے ابراہیمیؑ ہے یہ’ کہ ان کی روٹی کا انتظام کردے لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ (14:37) تاکہ یہ جتنی بھی یہاں محنت کریں وہ بھرپور نتائج اپنے پیدا کرے ‘ یہ نہ ہوا تو نتیجہ نہیں پیدا ہوگا ۔ عزیزانِ من! یہ ہے چیز کہ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ (14:24) میرے مولا ! اس مادی زندگی کے اندر ان کو ثبات نصیب کر تاکہ اس درخت کی شاخیں آسمان میں جھولا جھولیں ۔ عزیزانِ من ! یہ ہے اسلامأَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ (14:24) ۔ عزیزانِ من ! ہم سورۃ ابراھیمؑ کی آیت 37 تک آگئے 38 آیت سے ہم آئندہ لیں گے ۔
رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّاط اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
|…|…|