Parwez-Ibrahim-13-to-23

 بِسْمِ اللَّـهِ الرَّ‌حْمَـٰنِ الرَّ‌حِيمِ

درسِ قرآنِ حکیم ازمفکر قرآن علامہ غلام احمد پرویزؒ

تیسرا باب:  سورۃ ابراھیم ((14 آیات )13تا 23 (

عزیزانِ من !  آج نومبر 1974 ء کی 24  تاریخ ہے اور درسِ قرآنِ کریم کا آغاز سورۃ ابراھیم کی آیت 13  سے ہو رہا ہے:(14:13)  ۔

      بات وہی ازلی کشمکش کی چلی آ رہی ہے ۔ آسمانی انقلاب کے پیغامبر رسول ‘  وہ انہیں خدا کی طرف لے جانے والے راستے کی نشاندہی کر رہے ہیں ۔ مفاد پرست گروہ ‘  حسبِ سابق ان کی مخالفت کر رہے ہیں ۔ مخالفت کی وجوہ یا بحث و جدل کا انداز’ یہ نہیں کہ دلیل کا جواب دلیل سے دیں ۔ کہا یہ جا رہا ہے ‘  دو چیزیں تھیں’ ایک تو رسول سے کہا یہ کہ تم تو ہمارے جیسے ایک انسان ہو ۔ وہی تواہم پرستی کا تصور کہ خدا کی بات کرنے والے کو انسانوں سے کچھ اونچا ‘  فوق البشر ہونا چاہیے’ اور کچھ فوق الفطرت باتیں اس سے سرزد ہونی چاہئیں ۔ وہ عقل و فکر کی دعوت دیتا ہے’ اور یہ مطالبہ وہ ہے جہاں عقل و فکر کے چراغ گل کردیے جاتے ہیں ۔ یعنی پہلی Controversy یا تضاد جسے آپ کہتے ہیں’ آپ دیکھتے ہیں کہ وہ تضاد کیا ہے؟  وہی جو دین اور مذہب کا تضاد ہے’ کہ دین کی دعوت علیٰ وجہ البصیرت ہوتی ہے’ Rational ہوتی ہے ‘  Reason   اور  Argument کی Basis پہ ہوتی ہے ۔ اور مذہب پرست طبقہ عقل اور فکر کے پیچھے لٹھ لیے پھرتا ہے’ اور اس کے لیے دلیل کی بجائے’ یہ چیز کہ کچھ فوق الفطرت شعبدے تم سے سرزد ہونے چاہئیں’ پھر ہم تمہاری بات کو سننے کے لیے تیار ہونگے ۔ پہلی چیز ۔ اور اس کا جواب یہ کہ یہ صحیح ہے کہ   إِن نَّحْنُ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ (14:11) ہم تمہارے ہی جیسے انسان ہیں ۔ بات جو میں کہہ رہا ہوں اس پہ غور کرو ۔ سچے ہو تو  هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ(2:111) اس کی تردید میں کوئی دلیل پیش کرو تو میں اس کا جواب دوں ۔ اور دوسری چیز وہی’ کہ ہم اس لیے اسے ماننے اور سننے تک کے لیے تیار نہیں’ کہ یہ ہمارے اسلاف کے مسلک کے خلاف جاتی ہے ۔ پھر وہ یہی کہتے تھے’ کہ صاحب!  بات میں کہہ رہا ہوں’ اسے آن میرٹ پرکھ کے دیکھیے’ کہ وہ بات کیسی ہے ۔ یہ بھی کوئی دلیل ہے’ کہ ایک مسلک جو متواتر تمہارے ہاں چلا آ رہا ہے ‘  غلط ہی کیوں نہ ہو ‘  تم اس کے خلاف بات سننے تک کے لیے تیار نہیں ہو ۔ یہ ہیں دو ( دلیل تو انہیں کہا نہیں جاسکتا)  وجوہِ مخالفت جو ان لوگوں کی طرف سے آ رہی تھیں ۔ بات خواہ آج سے چھ ہزار سال پہلے کی ہو رہی ہو’ یا آج کے دور کی ہو رہی ہو ۔ جب بھی خدا کی بات سامنے لائی جائے گی’ تو مذہب پرست طبقے کی طرف سے یہی دو وجوہِ مخالفت ہیں’ جو پیش کی جائیں گی ۔ ہمارے ہی جیسا انسان’ اور پھر اس کے بعد یہ کہ ہمارے اسلاف کے راستے سے یہ ہٹی ہوئی بات کہتا ہے ۔ پہلی چیز یہی کہ پہلے بھی کسی نے یہ کچھ کہا تھا ؟  کہنے والا تو ایک طرف رہا’ جب ان سے کہا کہ یہ امریکہ والے وہاں چاند پہ چلے گئے ہیں’ تو انہوں نے کہا تھا کہ پہلے بھی کوئی چاند پہ گیا تھا؟  ان سے پوچھیے کہ روز جو لاؤڈ سپیکر کے اوپر یہ وعظ اور خطبے دیتے ہیں’ تمہارے اسلاف میں سے کسی نے لاؤڈ سپیکر کے اوپر کوئی خطبہ دیا تھا’ لیکن ان سے کہے تو وہ جو دلیل سے کسی نے بات کرنی ہو ۔ جواب کیا مل رہا ہے؟ وہ کہہ رہے ہیں کہ کوئی دلیل لاؤ ‘  جواب ملتا ہے وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِرُسُلِهِمْ لَنُخْرِجَنَّكُم مِّنْ أَرْضِنَا أَوْ لَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا (14:13) یا تو واپس آؤ اسی مذہب میں’ جہاں سے تم نکل کے اس نئے دین کی تلقین کر رہے ہو’ اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر ہم تمہیں یہاں سے نکال دیں گے ۔ دیکھ رہے ہیں دلیل کیا ہے !  ملک سے باہر نکال دیں گے ۔ یا تو وہ مذہب اختیار کرو’ اور یا ہم تمہیں ملک سے باہر نکال دیں گے ۔ خدا کے قانونِ مکافاتِ عمل کی طرف سے جواب آیا’ جسے کہا گیا ہے  فَأَوْحَىٰ إِلَيْهِمْ (14:13) ہم نے اپنے رسولوں کو وحی کے ذریعے سے یہ بات بتائی’ کہ ان کی دھمکیوں میں آنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ لَنُهْلِكَنَّ الظَّالِمِينَ (14:13) یہ ظلم اور استبداد کی باتیں ہیں’ جو کچھ یہ کر رہے ہیں ‘  دلیل و برہان کی بات نہیں ۔ یہ بھی کوئی بات ہے’ کہ تم اگریا تو واپس آجاؤ’ اس غلط مذہب کی طرف جسے چھوڑ کر تم نے یہ نیا مسلک اختیار کیا ہے’ اور اگر ایسا نہ ہوگا’ تو ہم تمہیں گاؤں سے نکال دیں گے ۔ کہا یہ کہ یہ یہ کہتے ہیں’ اور تم دیکھو گے کہ یہ ظالمین ہلاک ہوجائیں گے ۔ اب انہیں قرآن نے ظالمین کہا ہے ‘  ظلم کرنے والے ۔ تم دیکھو گے کہ یہ تباہ ہوجائیں گے ‘  ہم انہیں تباہ کردیں گے ۔ ’’ہم‘‘  یہاں جو کہا ہے دیکھیے!  اس میں کتنا زور ہوتا ہے ۔ ایسے مقام پہ  ’’میں ‘‘  نہیں  ’’ ہم ‘‘  کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں یہ آپ دیکھیے گا کہ اللہ تعالیٰ  ’’میں‘‘  کہاں کہتا ہے؟  فَإِنِّي قَرِيبٌ (2:186) جب میرے بندے میرے متعلق پوچھیں تو کہو کہ میں ان کے قریب ہوں ۔ اور جب یہاں اس مقام کے اوپر آتا ہے ‘  قانونِ مکافات کی گرفت آتی ہے’ تو کہتے ہیں کہ ہمارا قانون یہ کردے گا’ اور ہم یہ کریں گے ۔ انداز بڑا خوبصورت ہوتا ہے ۔ ظالمین کو ہم ہلاک کردیں گے ۔ یہاں الظَّالِمِينَ (14:13) کہا ہے ‘  ان کا ظلم کیا ہے ؟  انہوں نے کہا یہ ہے کہ یا واپس آؤ’ تم مرتد ہوگئے ہو’ یا تو واپس وہی مذہب اختیار کرو’ ورنہ ہم تمہیں یہاں سے نکال دیں گے ۔ قرآن نے اسے ظلم کہا ہے ۔ اس لیے کہ اس کے نزدیک تو بنیادی چیز مذہبی آزادی ہے ۔ وہ باطل کا ہو یا صحیح ہو ‘  آزادی ہے کہ جس کا جی چاہے جو راستہ اختیار کرے’ اس کے نتائج بھگتنے کے لیے تیار ہو ۔ کسی دوسرے کو اس کا حق حاصل نہیں ہے’ کہ زبردستی کسی سے یہ کہے کہ نہیں!  تم یہ مذہب اختیار کرو اور وہ دین چھوڑ دو ۔ سارے قرآن کی تعلیم ہی یہ ہے’ کہ اگر زبردستی یہ کچھ کرانا ہوتا’ تو ہم انسانوں کو ایسا پیدا ہی کیوں نہ کردیتے’ کہ ہر ایک ‘  ایک ہی راستے کے اوپر چلتا ۔ ان کو اختیار ان کو اختیار و ارادہ تو دیا ہی اس لیے گیا ہے’ کہ یہ اپنے اختیار و ارادے سے راستہ اختیار کریں ۔ شرفِ انسانیت اس میں ہے ۔ اور ہم اختیار و ارادہ دینے کے بعد اسے سلب نہیں کرنا چاہتے ۔ یہ خدائی نہیں ہوگی ‘  یہ انصاف نہیں ہوگا کہ ایک طرف ہم اختیار و ارادہ دیں’ کہ جونسا جی چاہے راستہ اختیار کرو  فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ (18:29)۔ اور اس کے بعد ہم یہ کہیں کہ کیوں تم نے یہ راستہ اختیار کیا’ اور اس کے بعد یہ کہیں’ کہ یا تو واپس لوٹو اسی غلط راستے کی طرف’ اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر! ۔ عزیزانِ من!  ’’پھر‘‘  کے بعد سوچیے ‘  قرآن نے اسے ظلم کہا ہے ۔ انہوں نے تو اتنا ہی کہا تھا کہ ہم تمہیں نکال دیں گے ۔ اور آپ کے ہاں مذہب کی طرف سے کہا یہ جاتا ہے’ کہ جو مرتد ہوجاتا ہے’ یعنی اسلام چھوڑ کے کوئی اور مذہب اختیار کرلیتا ہے’ تو اس کی سزا قتل ہے ۔ یہ تو انہوں نے بھی نہیں کہا تھا’ جنہیں قرآن نے الظَّالِمِينَ (14:13) کہا ہے ‘  انہوں نے اتنا ہی کہا تھا کہ یا توواپس آجاؤ ورنہ ہم تمہیں یہاں سے نکال دیں گے ۔ اور اس کو قرآن نے کہا ہے’ کہ یہ الظَّالِمِينَ (14:13) ہیں ‘  یہ ظلم ہے ۔ یہاں ایک قدم آگے بڑھتے ہیں’ کہ مرتد کی سزا قتل ہے ۔ تو گویا وہ اس سے کچھ کمتر درجے پہ ہی تھے’ جو وہ کہہ رہے تھے کہ بھئی!  یا واپس آؤ یا یہاں سے چلے جاؤ ۔ یہاں وہ صورت ہے کہ صاحب!  یا واپس آؤ ورنہ ہم تمہیں قتل کردیں گے ‘  سزا موت ہے ۔ قرآن کہتا ہے  لَنُهْلِكَنَّ الظَّالِمِينَ (14:13) اس قسم کے ظلم کرنے والوں کو ہم تباہ کردیا کرتے ہیں’ ہلاک کردیا کرتے ہیں ۔ ہلاکت اور تباہی کے معنی یہی نہیں ہوتے’ کہ وہ بالکل ان کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جاتا ہے ‘  ہلاکت تو یہ ہے’ کہ ذلت اور خواریاں ان کے پیچھے لگ جاتی ہیں ۔ یہ آپ دیکھتے ہیں قرآن نے اسے کتنا بڑا جرم قرار دیا ہے ۔ یہ بات غور طلب ہے ۔ کس بات کو ظلم یہاں کہہ رہا ہے؟  کہ بھئی!  وہ اپنی آزادی سے ‘  دلیل کی آزادی سے ‘  اپنے اختیار و ارادہ سے ‘  ایک راستہ اختیار کیے ہوئے ہیں ۔ تمہارے نزدیک وہ غلط سہی’ لیکن تمہیں اس کا کیا حق حاصل ہے’ کہ تم زبردستی ان سے کہو کہ نہیں!  وہ راستہ نہیں اس راستے پہ چلو ۔ اگر ایسے راستے پہ نہ چلو گے تو ہم تمہیں نکال باہر کریں گے ۔ یہ بہت بڑا ظلم ہے ‘  یہ بڑا استبداد ہے ۔ اور ظلم کا نتیجہ تو تباہی اور ہلاکت ہوتا ہے ۔ کسے باشد ۔ اب یہ بات تو ہوئی کہ ہم انہیں ہلاک کردیں گے’ لیکن یہ تو حصۂ لا ہی صرف ہے ۔ انہوں نے کہا تھا’ کہ ہم تمہیں باہر نکال دیں گے’ اور قرآن نے کہا ہے کہ اس کے بعد ہوگا یہ کہ یہ تو تباہ ہوجائیں گے’  وَلَنُسْكِنَنَّكُمُ الْأَرْضَ مِن بَعْدِهِمْ (14:14) اور اس کے بعد اس ملک کے ‘  اس وطن کے ‘  اس مملکت کے ‘  تم مالک بنو گے ۔ صرف ان کی ہلاکت ہی نہیں’ بلکہ جو لوگ سچائی پہ ہیں ‘  صحیح راستہ اختیار کیے ہوئے ہیں ‘  یہ ان کے لیے ایک Positive Step ہے’ یہ ہونا چاہیے ۔ صرف ان کی ہلاکت سے تو بات نہیں بنتی’ جو حق پر ہیں ان کا تمکن ہونا ضروری ہے ۔ یہی چیز ہے جہاں سورۃ حج (22:39-40)  میں پہلی دفعہ اجازت دی گئی ہے’ جنگ کرنے کی’ تو کہا یہ گیا ہے’ کہ یہ لوگ کہ جن کی کیفیت یہ ہے’ کہ تم ان کا وطن چھوڑ کر مکے سے مدینے بھی آگئے ہو ‘  یہاں بھی یہ تمہیں چین نہیں لینے دیتے ‘  یورش کرکے آگئے ہیں ‘  یہاں بھی ظلم اور استبداد کر رہے ہیں ۔ تو اس کے بعد تمہیں اجازت دی جاتی ہے’ کہ اب تم اپنی مدافعت کے لیے باہر نکلو ۔ اور وہاں یہ چیز ہے’ کہ اس کے بعد تم دیکھو گے’ کہ ان کو کس طرح شکست ہوتی ہے ‘  یہ کیسے ہلاک ہوتے ہیں ۔ اور وہاں پھر یہ چیز کہ ان کے مقابلے میں یہ لوگ یعنی یہ جماعتِ مسلمین جو ہے’ ان کی کیفیت یہ ہے کہ انہیں تمکن فی الارض حاصل ہوگا ۔ تو یہ سوال صرف ان غلط رو انسانوں کی ہلاکت کا نہیں بلکہ صحیح نظام قائم کرنے کا سوال ہے ۔ تو صحیح نظام قائم کرنے کے لیے تو غلط نظام والے جو ہیں’ یا غلط نظام جو ہے اس کو پہلے ہٹانا اور مٹانا ضروری ہوگا ۔ تو یہ جو ظالمین کی تباہی ہے’ یہ درحقیقت ظلم کی موت ہے’ کہ ظلم کو نہیں رہنے دیا جائے گا’ اور اس کی جگہ وہ جماعت تمکن اور اقتدار حاصل کرے گی’ جو ظلم کی بجائے عدل اختیار کرے گی ۔ یہاں سوال جماعت اور جماعت کا نہیں ‘  گروہ اور گروہ کا نہیں ‘  قوم اور قوم کا نہیں کہ ان کی قوم تباہ ہوگی ہماری قوم غالب آجائے گی ۔ سوال یہ ہے’ کہ ظلم جو ہے وہ مٹے گا’ لیکن ظلم تو انسانوں کے ہاتھوں سے ہوتا ہے’ تو ان انسانوں کے ہاتھوں سے یہ اقتدار چھین لیا جائے گا جس کی بنا پہ یہ ظلم کرتے ہیں’ اور یہ اقتدار ان کے ہاتھوں میں آئے گا’ کہ جو عدل کریں گے  وَلَنُسْكِنَنَّكُمُ الْأَرْضَ مِن بَعْدِهِمْ (14:14)  ۔ اور اس کے بعد جیسا قرآن کا انداز ہے’ یوں بات ہو رہی تھی جیسے کسی پہلے دور کے دو گروہوں کی بات ‘  ان کی مخالفت و مخاصمت کاذکر ہو رہا تھا ۔ کہا کہ نہیں!  یہ ہمارا ابدی اصول ہے ‘  انہی کی بات نہیں تھی ۔ ذَٰلِكَ (14:14) یہی کچھ ہوگا’ یعنی تمکن فی الارض ہوگا’ ظلم کے مٹنے کے بعد ان لوگوں کو  لِمَنْ خَافَ مَقَامِي وَخَافَ وَعِيدِ (14:14) جو جانتے ہیں کہ خدا کا مقام کیا ہے ۔ جیسا کہ میں نے کئی دفعہ عرض کیا ہے’ قرآن کی تعلیم کا محور اور نقطۂ ماسکہ یہ ہے’ کہ وہ خدا کا صحیح تصور پیش کرتا ہے’ اور انسان کی صحیح پوزیشن سے اسے متعارف کراتا ہے ۔ بس یہ ہے وہ محور جس کے گرد اس کی ساری تعلیم گھومتی ہے ۔ تو وہ  لِمَنْ خَافَ کے معنی صرف ڈرنا نہیں ہوتا ۔ عربوں کے ہاں کسی چیز کا علم اور احساس ہونا جو ہے’ اس کو بھی وہ یہ کہتے ہیں’ کہ جسے علم اور احساس ہوجائے’ کہ خدا کا مقام کائنات میں کیا ہے ‘  وہ ایک پرستش کی شے نہیں ہے ‘  وہ ایک نظام دیتا ہے ‘  قانونِ مکافات دیتا ہے ۔ اور اس کے پیچھے اس قانون کا نتیجہ پیدا کرنے والی قوت ہے جس کا نام خدا ہے ۔ اس نے کہا کہ جو جانتا ہے’ کہ خدا کا مقام کیا ہے’ اور آگے ہے  وَخَافَ وَعِيدِ (14:14) اور وہ جانتا ہے’ کہ اس کے قوانین کی سرکشی کا نتیجہ کیا نکلے گا ۔ ذَٰلِكَ لِمَنْ (14:14) یہی ہوگا ہر اس کے ساتھ’ کہ جو یہ چیزیں جانتا ہے کہ خدا کا مقام کیا ہے’ اور اس کے قوانین کی خلاف ورزی اور سرکشی کا نتیجہ کیا ہے ۔ جو یہ جانتا ہے’ انہیں تمکن حاصل ہوگا اس ارض کے اندر ‘  اسی دنیا کے اندر  لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ (24:55) یہیں تمکن حاصل ہوگا ان کو ۔ جب ظلم اور استبداد کرنے والوں کا نتیجہ جو ہے’ تباہی اور بربادی وہ یہاں اسی کرۂ ارض پہ ہوگا’ تو اس کے مقابلے میں نظامِ عدل و مساوات قائم کرنے والوں کا اقتدار بھی تو اسی دنیا کے اندر ہوگا ۔ یہ کیا معنی کہ ان کی تباہی تو یہاں ہو’ اور ان کا اقتدار جسے جنت کہتے ہیں’ وہ آخرت میں جا کے ہو ۔ تو درمیان میں یہاں خلا پیدا ہوجائے پھر’ یعنی پھر ہو کیا؟  مثبت کیا چیز ہو پھر یہاں؟  وہ تو ہلاک ہوگئے’ تو ہلاکت کے بعد مقصد حاصل ہوگیا خدا کا’ یا اس نظام کا؟  وہ لا کا حصہ تو ان کو درمیان سے ہٹانا ہوتا ہے’ وہ ہٹانے کے بعد خلا تو نہیں یہاں رہ سکتا’ وہ ہٹانا کسی نے پر کرنا ہے ۔ اگر یہ جماعت اس خلا کو پر نہ کرے گی’ تو ظالم کی جگہ کوئی دوسرا ظالم آجائے گا ۔ اس لیے یہ ضروری ہے’ کہ ظلم و استبداد کا نظام اگر مٹتا ہے’ تو اس کی جگہ یہ عدل و مساوات کا نظام قائم ہوجائے ۔ ذَٰلِكَ لِمَنْ (14:14) یہی ہوگا جو بھی جانتا ہے کہ خدا کا مقام کیا ہے’ اور اس کے قوانین کی سرکشی کا نتیجہ کیا ہے ۔ وَعِيدِ (14:14) اسی کو کہتے ہیں ۔ وَاسْتَفْتَحُوا (14:15) انہیں سمجھایا گیا’ لیکن وہ اس مقام پہ پہنچے جہاں انہوں نے کہا کہ نہیں صاحب!  فیصلہ کن حقیقت کو سامنے لے آئیے ‘  فیصلہ ہوجانا چاہیے ۔ قرآن نے کہا ہے کہ فیصلہ ہوگیا ۔ فیصلہ کیا تھا؟  وَخَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ (14:15)  کیا الفاظ ہیں صاحب!  یہ ایک لفظ تو جَبَّارٍ آیا۔ ان لوگوں کے متعلق جو اس طرح سے جبر کرنے والے ہیں ۔ یہ جبر کے معنی ہوتا ہے شکنجے میں کس دینا ‘  جکڑ دینا ۔ سب سے بڑا شکنجہ تو یہ ہے’ کہ آپ کو فکری آزادی نہ دی جائے ‘  آپ کے ذہن کے اوپر فولادی ٹوپیاں ایسی ڈال دی جائیں ‘  کہیں تقلید کی ‘  کہیں استبداد کی ‘  کہیں عقل و فکر کی شمعیں گل کرنے سے’ کہ وہ کس دی جائیں شکنجے میں’ کہ تمہارا ذہن ‘  تمہاری فکر ‘  تمہاری ضمیر ‘  آزاد ہی نہ ہونے پائے ۔ عنید جو ہے قوانینِ خداوندی سے سرکشی برتنے والا ۔ یہاں ایک بات سامنے آگئی ۔ جبار تو یہاں کہا گیا ہے ۔ خدا کی بھی تو ایک صفت الْجَبَّارُ ہے الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ ۔ یہاں ان کو کہا گیا ہے جَبَّارٍ (14:15) ۔ اور یہیں سے ایک بڑی اہم بات سامنے آتی ہے ۔ قوت فی ذاتہٖ نہ خیر ہے’ نہ شر ہے ۔ اور یہ بات کئی دفعہ آچکی ہے’ جو میں نے کہا تھا’ خیر و شر کا مسئلہ بڑا پرانا چلا آ رہا ہے’ بڑا اہم اور ہے ۔ فلسفیوں کے ہاں دیکھیے تو صاحب!  اس کے اوپر پوچھو نہیں’ کمروں کے کمرے کتابوں کے بھر جائیں’ یہ جو کچھ انہوں نے اس پہ لکھا ہے ۔ قرآن نے تو دو لفظوں میں بات صاف کردی ۔ اس نے کہا کہ کوئی شے شر ہوتی نہیں اس طرح سے ۔ کچھ قوتیں ہیں’ کچھ صلاحیتیں ہیں’ کچھ خاصیتیں ہیں’ کچھ طاقتیں ہیں’ ان کا استعمال ہے جو انہیں شر بنا دیتا ہے’ اور خیر بنا دیتا ہے ۔ پانی ساحلوں کے اندر بہتا ہے’ تو وہ ممدِ حیات ہے’ اگر وہ ساحلوں کو توڑ کے’ سرکشی اختیار کرکے سیلاب بن جاتا ہے’ تو اس سے تباہی آجاتی ہے ۔ آگ سے اتنے مفید کام انسانوں کے نکلتے ہیں ‘  تمدنی زندگی کا انحصار اس پہ ہے ۔ یہی آگ جب شعلہ فشانیوں سے باہر نکلتی ہے’ جسے جنگل کی آگ کہتے ہیں’ تو تباہیاں ہی تباہیاں آجاتی ہیں ۔ یہ ان چیزوں کا استعمال ہے ۔ اب یہ دیکھیے کہ عربوں کے ہاں یہ دونوں استعمال کیسے ہوتے تھے ۔ یہ جو ہڈی ٹوٹتی ہے’ تو اب تو یہ پلاسٹر نکل آیا ہے’ اس پہ پلاسٹر لگا دیتے ہیں ۔ بات وہی ہے ۔ اس سے ذرا پہلے وہ دو لکڑیاں لے کے نیچے اوپر رکھ کے پٹیاں باندھا کرتے تھے Splinters سے۔ ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کو اس طرح سے سختی سے باندھنا جو ہے’ جسے آپ شکنجہ کہہ دیں گے’ کہ وہ ہلے نہیں ‘  اسے وہ ’’جبر‘‘ کہا کرتے تھے ۔ ایسا کرنے والے جو ہیں ان کے ہاں ’’جبار‘‘ کہلاتے تھے ‘  جراح ہوتے تھے ‘  ’’جبار‘‘ کہلاتے تھے ۔ ایک تو مرہم ہے’ وہ ٹوٹی ہوئی ہڈی کا علاج نہیں ہوتا ‘  دردِ خفیف سی اگر ہو تو وہ مرہم ہوتی ہے’ اس وقت خدا رؤف و رحیم ہوتا ہے’ لیکن جب ہڈی ٹوٹ جاتی ہے’ تو اس کا علاج یہ بھی ہے کہ اس کو اس طرح سے اس وقت لکڑیوں کے اندر جکڑ کے باندھ دیا جائے’ تاکہ ٹوٹی ہڈی جڑ جائے ۔ اسے ’’جبار‘‘ کہتے ہیں ۔ خدا کا الْجَبَّارُ ہونا یہ ہے ۔ ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کو قانون کے شکنجے میں رکھ کے جوڑ دینا ۔ اور ایک جگہ ہے کہ اچھی بھلی ہڈی کو ڈانگ مار کے توڑ دینا ۔ یہ جبر وہ ہے جہاں یہ کہا گیا ہے’ کہ الظَّالِمِينَ ہیں ‘  انہیں یہاں ’’جبار‘‘ کہا گیا ہے ۔ وہ بھی جبر تھا ‘  اب تو یہ چیز نہیں اس سے پہلے چائنا والے آیا کرتے تھے’ ان کے ساتھ ان کی عورتیں بھی ہوتی تھیں’ اتنے اتنے پاؤں ان کے ہوتے تھے ‘  وہ چل ہی نہیں سکتی تھیں بے چاریاں ۔ تو وہاں وہ پیدائش کے ساتھ ہی’ لڑکیوں کے پاؤں کو کس کے باندھ دیا کرتے تھے’ کہ وہ بڑھنے ہی نہ پائیں ۔ تو ایک تو شکنجہ یہ ہے’ کہ وہ بڑھنے ہی نہ پائیں’ یہ ہے جسے وہ عرب اس قسم کا جبر کہتے تھے ۔ تو یہ الْجَبَّارُ وہاں کہا ہے کہ جو ضمیر کی آزادی نہ دیں ‘  فکر کی آزادی نہ دیں ‘  انسان کے اختیار و ارادے کو اپنے ظلم اور استبداد کی بنا پر جکڑ کر رکھیں’ یہ بھی ایک جبر ہے ۔ اور ایک جبر وہ ہے’ کہ ظالم جو ہے اس کو قوت سے روک دیا جائے’ یہ بھی جبر ہے ۔ اور پھر یہ بھی ہے’ کہ اگر کوئی شخص سرکش بھی ہوگیا تھا ‘  ہڈی ٹوٹ گئی تھی’ اور وہ پھر علاج کے لیے آتا ہے’ تو اسے بھی قانون کے شکنجے کے اندر جکڑ کے اس کی ٹوٹی ہوئی ہڈی کا علاج کرنا ہوتا ہے ۔ وَخَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ (14:15) لفظ خَابَ عجیب چیز ہے ۔ یہ آگے چل کے سورۃ الشمس (91:9-10) میں انسانی ذات کے متعلق کہا گیا ہے’ اور وہاں یہ لفظ آیا ہے  قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا ﴿٩﴾ وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاهَا (91:9-10) أَفْلَحَ :  اس کی کھیتی برومند ہوگئی’ جس نے اپنی ذات کی نشوونما کا سامان بہم پہنچا دیا  زَكَّاهَا ۔ وہ تو  أَفْلَحَ ہے’ یہ کھیتی برومند ہونا کیا ہوتا ہے؟  بیج کے اندر صلاحیتیں ہوتی ہیں’ انہیں اگر مناسب سامانِ نشوونما مہیا ہوجائے’ تو اس میں سے پھر کونپل پھوٹتی ہے’ کھیتی اگتی ہے’ پودا بڑھتا ہے’ پھر پھل پھول لاتا ہے۔ یہ تو ہے فلاحت جسے آپ کہتے ہیں ۔ قرآنِ کریم نے یہ فلاحت جسے آپ کاشتکاری کہتے ہیں’ بہت سے مقامات پر عملِ صالح کی مثال فلاحت یا کھیتی کی دی ہے’ اور بڑی عمدہ مثال ہے ۔ عمل کے بیج کے اندر یہ صلاحیت’ یا ایمان کے اندر یہ صلاحیت ہوتی ہے’ کہ اگر اس کو اعمالِ صالح کی تقویت دی جائے’ تو اس کا نتیجہ ایک شجرِ طیب بنتا ہے ۔ یہ  أَفْلَحَ کہلائے گا  مَن زَكَّاهَا جس نے کہ اس کو تقویت دیا ۔ بالکل اس کے مقابلے میں ایک اور چیز آتی ہے کہ بیج تو ڈال دیا’ اور اس کے اوپر اتنا بڑا مٹی کا ڈلا ‘  ڈھیلا آگیا ۔ یہ کاشت کرنے والے جانتے ہیں’ کہ اگر اتنا بڑا مٹی کا تودہ یا ڈھیلا کسی بیج کے اوپر آجائے’ تو وہ اگ ہی نہیں سکتا ۔ اسے عربی میں ’’ الدَّسُّ‘‘ کہتے ہیں’ دَسَّاهَا بہت بڑا ڈھیلا کسی کے اوپر آجانا ۔ یہ جو ڈھیلا بیج کے اوپر آجائے’ مادی مفادات کا’ تو پھر وہ بیج کے اندر کی صلاحیت تو اسی بیج کے اندر تھی’ وہ برومند نہیں ہوتی’ اس کی نمود نہیں ہوتی ۔ آپ کو معلوم ہے کہ وہاں  أَفْلَحَ جو کہا’ اس کے مقابلے میں وہ لفظ کیا لائے ہیں!  خَابَ کا کیا لفظ ہے!  اللہ اکبر!  اس زمانے میں یہ Match Box تو ہوتی نہیں تھیں’ اور ہم نے بھی دیکھا ہے’ پہاڑی لوگ آیا کرتے تھے’ ان کے پاس چقماق کا ایک پتھر ہوتا ہے ۔ سمجھتے یہ تھے’ کہ چقماق کے اندر آگ ہوتی ہے’ اس کو دوسرے پتھر پہ ذرا سا رگڑتے تھے’ اور وہ اگرچہ شعلہ Friction  سے پیدا ہوتا تھا’ لیکن کہا یہ جاتا تھاکہ وہ چقماق کے اندر وہ آگ دبی ہوئی ہوتی ہے’ محفوظ ہوتی ہے’ مضمر ہوتی ہے’ چھپی ہوئی ہوتی ہے’ اور اس کو رگڑنے سے اس کی نمود ہوجاتی ہے ۔ ایسا پتھر ‘  ایسا چقماق کہ رگڑ سے اس کے اندر سے شعلہ نہ نکلے’ وہ اسے کہا کرتے تھے’ کہ اس کے شعلے کی نمود نہیں ہو رہی’ اس کے لیے  خَابَ کا لفظ آیا کرتا تھا ۔ صلاحیتیں تو خدا کی طرف سے ہر انسانی بچے کو ملی ہوئی ہوتی ہیں ۔ اب اس کے بعد ان صلاحیتوں کی نمود کے لیے صحیح مواقع ‘  صحیح سامانِ نشوونما ‘  صحیح تعلیم ‘  صحیح تربیت ‘  صحیح نظام ‘  اگر وہ ہوگا’ تو یہ بیج پھول اور پھل دے گا ۔ اور اگریہ چیز نہیں ہوگی’ تو اس چقماق کے اندر یہ جو شعلے مضمر ہیں’ وہ دبے کے دبے رہ جائیں گے’ ان کی نمود نہیں ہوسکے گی ۔ وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاهَا (91:10) انسانی ذات کی صلاحیتوں کی نمود نہیں ہوسکی ۔ ہر بچے کے اندر امکانات موجود ہیں’ اب ان ممکنات کو مشہود کرنے کے لیے ‘  ان Potentialities  کو  Actualize کرنے کے لیے ‘  جیسے بیج کے اندر دبی ہوئی مضمر صلاحیتوں کے لیے’ یہ خارجی اسباب کی ضرورت ہے ‘  ان اسباب کی بھی ضرورت ہے’ اور ان میں توازن کی بھی ضرورت ہے ۔ حرارت کی ضرورت ہے’ لیکن اگر تھوڑی سی حرارت کی بجائے’ وہ جو مئی جون کا تیز سورج نکلا کرتا ہے’ اور اس میں پودے جھلس کے رہ جاتے ہیں ۔ پانی کی بھی ضرورت ہے’ لیکن جب وہ اتنی زیادہ بارش ہوتی ہے’ کہ فصلیں ڈوبتی ہیں’ تو وہی پانی ان کو لے ڈوبتا ہے ۔ ہوا کی بھی ضرورت ہے’ لیکن جب وہ آندھی جھکڑ بن جاتی ہے’ تو بڑے تناور اس کے سامنے گر جاتے ہیں ۔ سامانِ نشوونما صحیح Proportion کے ساتھ مل جائے’ جنہیں خدا کے حوالے سے الاسمآء الحسنٰی کہا جاتا ہے’ اگر وہ مل جائے اس مضمر صلاحیتوں کو’ تو وہ پھر مضمر سے بارز ہوجاتی ہیں’ وہ نمود ان کی ہوجاتی ہے ۔ ساری چیز ہی یہی ہے ۔ عملِ صالحات اس نے کہا اس لیے ہے’ کہ وہ صلاحیتوں کی نمود کرنے والے کام ہوتے ہیں’ جو اس بیج کے اندر چھپی ہوئی ہوتی ہیں’ جسے ایمان کہا جاتا ہے ۔ وَخَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ (14:15) عزیزانِ من!  یہ جو  خَابَ ہے’ اب اس کی تفصیل سامنے آتی ہے ۔ عجیب و غریب چیزیں آ رہی ہیں ۔ کہا یہ کیا ہے’ جسے ہم نے کہا ہے’ کہ وہ  خَابَ ان کے ہاں کی دبی ہوئی رہ جاتی ہیں۔ پہلی ہی چیز جو میں نے ابھی عرض کیا ہے ۔ پانی کے متعلق قرآن نے کہا ہے’ کہ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ (21:30) زندگی کی نمود پانی سے ہوتی ہے ‘  پانی پہ زندگی کا دارومدار ہے ‘  انسانی زندگی نہیں’ جہاں بھی زندگی ہے’ پانی پہ دارومدار ہے ۔ یہ بھی زندہ ہیں جنہیں ہم پودے کہتے ہیں’ پانی کے اوپر ان کا مدار ہے’ لیکن اگر کسی پودے پہ کھولتا ہوا پانی ڈال دیا جائے تو’ دیکھا وہ کیا ہوجائے گا ۔ کہا  مِّن وَرَائِهِ جَهَنَّمُ (14:16)  کہا ان کے پیچھے جہنم لگا ہوا ہے ۔ یہ لفظِ  وَرَائِهِ جو ہے’ یہ پیچھے اور آگے دونوں کے لیے عربوں کے ہاں آتا ہے ۔ان کے پیچھے جہنم لگا ہوا ہے ۔ پہلی چیز اب دیکھیے گا صاحب!  اس جہنم کے اندر ۔ عزیزانِ من! یہ مقامات جو ہیں ان کو میں بڑے ضبط سے پیش کر رہا ہوں ۔ میرے جذبات میں ایک تلاطم پیدا ہو رہا ہے’ اس لیے کہ وہ جو اقبالؒ نے کہا تھا’ واعظ کے متعلق’ کہ یہ اس طرح سے جہنم کی باتیں اچھل اچھل کر کر رہا ہے’ جیسے یہ دوسرے جہنم میں ہوں’ یہ خود نہ ہو اس کے اندر ۔ جو خود جہنم میں محسوس کرتا ہے’ وہ جہنم کی بات تو بڑے ضبط سے کرسکتا ہے ۔ عزیزانِ من!  میں تو محسوس کرتا ہوں ۔ جَهَنَّمُ وَيُسْقَىٰ مِن مَّاءٍ صَدِيدٍ (14:16)   پہلی چیز یہ’ کہ کھولتا ہوا پانی جو ہے وہ ڈال دیا جاتا ہے ۔ اگا لیجیے کھیتیاں ۔ پھر؟  يَتَجَرَّعُهُ وَلَا يَكَادُ يُسِيغُهُ (14:17) وہی پانی جو ممدِ حیات تھا’ پینے کے لیے دیا جاتا ہے’ تو کیفیت یہ ہوتی ہے’ کہ یہ گھونٹ تو اسکا بھر لیتا ہے’ اس کا نگلنا قیامت ہوجاتا ہے ۔ قرآن نے دوسری جگہ جہنم کے پانی کو  مَاءً حَمِيمًا (47:15)بھی کہا ہے’ وہی کھولتا ہوا پانی ۔ پینا تو پڑتا ہے’ نگلا نہیں جاتا۔ پانی جیسی چیز بھی نگلی نہیں جاتی ۔ ذرا کھولتا ہوا پانی کسی کے منہ میں ڈال دیجیے لیکن یہ جو چیز ہے  يَتَجَرَّعُهُ پینا پڑتا ہے نگلا نہیں جاتا ۔ یہاں صرف پانی کہا ہے ۔ بات سامنے آگئی ہے ۔ کھانے کو کیا ملتا ہے؟  سامانِ نشوونما کی بات ہو رہی تھی ۔ قرآن تو تشبیہات میں سمجھاتا ہے’ محسوس تشبیہوں میں سمجھاتا ہے ۔ تَصْلَىٰ نَارًا حَامِيَةً (88:4) جہنم کے شعلے والی آگ کے اندر تُسْقَىٰ مِنْ عَيْنٍ آنِيَةٍ (88:5) پینے کے لیے اس قسم کا کھولتا ہوا پانی ۔ عزیزانِ من! سوچیے کھانے کے لیے کیا ملتا ہے؟  لَّيْسَ لَهُمْ طَعَامٌ إِلَّا مِن ضَرِيعٍ (88:6) کیا مثال ہے! سمندر کے کناروں والے جانتے ہیں کہ مدوجزر میں سمندر کی چھل جب آتی ہے ‘  اس قسم کی ناقص چیزیں ‘  کائی ‘  سڑی ہوئی چیزیں ‘  سڑے ہوئے مادے ‘  جھلسی ہوئی لکڑیاں ‘  اس قسم کی ردی چیزیں ‘  جو کسی کام کی نہیں ہوتیں’ وہ انہیں باہر کنارے کے اوپر پھینک دیتا ہے ۔ یہ چیزیں ضَرِيعٍ (88:6) ہوتی ہیں ۔ ایسی چیزیں کہ جنہیں کوئی اپنے ہاں ناکارہ سمجھ کے دوسرے کی طرف پھینک دے ۔ وہ کہتا ہے کہ جہنم وہ ہے کہ جس نظام کے اندر محتاج ہوتی ہے’ وہ قوم کھانے پینے کے لیے اور دوسری قومیں اپنے ہاں کی یہ ایسی ناکارہ چیزیں’ جو وہاں بے کار ہوتی ہیں’ بھیک کے ٹکڑوں کی طرح ان کی جھولی میں ڈال دیتی ہیں ۔ جھولی میں ڈال دیتی ہیں ۔ بھوک کا ستائی ہوئی یہ قوم لپک کے ان کو لے لیتی ہے ۔ چیختی ہے’ کہ صاحب!  اس گیہوں کے اندر تو نشوونما دینے والی چیز ہی باقی نہیں رہی ‘  پتہ نہیں کہ یہ ہم آٹا کھا رہے ہیں’ یا ہم پھک کھا رہے ہیں ۔ چیخو ۔ یہ تو کھانا پڑے گا۔ کیا چیز ہے جو وہ ملتی ہے؟  لَّا يُسْمِنُ وَلَا يُغْنِي مِن جُوعٍ (88:7)   نہ تو اس سے بھوک کی ہی تسکین ہوتی ہے’ نہ وہ جسم کو فربہ کرتی ہے ۔ پینا پڑتا ہے وہ پانی کہ اگر وہ کسی طرح سے منہ میں انڈھیل دیا جائے’ تو نگلے نہ جائے ۔ کھانے کو ملتا ہے وہ’ کہ جنہیں وہ قومیں سمندر کی چھل کی طرح پھینک دیتی ہیں’ کنارے کے اوپر’ ردی چیزیں’ جن کی کیفیت یہ ہے کہ نہ اس سے بھوک کی تسکین ہو’ نہ سامانِ نشوونما کچھ اس میں ہو ۔ یہ ہے جو ان کو ملتا ہے ۔ یہ دیا جاتا ہے اور ساتھ کچھ کہا بھی جاتا ہے ۔ کہا یہ جاتا ہے ۔ مملکت قائم ہوتی ہے ‘Sovereign State ہوتی ہے ‘  دوسری مملکتوں کے مقابلے میں سرفرازی بھی ملتی ہے ۔ آہستہ آہستہ یہیں چار آیتیں پہلے کہہ دیا تھا’ کہ انہوں نے اپنی قوم کو اس منڈی میں جا کے اتار دیا’ کہ جہاں اس جنسِ کاسد کا کوئی پوچھنے والا نہیں ‘  کوئی بات پوچھنے والا نہیں ‘  کوئی خریدار نہیں تھا اس جنسِ کاسد کا ۔ یہاں تک لے آئے وہاں اس کو ۔ یوں پھر بھیک مانگنے سے یہ چیزیں جو تھیں ملیں ۔ اور ملنے کے بعد کہا گیا’ ان سے کہ ذُقْ (44:49)  کھاؤ ان کو ‘  چکھو ان کو ۔ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْكَرِيمُ (44:49) بہت بڑا پھنے خاں بنا پھرتا تھا تُو اب کھا اس کو ۔ إِنَّكَ أَنتَ عزیزانِ من! عربی جاننے والے جانتے ہیں کہ زور کتنا ان کے اندر اور پھر الْعَزِيزُ اور الْكَرِيمُ ۔ تُو سمجھ رہا تھا کہ صاحب!  کوئی ہے ہی نہیں ہمارے مقابلے کے اندر ۔ یہ قوتیں ہماری ‘  یہ بخشائشیں ہماری ‘  خزانے کو لٹاتے چلے جا رہے ہیں ‘  اقتدار کی سرمستیوں کے اندر ۔ ذُقْ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْكَرِيمُ (44:49)  کھا اب ۔ وہ پینے کو ‘ یہ کھانے کو ۔ جی میں یہ ہوگا کہ اس زندگی سے تو موت بہتر ہے ۔ کہا کیا کہہ رہے ہو!  وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِن كُلِّ مَكَانٍ وَمَا هُوَ بِمَيِّتٍ (14:17) چاروں طرف سے موت یورش کرکے آتی دکھائی دے گی لیکن اس کم بخت کو موت بھی تو نہیں آئے گی ‘  یہ مرے گا بھی نہیں ۔ جی چاہے گا کہ موت ہی آجائے تو اس عذاب سے چھٹکارا ہوجائے ۔ عزیزانِ من!  کیا نقشہ ہے یہ جو کھینچا ہوا ہے!  وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِن كُلِّ مَكَانٍ(14:17) ہر طرف سے موت آتی دکھائی دے گی ۔ خوف ‘  حزن کے چھلاوے ہر طرف سے آتے دکھائی دیں گے ۔ ادھر کا ڈر ‘  اُدھر کا ڈر ‘  اندر کا ڈر ‘  باہر کا ڈر ‘  خوف ‘  موت’ ہر طرف سے موت ۔ چلیے!  موت ہی آجائے’ عذاب سے تو چھوٹ گئے ۔ وَمَا هُوَ بِمَيِّتٍ (14:17)   موت بھی نہیں آئے گی ۔


مرتا ہوں آرزو میں مرنے کی


موت آتی ہے پر نہیں آتی


عزیزانِ من!  میں نے جو کہا تھا’ کہ یہ اسی دنیا میں اس قوم کا نقشہ ہے’ جو قوانینِ خداوندی سے انحراف کرکے ذلت اور مسکنت کے اس مقام کے اوپر پہنچ جائے’ کہ وہ اپنی زیست کے لیے بھی دوسری قوموں کی محتاج ہوجائے ۔ تو یہ نقشہ اس قوم کا کھینچنے کے بعد’ یہ کہا کہ  وَمِن وَرَائِهِ عَذَابٌ غَلِيظٌ (14:17)  یہ تو یہاں کا جہنم جو ہے’ یہ یہ چیز بھی ہے’ یہ جو تم کہتے ہو’ کہ مر جاؤں مر کے کہاں جاسکتے ہو’ یہ جہنم پیچھے لگا ہوا ہے’ وہاں تک بھی تمہارا پیچھا کرے گا  وَمِن وَرَائِهِ عَذَابٌ غَلِيظٌ (14:17) اس سے زیادہ سنگین ‘  سخت عذاب ہے ۔ دوسری جگہ اس نے کہا ہوا ہے وَمَا هُوَ بِمَيِّتٍ (14:17) جو ہے اس کی جگہ یہ ہے’  لَا يَمُوتُ فِيهَا وَلَا يَحْيَىٰ (20:74) عزیزانِ من! سمجھ میں نہیں آتا کن الفاظ میں اس کا میں ترجمہ کروں ۔ اس کے اندر وہ نہ مرتا ہے’ نہ جیتا ہے یعنی کیا کہیں اس کیفیت کو ۔ دو ہی کیفیتیں ہمارے سامنے ہیں’ یا زندہ ہوتا ہے’ یا وہ مردہ ہوتا ہے ۔ عزیزانِ من!  یہ کیفیت ہے’ ذلت اور پستی کی زندگی جینے والی قوم کی’ کہ نہ وہ جیتی ہے’ نہ وہ مرتی ہے ۔ لَا يَمُوتُ فِيهَا وَلَا يَحْيَىٰ (20:74) سوال پیدا ہوا کہ صاحب!  بہرحال کچھ تو اچھے کام اس قوم نے کیے ہی تھے’ ان کا کیا ہوا؟  کہنے لگے  ’’اچھے کام کیے تھے ‘‘  کہہ رہے ہو ۔ ٹھیک ہے مَّثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ ۖ أَعْمَالُهُمْ كَرَمَادٍ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيحُ فِي يَوْمٍ عَاصِفٍ (14:18)  اچھے کام کیے تھے ‘  تھوڑی سی راکھ تھی ‘  جسے دھول کہتے ہیں آنکھوں میں ڈال دینے والی’ وہ راکھ تھی تھوڑی سی اوپر پڑی ہوئی ۔ عام حالات کے اندر تو وہ ٹھیک ہے’ اس کا وجود نظر آتا تھا’ لیکن جب زمانے کے تقاضوں کے جھکڑ چلے ہیں’ تو پہلے ہی جھکڑ کے اندر اڑ کے وہ گئی’ وہاں کچھ بھی نہ رہا ۔ ایک تو کم بخت راکھ ویسے ہی مٹی سے بھی ہلکی ہوتی ہے’ پھر وہ بھی زیادہ دبیز نہ ہو’ یونہی اوپر اوپر بکھیری ہوئی ہو ۔ جسے میں نے کہا تھا’ آنکھوں میں دھول ڈالنا جسے ہم کہتے ہیں ۔ پھر کیفیت یہ ہے’ ٹھیک ہے’ معمول کے مطابق حالات رہیں تو چلیے راکھ ہی سہی’ کچھ تو وہ باقی نشان اس کا ہوتا ہے’ لیکن  بِهِ الرِّيحُ فِي يَوْمٍ عَاصِفٍ (14:18) جب زمانے کے تقاضوں کا جھکڑ چلے’ اس جھکڑ میں اس قسم کی راکھ کی تہ باقی رہ سکتی ہے؟  لَّا يَقْدِرُونَ مِمَّا كَسَبُوا عَلَىٰ شَيْءٍ (14:18)  جو کچھ یہ کرتے رہے’ اس سے کسی چیز پہ ان کا اقتدار ہی باقی نہ رہا ۔ نہ باگ ہاتھ میں ہے’ نہ پا ہے رکاب میں ۔ ہر چیز ہاتھ سے نکلتی چلی جا رہی ہے ‘  Out of Controlہوتی چلی جا رہی ہے ۔ ذَٰلِكَ هُوَ الضَّلَالُ الْبَعِيدُ (14:18) الضَّلَالُ ہی کچھ کم بات نہیں تھی’ یہ تھا بے نتیجگی کا عالم ۔ الضَّلَالُ کے معنی ہیں کسی چیز کا بے نتیجہ رہ جانا ۔ ایسا بے نتیجہ کہ وہ دور تک بات چلی گئی’ یہ بھی نہیں ہوا’ کہ ذرا سا وہاں پڑا ہوا’ چلو کچھ اٹھا کے لے آئیے ‘  نہیں!  بہت دور اڑا کے وہ لے گئی ۔ کہا کہ کیا یہ خدا کا نظام ایسا ہی ہے’ تباہیاں شباہیاں لانے والا ۔ کہنے لگے نہیں!  خدا کا نظام  أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّـهَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ (14:19) یہ کیوں ہے ایسا؟ اس لیے کہ یہ نظامِ کائنات الْحَقّ کے اوپر مبنی ہے ۔ اور الْحَقّ کے معنی یہ ہیں’ کہ جہاں کہیں بھی کوئی باطل ہوگا’ وہ باطل کو جڑ سے اکھیڑ دے گا’ اور خود مستحکم ہوگا ۔ کائنات کا نظام الْحَقّ کے اوپر چلتا ہے ۔ اسی طرح سے یہ انسانی زندگی کا نظام جو ہے’ اگر الْحَقّ کے اوپر مبنی ہے’ اس میں یہ صلاحیت اور سکت ہوتی ہے’ کہ زمانے کے تھپیڑوں کا مقابلہ کرسکے ۔ اگر وہ الْحَقّ کے اوپر مبنی نہیں ہے’ تو پھر اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے ۔ تو الْحَقّ پہ مبنی نظام کرتا کیا ہے؟  قرآن نے کہا ہے’ کہ یہ یہاں تو حق اور باطل کی باہمی کشمکش ‘  باہمی تصادم جو ہے’ وہ چلا جا رہا ہے ۔ حق باطل کے اوپر ٹکریں مارتا چلا جاتا ہے’ تآنکہ باطل کا بھیجہ توڑ کے رکھ دیتا ہے ۔ اس لیے جو قوم بھی الْحَقّ کا نظام چھوڑ کر باطل کے اوپر آئے گی’ تو اس کے بعد خدا کا قانون وہ ابھی ابھی ہم نے پہلے دیکھا ہے’ قانونِ محو و ثبات جسے کہا تھا  يَمْحُو اللَّـهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ (13:39) خدا کا قانونِ مشیت’ انہیں کہ جن میں رہنے کی صلاحیت نہیں ہوتی ہے’ ان کو محو کر دیتا ہے ۔ وہ جو Fittest ثابت ہوتے ہیں’ زمانے کے تقاضوں کے مقابلے میں ان کو ثبات نصیب ہوجاتا ہے ۔ Fittestوہی ثابت ہوتے ہیں’ کہ جن کے اعمال اعمالِ صالح ہوتے ہیں ۔ انہیں تثبیت ہوتی ہے’ اثبات ہوتا ہے’ وہ باقی رہتے ہیں’ Supervise کرتے ہیں’ آگے بڑھتے ہیں ۔ جن میں اس کی صلاحیت نہیں رہتی ہے’  يَمْحُو اللَّـهُ (13:39) وہ خدا کے قانون کے مطابق مٹا دیے جاتے ہیں ۔ بات دور نکل جائے گی’ ورنہ میں یہ بتاتا کہ یہ ہمارا خود کرۂ ارض’ جن جن ارتقائی مراحل سے گزرا ہے’ اس کے اوپر یکے بعد دیگرے مختلف قسم کی انواع (Species) آئیں ۔ وہ نباتاتی دنیا کے اندر تھیں’ یا حیواناتی دنیا کے اندر تھیں’ جن میں باقی رہنے کی صلاحیت تھی’ آگے بڑھنے کی صلاحیت تھی’ وہ باقی رہیں اور آگے بڑھیں’ جنہوں نے یہ صلاحیت کھو دی’ وہ مٹ گئیں ۔ ان کے بڑے بڑے ڈھانچے تو آپ نے سینما کی فلموں میں دیکھے ہونگے’ آج ان کا وجود تک اس کرۂ ارض کے اوپر باقی نہیں ہے ۔


      یہ ہے قانونِ محو و ثبات ‘  یہ ہے قانون الْحَقّ کا ۔ تو قرآن نے کہا ہے کہ تم نے دیکھا نہیں ہے’ کہ کائنات کا نظام الْحَقّ پہ چل رہا ہے ۔ نتیجہ اس کا؟ إِن يَشَأْ يُذْهِبْكُمْ وَيَأْتِ بِخَلْقٍ جَدِيدٍ (14:19) اس کے قانونِ مشیت کی رو سے اگر کسی قوم میں یہ صلاحیت نہیں رہتی ہے’ وہ اس قوم کو ختم کر دیتا ہے’ تباہ کر دیتا ہے’ اور اس کی جگہ ایک نئی تخلیق آجاتی ہے ۔ تخلیق ‘  نئی قوم کے معنوں میں بھی آئے گا’ اور کسی مقام پہ یہی بھی ہے’ کہ اگر نوعِ انسانی پوری کی پوری بھی ایسی ہوجائے’ کہ ان میں Survive کرنے کی صلاحیت نہ رہے’ اس کی جگہ ایک دوسری نوع آسکتی ہے ۔ لیکن یہاں قوموں کے استبدال اور استخلاف کی بات آ رہی ہے’ Law of succession of nation یہاں ہو رہا ہے ۔ اس کے لیے قرآنِ کریم کے دو ایک مقامات میں سامنے لاتا ہوں’ کہ قرآن نے کیا کہا ہے’ کہ قومیں کیسے بدل جاتی ہیں ‘  ایک قوم کی جگہ دوسری قوم کیسے لے لیتی ہے ۔ خود قرآن کی مخاطب قوم کو مخاطب کرکے یہ کہا گیا ہے ۔ قوموں کی زندگی کے لیے پہلی چیز یہ ہے’ کہ اگر نظام کو ضرورت پڑتی ہے’ تو وہی اصول جوہے’ قُلِ الْعَفْوَ (2:219) اپنی اپنی ضرورت کے مطابق رکھ کے فاضلہ سرمایہ ‘  فاضلہ دولت ‘ضرورت سے زائد جو کچھ ہے وہ سارا’ اس اجتماعی فلاح اور بہبود اور مدافعت اور تحفظ کے لیے’ وہ سارے کا سارا کھلا رکھنا ہوتا ہے ۔ پہلی چیز اس کے لیے یہ ہے ۔ دو ہی مقام ہوتے ہیں’ یا تو مال کا انفاق’ یا اس کا اگلا مقام ہوتا ہے’ جان دینے کا وقت بھی آجاتا ہے ۔ پہلے مقام کے اوپر کہا کہ  هَا أَنتُمْ هَـٰؤُلَاءِ تُدْعَوْنَ لِتُنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ (47:38) تم وہ ہو کہ آواز دی جاتی ہے’ کہ تمہاری ضرورت آ پڑی ہے’ اجتماعی زندگی کے تحفظ کے لیے ‘  حق کا نظام قائم کرنے کے لیے’ کہ تم کھلا رکھو’ جو کچھ تمہارے پاس ہے ۔ فَمِنكُم مَّن يَبْخَلُ (47:48)  کچھ تم میں سے وہ لوگ ہوجاتے ہیں’ کہ جو یہ کہتے ہیں کہ اپنی ہی ذات کے لیے رکھا جائے یہ سب کچھ ‘  اس کو کھلا نہ رکھا جائے’ باندھ باندھ کے رکھا جائے ۔ جب قوم میں یہ کیفیت پیدا ہوجائے’ کہ اجتماعی ضرورت کے اوپر’ اپنے ذاتی مفاد کو ترجیح دینے لگ جائیں’ تو کہا  وَمَن يَبْخَلْ فَإِنَّمَا يَبْخَلُ عَن نَّفْسِهِ (47:48) کیا بات ہے صاحب! یہ سمجھتا یہ ہے کہ میں نے ایسا کرنے سے اپنے آپ کو محفوظ کرلیا ہے’ دوسروں کو میں نے محروم کیا ہے اس چیز سے ۔ کم بخت یہ جانتا نہیں کہ یہ کرنے سے اپنے آپ کو بھی اس نے محروم کرلیا ہے ۔ ابھی یہ جائے گا’ یہ جسے سمجھ رہا ہے’ کہ اس کو میں نے اپنے لیے محفوظ کرلیا ہے ۔ دوسروں سے بخل کیا کر رہا ہے’ اپنی جان سے بخل کر رہا ہے’ اپنے آپ سے بخل کر رہا ہے’ یہ تو اس کے ہاتھ سے جائے گا ۔ کیوں؟ وَاللَّـهُ الْغَنِيُّ وَأَنتُمُ الْفُقَرَاءُ (47:48)  یہ بات نہیں ہے کہ خدا مانگ رہا ہے’ اس کے پاس ( معاذاللہ)  کھانے کو کچھ نہیں رہا ‘  دیدو اللہ واسطے کا ۔ وہ سب اس کے لیے مانگتے ہیں’ وہ کہتا ہے کہ وہ تو الْغَنِيُّ واقع ہوا ہے’ بے نیاز واقع ہوا ہے’ محتاج تو تم واقع ہوئے ہو ۔ وَإِن تَتَوَلَّوْا (47:48) یاد رکھو! اگر اس مقام پہ تم نے گریز کی راہیں اختیار کیں’ یہ نہ کیا کہ جو بھی اجتماعی ضرورت کے لیے ہے’ سارے کا سارا اپنی ضرورت سے زائد جو کچھ بھی بچتا ہے’ یہ نہ کیا’  تَتَوَلَّوْا گریز کی راہیں اختیار کیں ۔ گریز کی راہیں تو بڑی ہوتی ہیں ‘  بڑی بڑی مقدس راہیں ہوتی ہیں ۔ یہ چالیس فیصد گریز کی راہ نہیں تو اور کیا ہے ۔ اگر تم نے گریز کی راہیں اختیار کیں’ کہ صاحب !  نظام جو ہے’ وہ تو جب تک اس میں Incentive   نہ ہو’ کام چل نہیں سکتا’ نہ کوئی انڈسٹری چل سکتی ہے’ نہ کوئی تجارت چل سکتی ہے ۔ Privative Incentive , Personal Incentive ۔ یہ بھی گریز کی راہ ہے ۔ حق کے نظام کے قیام کی خاطر پورے کا پورا دے دیجیے’ اس کے لیے جب ضرورت پڑے ۔ وَإِن تَتَوَلَّوْا (47:48) اگر اس سے گریز کیا’ تو عزیزانِ من!  دیکھیے اس کا نتیجہ کیا ہے  يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ (47:48) تو وہ تمہاری جگہ ایک دوسری قوم کو لے آئے گا ۔ تو کیا وہ پھر یہی ہوگا’ کہ یہ  ’’اک چول وچوں گئی تے دوئے چول آگئے ۔ اے چول دا ترجمہ وی نئیں ہوسکدا’ اے تے واہ پئے تے پتہ لگدا اے چول کنوں کیندے نیں ‘‘ ۔ یہ بڑی عجیب چیز ہے!  استبدال میں ‘  جیسا یہ ہے اگر اسی قسم کی وہ اور قوم آجائے’ تو یہ بات کیا ہوئی ۔ جب باطل کے ہاتھوں کوئی نظام الٹتا ہے’ تو اس میں جس قسم کے یہ ہوتے ہیں’ اسی قسم کے وہ آجاتے ہیں’ بلکہ ان سے بھی زیادہ چول ۔ یہ بھی ایک چیز ہے ۔ نام اس کا بھی انہوں نے انقلاب ہی رکھ دیا ہوا ہے’ وہ فساد ہوتا ہے ۔ اس قسم کے جو آجاتے ہیں’ ان کی کیفیت یہی ہوتی ہے’ یا اس سے بدتر’ یا بہرحال انہی جیسے وہ آجاتے ہیں ۔ قرآن کہتا ہے’ کہ ہم جب استبدال کرتے ہیں’ تو ہمارا قانون بالحق جو ہے اس کی جگہ  يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ (47:48) تمہاری جگہ دوسری قوم لے آئے گا  ثُمَّ لَا يَكُونُوا أَمْثَالَكُم (47:48) ’’ او تہاڈے جئے نئیں ہووے گی فیر ‘‘  وہ تو بہتر لائے گا۔ اس کا قانونِ محو و ثبات تو یہ کرے گا’ کہ جو اس سے بہتر قوم ہے’ اس کو وہ لائے گا ۔ یعنی ہمارا مقصد صرف بدل دینا ہی نہیں ہے’ کہ تمہیں بدلا تمہاری جگہ تمہارے ہی جیسے کوئی اور لے آیا ۔ یہاں تو نظاموں کے اندر اشخاص کی بھی جتنی اس قسم کی تبدیلیاں ہوتی ہیں’ ان کی بھی صورت یہی ہوتی ہے’ کہ ایک کو بدل کے جو لاتے ہیں’ تو وہ بہرحال یا تو اس سے بدتر ہوتا ہے’ یا کم از کم اس جیسا ہی ہوتا ہے ۔ بہتری جو ہے’ کہ غلط کی جگہ صحیح آجائے’ تو یہ تو نظامِ خداوندی میں ہی ہوسکتا ہے ۔ ثُمَّ لَا يَكُونُوا أَمْثَالَكُم (47:48) وہ پھر تمہارے جیسی نہیں ہونگی ۔ عزیزانِ من!  یہ تو مال کے متعلق ہے’ کہ جو کچھ کمایا ہوا ہے’ اس کے دینے کا وقت آئے’ تو اس وقت یہ کیفیت ہو ۔ اور اگلا وقت وہ آگیا يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ ۚ أَرَضِيتُم بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنَ الْآخِرَةِ ۚ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا قَلِيلٌ (9:38) حق کی مدافعت کے لیے میدانِ جنگ میں نکلنا پڑے تو اس وقت تمہیں لبیک کہتے ہوئے بھاگ کر جانا چاہیے اس طرف ۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے’ کہ وہاں تمہاری اپنی ذاتی منفعت تمہارے پاؤں کو پکڑ کے بیٹھ جائے اور تم آگے نہ بڑھو ۔ اس کے لیے لپک کے جاؤ ۔ إِلَّا تَنفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا (9:39) اگر تم نہ نکلو گے اس جہاد کے لیے  يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا اس قسم کی سزا میں مبتلا ہوجاؤ گے’ جو بڑی الم انگیز ہوگی ‘  بڑی دردناک سزا ۔ عزیزانِ من!  کسی قوم کی غلامی اور محکومی میں آجانا’ اس سے زیادہ عَذَابًا أَلِيمًا کیا ہوگا ۔ کیا لفظ یہاں لایا ہے صاحب!  بڑا الم انگیز عذاب ہوگا ۔ کیا عذاب ہوگا وہ الم انگیز؟ يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ (9:39) تمہاری جگہ ایک دوسری قوم آجائے گی ۔ وَلَا تَضُرُّوهُ شَيْئًا (9:39) خدا کا تم کچھ نہیں بگاڑ سکتے ۔ یہ کیوں ایسا ہے  وَاللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (9:39) اس نے تو پیمانے مقرر کر رکھے ہوئے ہیں’ محو و ثبات کے ۔ یہ دوسرا ریفرنس تھا’ استبدالِ قومی کے متعلق ۔ پہلا ہے انفاق کے مقابلے میں’ اپنی ذات کے لیے سب کچھ سمیٹ کے رکھتے چلے جانا ۔ دوسرا ہے جب اس کے لیے جان دینے کا وقت آئے’ تو اس وقت گریز کی راہیں نکالنا’ اور اس وقت پیچھے ہٹ کے بیٹھ جانا’ لبیک کر کے نہیں جانا ۔ یہاں یہی چیز کہی تھی کہ إِن يَشَأْ يُذْهِبْكُمْ وَيَأْتِ بِخَلْقٍ جَدِيدٍ (14:19) اس کا قانون یہ ہے’ کہ جو قوم بھی اس قسم کی روش اختیار کرتی ہے’ اسے مٹا دیا جاتا ہے’ اور اس کی جگہ دوسری قوم آجاتی ہے ۔ وَمَا ذَٰلِكَ عَلَى اللَّـهِ بِعَزِيزٍ (14:20) تمہیں شاید یہ مشکل نظر آتا ہو’ کہ صاحب!  اتنی بڑی مملکت کی اتنی بڑی قوم ‘  اتنا بڑا ساز و یراق ان کے پاس’ اور فوجیں بھی ہیں’ اسلحے بھی ہیں ‘  کیا کہہ رہے ہیں کہ یہ یونہی مٹ جائے گی’ اور اس کی جگہ دوسری آجائے گی ۔ کہا کہ تمہارے نزدیک یہ چیز بڑی مشکل نظر آئے گی’ ہمارے قانونِ مکافات کے نزدیک یہ کچھ بھی مشکل نہیں ہے ۔ عزیزانِ من! قانون کی قوت بہت بڑی قوت ہوتی ہے ۔ کچھ مشکل نہیں ہے ۔ دیکھیے!  محاکاتی نقشہ کھینچا جا رہا ہے ‘  جہنم کا نقشہ کھینچا جا رہا ہے ‘  قیامتِ موجود کا نقشہ ہے ۔


سخن ز نامہ و میزاں دراز تر گفتی


ہزار ہیف نہ بینی قیامتِ موجود


اے واعظ! حشر کے میدان کی میزان ‘  وہاں کا نامۂ اعمال ‘  وہاں کا وہ سارا حساب کتاب ‘  کہا اس کی بڑی لمبی چوڑی باتیں تو کر رہا ہے ‘  یہ قیامتِ موجود جس کے اندر تو کھڑا ہے’ کبھی اس کے متعلق بھی تو کچھ کہہ ۔ یہ قیامتِ موجود تھی ۔ جہنم کی بات کر رہا ہے’ آپ دیکھیے کہ کیفیت کیا ہو رہی ہے ۔ قوموں کے اندر ایک تو عوام ہوتے ہیں’ محکوم ہوتے ہیں’ دوسرے ان کے ہاں کے یہ لیڈر ہوتے ہیں ۔ یہ غلط نظام کی باتیں ہو رہی ہیں’ کہ جہاں عوام جو ہیں وہ کمزور ہوتے ہیں’ اور صاحبِ اقتدار ہی صاحبِ قوت ہوتے ہیں ۔ حق کے نظام میں تو یہ بات ہوتی ہی نہیں ہے ۔ یہ باطل کے نظام کی بات ہے ۔ دیکھیے!  ایک لفظ میں قرآن کیسے کہہ گیا ہے’  وَبَرَزُوا لِلَّـهِ جَمِيعًا (14:21)  کہا کہ جب یہ پھر تبدیلی آتی ہے’ اس قسم کی’ کہ وہ جہنم گھیرتا ہے ان کو’ تو وہ جو اس سے پیشتر بڑے محفوظ مقامات میں اپنے آپ کو سمجھتے تھے’ ان کو بھی نکھر اور ابھر کر بارز طریقے سے سامنے آجانا پڑتا ہے ۔ اس سے پہلے اپنے ہاں کے الضُّعَفَاءُ سے چھپے رہتے تھے’ دور دور رہتے تھے’ انہیں پتہ نہیں لگنے دیتے تھے’ کہ یہ محلات کی سیاست ہوتی کیا ہے ۔ برزوا للہ جمیعًا (14:21) ایسے میں پھر یہ بات نہیں ہوتی ‘  وہ سب کے سب ابھر کر سامنے آتے ہیں ۔ فَقَالَ الضُّعَفَاءُ لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا (14:21) وہاں پھر یہ عوام پوچھتے ہیں ان بڑے بڑوں سے ۔ لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا (14:21) استکبار ‘  بڑی خواہش سے آرزو سے بڑائی کو چاہنا’ بڑا بننے کو چاہنا ۔ یہ جو اقتدار کی ہوس میں بڑے بنے ہوئے تھے’ ان سے  الضُّعَفَاءُ نے کہا’ جن کو یہ کمزور کرتے چلے جا رہے تھے ۔ میں نے کہا باطل کے نظام کی بات ہے ۔ دو لفظوں میں بات بتا دی’ کہ انہیں وہ کمزور کرتے تھے’ اور خود ہوسِ اقتدار میں بڑے بنتے چلے جاتے تھے ۔ کیا بات ہے اسْتَكْبَرُوا (14:21) کی ۔ وہ ان سے کہیں گے’ کہ او مصیبت چاروں طرف سے آگئی’ عذاب نے گھیر لیا  إِنَّا كُنَّا لَكُمْ تَبَعًا فَهَلْ أَنتُم مُّغْنُونَ عَنَّا مِنْ عَذَابِ اللَّـهِ مِن شَيْءٍ (14:21) وہ کہتے تھے ہم تمہارے کہنے پہ چلتے تھے’ جو کچھ تم کہتے تھے ہم اطاعت کرتے چلے جاتے تھے ۔ تم تو کہہ رہے تھے’ کہ ہم تمہیں نجات کی طرف لیے جا رہے ہیں’ آپ دیکھیے کہ کس طرح مملکت پروگریس ہو رہی ہے’ اور کس قدر تمہیں یہ چیزیں حاصل ہیں’ وہ چیزیں حاصل ہیں ۔ ہم تو جو کچھ تم کہتے تھے کرتے چلے جاتے تھے ۔ اب جو اس طرح سے عذاب نے چاروں طرف سے ہمیں گھیر لیا ہے’ تو اس سے نکلنے کا کوئی راستہ بتاؤ کوئی مدد کرو ۔ ہم تو تمہارے پیچھے لگے ہوئے تھے’ ہم تو خود نہیں کچھ جانتے تھے’ آج بھی ہم نہیں جانتے’ کچھ کرو ۔ تم تو یہ کہا کرتے تھے اور وہ کچھ کہا کرتے تھے ۔ عزیزانِ من! قرآنِ کریم میں بہت سے مقامات ہیں جہاں جہنم کے اندر عوام کے اور ان کے لیڈروں کے باہمی مکالمات آئے ہیں’ اور بڑی ہی اہم چیزیں ہیں’ یعنی جس وقت آ کر کوئی مصیبت گھیر لیتی ہے’ کسی ملک اور مملکت کو ۔ اس میں بتایا گیا ہے’ کہ جہنم تو وہاں ان کو گھیرتا ہے’ لیکن اس وقت یہ وہاں کے عوام جو ہیں وہ اٹھتے ہیں’ پھر ان کے خلاف اور گریبان سے پکڑ لیتے ہیں’ اور وہاں یہ ان سے پوچھتے ہیں ۔ یہ ہیں وہ مکالمات جو میں نے عرض کیا ہے ۔ یہ قرآنِ کریم میں مختلف مقامات پر بکھرے ہوئے آئیں گے ۔ ’’مفہوم القرآن‘‘  میں میں نے ریفرنسز دی ہوئی ہیں’ اور اگر اور تفصیل چاہتے ہوں تو  ’’جہانِ فردا‘‘  میں میں نے جہنم کا ذکر کیا ہے’ وہاں یہ مکالمات سارے دیے ہوئے ہیں ۔ بڑے عبرت انگیز اورموعظت فروش ہیں ۔ اس میں دیکھیے گا قرآن نے مختلف مقامات پہ عوام اور لیڈروں کی گفتگو جہنم کے اندر ۔ وہاں وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ بھئی!  ہم تو تمہارے پیچھے چلا کرتے تھے’ تم کہتے تھے ہم تمہیں فلاح اور بہبود کی طرف لیے چلے جا رہے ہیں ۔ عذاب نے گھیر لیا’ خدا کے لیے اب اس عذاب سے نکلنے کا کچھ راستہ بتاؤ ۔ قَالُوا لَوْ هَدَانَا اللَّـهُ لَهَدَيْنَاكُمْ (14:21) وہ کہیں گے کہ اگر ہمیں کوئی راستہ نکلنے کا نظر آتا’ تو ہم تمہیں بھی بتاتے ۔ ہمیں ہی کوئی راہ نظر نہیں آتی’ تو اب ہمیں تمہیں کیا بتائیں’ کسی راستے کا ۔ ’’او کہندے ہون گے دھر فٹے منہ تہاڈا‘‘ ۔ پھر؟ سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا مَا لَنَا مِن مَّحِيصٍ (14:21)  کہنے لگے اب چیخنے چلانے سے کچھ فائدہ نہیں ہے’ اسے استقامت سے برداشت کرلو’ اس کے خلاف واویلا مچاؤ چھوڑ سکتے نہیں ہیں’ اس وقت اگر تم چاہو’ کہ اس کو چھوڑو’ یا اس کے اوپر جمے رہو’  سَوَاءٌ عَلَيْنَا (14:21) یہ ہم سب کے لیے برابر ہے تمہارے لیے بھی’ ہمارے لیے بھی’ یہ برابر ہے مَا لَنَا مِن مَّحِيصٍ (14:21) یہاں سے تو نہ تم نکل سکتے ہو’ نہ ہم نکل سکتے ہیں ۔ نہ تیرا منزلد باشد نہ میرا ۔ دونوں ہی جہنم میں ۔ دوسرے مقام پہ ایک چیز قرآن نے یہ کہی ہے ۔ لوگوں کو خیال پیدا ہوگا’ کہ یہ بے چارے جو پیچھے لگنے والے Followers تھے’ تو یہ تو کوئی سچے ہی تھے’ جو ان سے کہہ رہے تھے’ کہ ہم نے خود تو یہ کچھ کیا نہیں تھا’ ہم تو تمہارے کہنے پہ چلتے جاتے تھے ۔ وہ یہ کہیں گے خدا سے’ کہ یہ ٹھیک ہے’ انہیں تو جو کچھ ہو رہا ہے ٹھیک ہو رہا ہے’ اور چار جوتے ان کے لگنے چاہئیں’ لیکن ہم نے تو کچھ نہیں کیا تھا ۔ بظاہر منطق کی رو سے’ یہ سوال ذہن میں آتا ہے ۔ جواب ملتا ہے’ کہ ذرا یہ بتائیے’ یہ تو تمہارے ہی جیسے انسان تھے’ ان کے پاس قوت کونسی تھی؟  یہ ساری قوت تمہاری تو دی ہوئی تھی’ جس کی وجہ سے یہ سب کچھ کر رہے تھے ۔ اگر یہ اس قوت کے غلط استعمال سے مجرم ہیں تم انہیں قوت دینے کی وجہ سے مجرم ہو اس لیے دونوں کے اوپر عذاب ہے ۔ او میرے اللہ ۔


تمہیں تو تُو کے سوا کوئی کچھ نہ کہتا تھا


جناب ہم نے بنایا حضور ہم نے کیا


اب بھگتو صاحب ۔ وَقَالَ الشَّيْطَانُ لَمَّا قُضِيَ الْأَمْرُ (14:22) وہ جس کو  الشَّيْطَانُ کہتا ہے ‘  یہ مفاد پرستیاں ‘  ذاتی منفعت پرستیاں ‘  انسان کے سرکش جذبات جو تھے’  لَمَّا قُضِيَ الْأَمْرُ (14:22) جب یہ معاملہ یوں طے ہوگا’ سب جہنم کے اندر’ وہاں بیٹھ کے یہ بات ذہن میں آئے گی’ وہ کہے گا کہ  إِنَّ اللَّـهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدتُّكُمْ فَأَخْلَفْتُكُمْ (14:22) ایک وعدہ خدا نے بھی تم سے کیا تھا’ کہ اگر تم نے ان قوانین کا اتباع نہ کیا’ تو تباہ ہوجاؤ گے ۔ وہ تم نے دیکھ لیا ۔ میں نے بھی تم سے یہ کہا تھا’ کہ اگر تم میرے پیچھے پیچھے چلو گے’ میری مانتے چلے جاؤ گے’ تو بڑا فلاح و بہبود ہوگا ۔ راوی عیش ہی لکھتا ہے ۔ اور تم نے دیکھ لیا کہ میں نے جو کچھ کہا تھا وہ واقعی بڑا غلط تھا ۔ وہ وعدہ خلافی جسے کہتے ہیں’ وہ وعدہ خلافی میں نے کی ۔ تو کہا جائے گا یہ بات کہ پھر تم ہی مجرم ہو’ ہمیں یہ عذاب کیوں ۔ عزیزانِ من!  جواب سنیے اور یہ بہت بڑی چیز ہے’ جو قرآن کہہ گیا ہے ۔ تمہید کے طور پر میں عرض کردوں ۔ Christianity میں عیسائیت نے یہ کہا’ کہ ہر انسانی بچہ پیدائش کے اعتبار سے گنہگار پیدا ہوتا ہے’ اپنے اولیں ماں باپ کے گناہ کا بوجھ اپنی پیٹھ پہ لیے ہوئے آتا ہے’ یعنی اس کا اختیار کچھ نہیں تھا’ بلا اختیار ‘  وہ بلا اختیار پیدا ہوا’ اور جو پیدا ہوا ہے’ تو ساتھ وہ اس گناہ کی آلائش لیے ہوئے ۔ بہت اچھا جی!  پہلی چیز تو مجبور کی یا جبر کی ہوگئی ۔ یہاں آنے کے بعد ہی کچھ مواقع اس کو ہوتے’ کہ اس آلائش کو دھو ڈالتا ۔ کہا کہ نہیں!  اب جو جی میں آئے یہ کردے’ وہ دھل ہی نہیں سکتی ۔ یعنی جبر ہی جبر ہے ۔ تو پھر کس طرح سے چھوٹے؟  یہاں سے تو مایوسیاں چھا جانی تھیں ۔ اب انہوں نے عقیدہ یہ کیا کہ صاحب!  پھر اس کے لیے بقول ان کے یہ چیز’ کہ جب اللہ میاں نے یہ دیکھا کہ صاحب!  یہ کیا ہوا’ کہ جو انسان آتا ہے’ اس کی کیفیت یہی’ کہ گناہوں کا بوجھ پیٹھ پہ لادے ہوئے’ تو یہ ساری دنیا میں تو یہ گنہگار ہی آگئے۔ تو وہ جو میں نے جنت بنا رکھی ہے  ’’او کنوں کرائے تے دیاں گا‘‘ ۔ عزیزانِ من!  اندازہ لگائیے کہ یہ کیا مذاہب ہیں ۔ خود اس کو کچھ پچھتاوا ہوا’ تو ہم نے کہا پچھتاوا ہوا تھا’ تو اس کے بعد ہی یہ سلسلہ بند کردے’ کہ جتنا ہوگیا ہے’ وہ ہوگیا ہے ۔ کیا کیا جائے؟  ’’ ہن سوچ رہیا اے بیٹھا ہویا‘‘ ۔ معاف رکھیے گا میں ان کا عقیدہ بیان کر رہا ہوں’ ان کے الفاظ کے اندر ۔ (معاذ اللہ معاذاللہ )  ’’پتر نے پوچھیا پیو نوں پئی ابا جی!  تسی آج بڑے مسوئے جئے ہوئے ہو’ ہویا کی ہیگا اے تہانوں ‘  کہن لگا بیٹا!  کی دساں’ آ میں جدوں دھیان مارنا ہیگاں ایناں ساریاں دے اوتے آ جناں نوں جم جم کے’ بھیجی تریا ہیگا’ ایں اے تے ساری اے ایس طراں دے ہیگے نیں ۔ کہن لگے فیر اخے ہن بخش دیو ۔ کہن لگے اے تے میرے اختیار اچ نئیں ہیگا’ میں تے ایناں نوں اے کر بیٹھا ایں ۔ گل بڑی اوکھی پئی ۔ کہن لگا پئی ابا جی!  ہن گل اے ہیگی اے پئی جے پتر ایہو جئے ویلے وی کم نہ آیا’ تے پت دا ہون دا فائدہ ای کی ہیگا وے ‘  تے کلا ای تے تہاڈا پتر ہیگا اے ۔ او کہن لگے او تیرے بچے جین ۔ ( بچے پتر دے وی نئیں سن ہیگے( ‘‘ ۔ عزیزانِ من!  ان کا عقیدہ بیان کر رہا ہوں’  نقلِ کفر کفر نہ باشد ۔ ’’ کہن لگے پئی ایووں کر’ مینوں دنیا تے بھیج دے’ تے میں پھائے لگ جاں گا’ میری جان جیہڑی ہیگی اے او تیرے نزدیک بڑی قیمتی ہے’ تے میری جان دا کفارہ لے کے تے ایناں نوں معاف کردے ۔ کہن لگے گل ہوئی ناں’ سواد آیا گل کرن دا ‘‘ ۔ عزیزانِ من!  اندازہ لگائیے’ یعنی پہلے ان انسانوں کو وہ پیدا اس طرح سے کر رہا ہے’ آلائش دھونے سے اختیار کچھ نہیں رہ رہا ہے ۔


مٹا کے پھر جو بنانے پہ پھر نہیں قابو


وہ سر جھکائے کھڑے ہیں قریب مت ہونا


کہ کریں کیا ۔ وہ بیٹا بھیجا جا رہا ہے’ اس کو صلیب دی جا رہی ہے’ وہ کفارہ بن رہا ہے’ ان انسانوں کے گناہوں کا ۔ مجبوری کی یہ کیفیت ہے’ یعنی انسان کے اپنے بس کی کوئی بات نہ رہی ۔ ہندو دھرم کے اندر’ پچھلے جنم کے جو کرن ہیں’ ان کی سزا بھگتنے کے لیے انسان یہاں آ رہا ہے ۔ وہاں بھی مجبوری کی بات ہے۔ اسی لیے یہ جو تصور ہے شیطان کا’ شر کا’ وہ یہ ہے کہ یہ اتنی قوتوں کا مالک ہے’ کہ انسان اس کے مقابلے میں کچھ کر ہی نہیں سکتا ۔ عزیزانِ من!  قرآن آیا اور اس نے آن کے یہ بتایا’ کہ یہ ٹھیک ہے’ کہ انسان کے اندر وہ ایسی قوتیں بھی ہیں’ جو اس کو غلط راہوں کے اوپر لے جاتی ہیں’ یہ اپنے اختیار کو غلط بھی استعمال کرتا ہے’ جس کو شیطان کہتے ہیں ۔ سنیے شیطان کی زبان سے کیا کہلایا جا رہا ہے ۔ انہوں نے یہ کہا تھا’ کہ تم نے یہ کچھ کیا ‘  کہا  وَمَا كَانَ لِيَ عَلَيْكُم مِّن سُلْطَانٍ (14:22) میرا تمہارے اوپر کوئی قابو کوئی غلبہ نہیں تھا’ کوئی قوت میرے پاس ایسی نہیں تھی ۔ آ ہا ہا!  وجود بھی شر کا بتا رہا ہے’ لیکن بتا یہ رہا ہے کہ انسان اللہ اکبر!  انسان کے اوپر میرا اقتدار؟  وَمَا كَانَ لِيَ عَلَيْكُم مِّن سُلْطَانٍ (14:22)  کہا ہوا کیا تھا ‘  کہنے لگا بات سیدھی سی تھی إِلَّا أَن دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِي (14:22) میں نے تو صرف تمہیں آواز دی تھی’ تم نے خود اپنے اختیار سے اس آواز کا پیچھا کیا تھا’ میرا تو تم پہ کوئی غلبہ نہیں تھا ۔ آ ہا ہا!  عزیزانِ من!  وہاں سارا مسئلہ شیطان کا’ اور خیر و شر کا حل ہوگیا ۔ فَلَا تَلُومُونِي (14:22) مجھے ملامت مت کرو  وَلُومُوا أَنفُسَكُم (14:22) اپنے آپ کو ملامت کرو ۔ میرا غلبہ اور اختیار!  مَّا أَنَا بِمُصْرِخِكُمْ وَمَا أَنتُم بِمُصْرِخِيَّ (14:22) ہم دونوں ہی آج تو بے بس ہیں ‘  نہ تم میری فریاد رسی کرسکتے ہو’ نہ میں تمہاری فریاد رسی کرسکتا ہوں ۔ میرا جرم یہ تھا’ کہ میں نے تمہیں آواز دی تھی’ بس اتنی سی بات ہی ہے ۔ انسان کے یہ جو مفاد پرستی کے جذبات ہیں’ غلط راہوں پہ لے جانے والے اس کو ایک آواز دیتے ہیں ۔ انسان کے اختیار کی بات ہے’ کہ وہ اس آواز کے اوپر استجاب جسے کہا ہے’ اسے قبول کرے یا اسے مسترد کردے ۔ اس لیے مجھے ملامت تم نہیں کرسکتے’ اپنے آپ کو ملامت کرو ۔ یہ جو کیفیت ہے اس کی’ یہ فریبِ نفس ہے’ یا فریب انگیزی ہے’ کہ کارِ بد تو خود کرے’ لعنت کرے شیطان پر ۔ وہ کہتا ہے اپنے آپ پہ لعنت کرو ۔ کیا بات قرآن کہہ گیا ہے!  خارج میں کوئی شے ایسی نہیں ہے’ جس کو تم ملامت کے قابل قرار دو’ اپنے آپ کو ملامت کرو’ تم ذمہ دار ہو اس کے جو کچھ یہ ہوا ہے ۔ اور تمہارا اپنا کیا ہوا ہے’ اس لیے تمہاری فریاد کو کون پہنچے گا ۔ إِنِّي كَفَرْتُ بِمَا أَشْرَكْتُمُونِ مِن قَبْلُ (14:22) ٹھیک ہے’ تم نے جو خدا کے قوانین کے ساتھ ان جذبات کی ترغیبات کو بھی اپنا معبود بنا لیا تھا’ میں اس سے انکار کرتا ہوں’ تم نے خود یہ کچھ کیا تھا ۔ اب یہاں آیا  إِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (14:22) یہ ہیں ظالم ‘  یہ ہیں ظلم کرنے والے اپنے آپ پر ظلم کرنے والے ‘  یہ ہیں جو عَذَابٌ أَلِيمٌ کے اندر گرفتار ہیں ‘  درد ناک الم انگیز عذاب کے اندر گرفتار ہوتے ہیں ۔ قرآن کا اعجاز ہے ۔ اتنا کچھ کہنے کے بعد آپ نے دیکھا ہے طبیعتوں کے اوپر ایک ڈپریشن سا طاری ہوگیا ۔ یہ تو درخشندہ امیدوں کا شہزادہ ہے قرآن ۔ جہاں آپ دیکھتے ہیں اس Crisis آیا ہے’ آپ محسوس کر رہے ہیں’ کہ اس وقت کیفیت کیا ہے ۔ عزیزانِ من!  خواہ اپنے ہی جرائم کا احساس سہی’ کم از کم قرآن کی ان آیات کے بعد طبیعت پہ ایک اثر تو ہوتا ہے’ انسان کے اوپر جو شایدمایوسیوں کی طرف لے جائے ۔ Crisis پہ لے جا کے  لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (14:22)۔ اگلی آیت ہے  وَأُدْخِلَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ (14:23) سارے دروازے بند نہیں ہوگئے’ کیوں مایوس ہوکے تم بیٹھ رہے ہو’ ان چیزوں کے سننے سے ۔ تمہارے اپنے بس کی بات ہے’ کہ جہنم کے دروازے بند کرو’ جنت کے دروازے تمہارے لیے کھلے ہوئے ہیں’ آؤ اس جنت کے دروازے کی طرف ‘  داخل ہوجاؤ اس کے اندر ۔ سدابہار خزاں نا آشنا جنت ‘  آؤ دروازے تمہارے لیے کھلے ہیں ‘  بہت پژ مردہ ہوگئے تھے تم ۔ دیکھا ! آپ نے یہ ہے ایک کمال اس کے انداز کا’ Crisis پہ لانے کے بعد ۔ اگر وہیں چھوڑ دیتا اس چیز کو تو آپ دیکھیے’ کس قدر یہ الم انگیز اثر تھا طبیعتوں کے اوپر جو یہ تھا ۔ کہا نہیں! ساری Opportunities بند نہیں ہوگئی ہیں’ دروازے کھلے ہیں ۔ عزیزانِ من! دو لفظوں میں بات کہہ دی ۔ وہاں یہ چیز کہی تھی’ کہ موت ہر طرف سے آتی تھی’ چاروں طرف سے موت جہنم کی ۔ جنت سامنے لایا ہے’ دو لفظ کہے ہیں  تَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلَامٌ (14:23) ندائیں ہر طرف سے’ کہ زندگی ہی زندگی ہے’ سلامتی ہی سلامتی ہے ۔ عزیزانِ من!  قرآن ہے ۔ کیا بات ہے!  وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِن كُلِّ مَكَانٍ وَمَا هُوَ بِمَيِّتٍ (14:17) اور اس کے مقابلے کے اندر  تَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلَامٌ (14:23) کئی الفاظ اور آسکتے تھے’ تَحِيَّ کی جگہ صاحب!  عام طور پہ تو یہ استعمال اس چیز کا کرتے ہیں’ کسی کو کوئی اچھی دعا دینا’ نیک آرزو کا اظہار کرنا’ لیکن آپ دیکھیے کہ یہی تَحِيَّ جو لایا ہے’ موت کے مقابلے میں یہ جو چیز قرآنِ کریم لایا ہے’ اور عربوں کے ہاں بھی دیکھیے موت کے مقابلے میں یہ تَحِيَّ جو ہے ’’حیۃ اللہ‘‘ وہ کہتے ہیں جب کوئی سلام کرتا ہے’ خود سلام بھی جو ہے’ احیا ہے حیات آور لیکن صرف زندگی ہی نہیں  سَلَامٌ ساتھ ہے موت کے مقابلے میں’ وہ زندگی ہی نہیں عذابِ الیم کے مقابلے کے اندر یہ سلامتی ہی نہیں’ بلکہ تکمیل جیسا میں نے عرض کیا تھا’ سلام صرف Peace کا نام نہیں ہے’ اس کے اندر تکمیل ہوتی ہے مسلّم جیسے میں نے کہا تھا’ کہ یہ آپ کے ہاں ہوتا ہے ۔ حیات اور تمہاری ذات کی تکمیل ۔ دوسری جگہ ہے  إِلَّا قِيلًا سَلَامًا سَلَامًا (56:26) یعنی ایسا وہ آئے گا کہ وہ اِدھر سے اُدھر سے ‘  اب وہ آپ نے دیکھا ہوگا سینما ہال کے اندر اب وہ جو نیا سسٹم نکلا ہے’ آواز وہاں سے صرف نہیں آیا کرتی’ اِدھر سے اُدھر سے’ گونجتی ہوئی آوازیں آتی ہیں ۔ وہاں  مِن كُلِّ مَكَانٍ (14:17)کہا تھا کہ موت دکھائی دیتی ہے’ یہا ں یہ کہا ہوا ہے ہر باب سے  سَلَامًا سَلَامًا کی دعائیں تَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلَامٌ (14:23) اللہ اکبر!  آؤ دروازے اب بھی کھلے ہیں  تَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلَامٌ (14:23)۔ دونوں قسم کی زندگیوں کا نقشہ سامنے آگیا ۔ یہ زندگیاں دونوں ‘  ان کے بیج کیا ہیں’ ان زندگیوں کے ‘  وہ کس قسم کا ایک بیج ہے’ جس سے وہ تھوہر کا درخت اگتا ہے’ یہ بیج کونسا ہے’ کہ جس سے یہ خوشگوار کھجور کا اورانگور کا درخت اگتا ہے ۔ یہ دو چیزیں متضاد آئی تھیں’ دونوں کے متعلق اب آگے’ ایک مثال سے وہ بات سمجھاتا ہے ۔آؤ تمہیں سمجھائیں’ ان دونوں زندگیوں کے جو تخم ہیں’ بیج ہیں’ وہ ان کی مثال کس قسم کی ہے ۔


      وقت ہوگیا ہے اسے ہم آئندہ درس میں لیں گے ۔ سورۃ ابراھیم کی 23  ویں آیت تک ہم آگئے 24  ویں سے آئندہ لیں گے ۔


رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّاط اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ


|…|…|


Popular Posts