بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
درسِ قرآنِ حکیم ازمفکر قرآن علامہ غلام احمد پرویزؒ
پانچواں باب: سورۃ ابراھیم (14) آیات(38 تا اختتام)
عزیزانِ من! آج دسمبر 1974ء کی 8 تاریخ ہے’ اور درسِ قرآنِ کریم کا آغاز سورۃ ابراھیم کی آیت 38 سے ہو رہا ہے:(14:38) ۔
سلسلۂ کلام یوں چلا آ رہا ہے’ کہ اللہ تعالیٰ نے حضرتِ ابراہیمؑ کے ذمے ایک عظیم پروگرام لگایا ۔ کہا یہ کہ انسانوں کی مفاد پرستیوں نے خود انسانوں کو مختلف ٹکڑوں میں بانٹ دیا ہے’ اور نتیجہ اس کا یہ ہے’ کہ انساں نوعِ انساں کا شکاری ہے ۔ میری اور تیری کی تقسیم نے یہ تفریق پیدا کی ہے ۔ انہوں نے زمینیں بانٹ لیں’ انہوں نے گھر بانٹ لیے ۔ اب میری اس زمین پر’ میں دیکھتا ہوں کہ میرا ہی کوئی گھر نہیں ہے’ تو تم میرے لیے ایک گھر بنا دو ‘ بَيْتِيَ (22:26) ‘الْبَيْتِ (22:26) ۔ انہوںؑ نے عرض کیا کہ بارِ الٰہا آپ تو ارض و سما کے مالک ‘ ساری کائنات آپ کی ملکیت ‘ یہ آپ نے کیا فرما دیا’ کہ میرے لیے ایک گھر بنا دو ۔ کہا ابراہیمؑ ! یہ گھر تو’ یہ زمینیں ‘ یہ علاقے ‘ یہ مملکتیں ‘ یہ ملک ‘ مختلف انسانوں نے اپنے اپنے نام الاٹ کرا لیے’ ان سے منسوب ہیں ۔ جب میں نے کہا ہے’ کہ میرا گھر’ تو اس کے معنی ہیں وہ وُضِعَ لِلنَّاسِ (3:96) جو پوری نوعِ انسانی کا گھر کہلا سکے ۔ آپ دیکھیے گا کعبہ کے متعلق سارے قرآن میں جہاں کہیں کعبے کا لفظ آیا ہے’ ہر جگہ اسے لِلنَّاسِ کہا گیا ہے مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَأَمْنًا (2:125) یعنی یہ جو تفریق کردی گئی تھی’ انسانوں اور انسانوں میں ‘ وہی شجرہ جس سے کہ منع کیا گیا تھا’ آدم کو کہ مشاجرت اختیار نہ کرلینا’ جڑ تم سب کی ایک ہے’ اپنے آپ کو یوں ٹہنیوں اور شاخوں میں نہ بانٹ لینا ۔ مخاصمت شروع ہوجائے گی’ اور بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ (2:36) پھر کیفیت یہ ہوگی’ کہ Wedges تمہارے درمیان آجائیں گی’ جو تمہیں ایک دوسرے کے ساتھ ملنے نہیں دیں گی ۔ تو یہ جو آسمانی ہدایت آتی تھی’ وہ پھر سے كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً (2:213) مقصد یہ تھا’ کہ نوعِ انسانی کو پھر سے ایک عالمگیر برادری میں منسلک کردیا جائے ۔ تفریق اور تقسیم ہوئی تھی ‘ ملک ‘ خون ‘ نسل ‘ رنگ ‘ زبان ‘ ان چیزوں کے اختلاف اور باہمی اشتراک کی بنا پر’ یعنی کچھ لوگوں کا وطن ایک ہوا’ تو یہ ایک گروہ بن گیا’ اور دوسرے لوگوں کا وطن دوسرا ہوا’ تو وہ دوسرا گروہ’ دوسری قوم تصور کرلیا گیا ۔ تو گویا یہ جو تھا ایک وطن ہوا’ اسے میں نے اشتراک کہا ہے’ اور یہ کہ دوسروں کا دوسرا وطن تھا’ اسے اختلاف کہا ہے ۔ اشتراک اور اختلاف کے یہ معیار تھے’ جس نے انسانوں کو اس طرح سے ٹکڑوں میں بانٹ دیا کہ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ (2:36) ایک دوسرے کے پھر یہ دشمن ہوگئے ۔ تو یہ جو وجوہِ تفریق تھی یا اختلاف کی وجوہ تھی’ پیامِ آسمانی نے انہیں مٹا کر’ وہ جو وجۂ اشتراک تھی’ پہلے اس کو بدلا ہے ۔ اس نے کہا کہ وجۂ اشتراک ‘ آئیڈیالوجی ‘ نظریہ ‘ یقین ‘ عقیدہ ‘ ایمان کا اشتراک ہونا چاہیے ۔ جب یہ اشتراک ہوگا’ تو وہ وجوہِ اختلاف جو ہیں’ وہ سب کی سب مٹ جائیں گی ۔ کسی ملک کا رہنے والا ‘ کسی نسل سے پیوند ‘ کسی خون رنگ ‘ زبان کا انسان’ دنیا میں کہیں بھی ہو’ یہ دو انسان کہیں بھی ہوں’ اگر وہ اشتراک ہے ان کا آئیڈیالوجی کے اندر’ تو وہ وحدتِ انسانی کی تسبیح کے دانے بن گئے ۔ یہ تھا پیام جو ابراہیمؑ کو دیا گیا’ اور اس بنا پہ کہا گیا کہ بَيْتِيَ’ یہ میرا گھر تم رہنے دو’ کسی کو اس گھر سے اپنی نسبت نہ کرنے دو’ تاکہ کوئی تو ایسا مقام ہو’ کہ جسے نوعِ انسانی یا عالمگیر انسانیت اپنا کہہ سکے ۔ عزیزانِ من! آپ نے دیکھا بنیاد کہاں سے پڑتی ہے’ اور کس نظریہ کے تحت اساس قائم ہوتی ہے’ جسے آپ اسلام یا دینِ خداوندی کہتے ہیں ۔ نوعِ انسانی کو پھر سے عالمگیر برادری میں منسلک کر دینا ‘ تشکیل اس انداز سے کر دینا’ یہ تھا وہ مقصد جس کے لیے کہا کہ یہ گھر تم میرے لیے بناؤ ۔ گھر بنایا گیا’ اور اس کے بعد پھر آپ نے دیکھا’ کہ وہ باپ اور بیٹا’ اس گھر کی تعمیر میں مصروف تھے’ وہ جس طرح سے کہ وہ مزدور اپنی محنت کو کم کرنے کے لیے’ سر پہ اینٹیں ہوتی ہیں’ گارے کا تگارا ہوتا ہے’ اور کچھ گنگناتے رہتے ہیں ۔ اس طرح سے وہ محنت کی جو صعوبت ہوتی ہے’ وہ کم ہوجاتی ہے ۔ یہ بھی یہ کچھ بنا رہے تھے’ اور لب پر یہ حسین دعائیں تھیں ‘ تمنائیں تھیں رَبِّ اجْعَلْ هَـٰذَا الْبَلَدَ آمِنًا وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَن نَّعْبُدَ الْأَصْنَامَ (14:35) اور رَّبَّنَا إِنِّي أَسْكَنتُ مِن ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِندَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ (14:37) تیرا گھر جو قابلِ احترام ہے ۔ تو میں نے پچھلی دفعہ جو عرض کیا تھا’ کہا تھا کہ یہ ساری دعائیں مانگنے کے بعد کہ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ (14:37) یہ اس لیے ہم بنا رہے ہیں تاکہ الصَّلَاةَ کو قائم کیا جاسکے ۔ تو میں نے عرض کیا تھا’ آپ دیکھتے ہیں کہ یہ صلوٰۃ تو کرۂ ارض کے کسی خطے کے کسی مقام پہ بھی دو سجدے دیے جاسکتے ہیں ۔ لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ (14:37) یہ اس لیے بنایا جا رہا ہے’ تاکہ الصَّلَاةَ کا نظام قائم ہوسکے ۔ تو یہ دو سجدے دینے کی بات نہیں ہے’ بڑی اہم چیز ہے’ جس کے لیے یہ بنایا گیا ہے ۔ اور اس کے لیے فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ (14:37) پھر تو ایسا انتظام کردے کہ دنیا میں نوعِ انسان کہیں بھی بس رہی ہو’ وہ کشاں کشاں یہاں اس نقطے پہ آجائے ۔ یہ اقامتِ صلوٰۃ جو ہے’ اس کا پہلا نتیجہ اور ثمر یہ ہونا چاہیے ۔ وہی صلوٰۃ جو میں کہا کرتا ہوں’ کہ اکٹھے انسان جو ہیں’ جب نماز کی آواز آتی ہے’ تو وہ الگ الگ ہوجاتے ہیں ۔ اہلِ حدیث الگ ‘ سنی الگ ‘ شیعہ الگ ‘ دیو بندی الگ ‘ بریلوی الگ اور یہاں تو خیر اتنے ہی ہیں’ پھر شافعی الگ ‘ مالکی الگ ‘ حنبلی الگ ۔ الگ الگ یہ ہوجاتے ہیں ۔ اقامتِ صلوٰۃ کے متعلق انہوں نے کہا تھا’ مِّنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ (14:37) تاکہ اس آواز پہ نوعِ انسانی کسی ایک مرکز پہ جمع ہوجائے ۔ اور اسے کہا یہ تھا’ کہ اب دوسری بات یہ میں کہہ رہا ہوں’ کہ یہاں تو کھانے پینے کو کچھ نہیں ہوتا ہے’ اس واسطے یہ ضروری چیز ہے’ کہ وَارْزُقْهُم مِّنَ الثَّمَرَاتِ (14:37) ان کے کھانے پینے کا انتظام بھی کچھ کردے ۔ کاہے کے لیے کردے؟ وہ کہنے لگے’ جب تک یہ نہ ہوگا لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ (14:37) میں نے کہا ہے’ کہ قرآن جہاں ایک بات بطور اصول کے کہتا ہے’ اس کے بعد اسکی حکمت بتاتا ہے’ کہ ہم کیوں یہ کہہ رہے ہیں ۔ یہ روٹی کا انتظام کردے’ اس واسطے نہیں کہ پیٹ میں یہ روٹیاں پڑیں’ تو پھر فساد اور غرور اور تکبر کے مارے دوسرے کو جینے نہ دیا جائے ۔ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ (14:37) تاکہ ان کی محنتیں بھرپور نتائج پیدا کریں ۔ روٹی کے بغیر یہ نہیں ہوسکتا ۔ پراگندہ روزی’ پراگندہ دل ۔ تعمیرِ کعبہ کے بعد پہلی چیز جو وہاں دعائے ابراہیمیؑ ہے’ وہ یہ دعا ہے ۔ یہ کچھ کہا اور اس کے بعد کہا کہ رَبَّنَا إِنَّكَ تَعْلَمُ مَا نُخْفِي وَمَا نُعْلِنُ ۗ وَمَا يَخْفَىٰ عَلَى اللَّـهِ مِن شَيْءٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ (14:38) کہا کہ یہ جو کچھ ہم زبان سے ادا کر رہے ہیں’ تو تو ان الفاظ کو بھی سننے والا ہے’ جانتا ہے’ اور دلوں کی نیتوں کو بھی جانتا ہے’ کہ ہم جو یہ دعائیں مانگ رہے ہیں’ کہ لوگ بھی یہاں جمع ہوں’ روٹی کا بھی انتظام ہو’ تو یہ اس لیے نہیں ہے کہ ہم مہاجن بننا چاہتے ہیں’ یہاں کے پجاری بننا چاہتے ہیں ۔ پجاری بھی تو اپنے لیے وہ اس لیے بناتا ہے سارا کچھ’ کہ وہ روٹی والی بات جو آگے آگئی’ تو کہا کہ اس روٹی کی التجا میں کہیں یہ بات نہ ہوجائے’ کہ جہاں اور مختلف ناموں سے پجاریوں نے خدا کے نام کے گھر بنا رکھے ہیں’ ہم بھی وہی کچھ کہہ رہے ہیں ۔ کہا کہ تو جانتا ہے’ ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں’ اس سے ہمارا مقصد کیا ہے ‘ ہماری نیت کیا ہے تو تو جاننے والا ہے ۔ اور ہمارے ہی دل کیا’ اور انسانوں کے دل ہی کیا وَمَا يَخْفَىٰ عَلَى اللَّـهِ مِن شَيْءٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ (14:38) اس کائنات میں کوئی شے بھی نہیں ہے’ جو تجھ سے مخفی ہو ۔ اس لیے یہ سوال ہی نہیں ہے’ کہ ہم دل میں کچھ اور رکھیں’ زبانوں پہ کچھ اور لے آئیں ۔ مقصد ہمارا تو جانتا ہے’ کہ یہ دعا جو ہے’ اس کا آخری فقرہ جو ہم نے کہا ہے’ تو یہ دنیا میں دولت سمیٹنے کاذریعہ نہیں ہم بنا رہے ۔ تو جانتا ہے’ کہ اس کا مقصد کیا ہے ۔ اور پھر آپ نے دیکھ لیا’ کہ وہی گھر خدا کا جو ہے وہ کیا سے کیا بن کے رہ گیا ہے ۔ گھر بنایا اور وہ دعا کی’ کہ یہ مرکز بن جائے انسانیت کا ۔ انسانیت کے وہ جو بکھرے ہوئے الگ الگ دل تھے’ وہ اس کی وجہ سے جڑ جائیں ۔ کہا کہ میں اس گھر کے اور اس مقصد سے جس کے لیے اسے تعمیر کیا گیا ہے’ اس کی طرف سے مایوس نہیں ہوں ۔ تو میں نے تو اپنی آنکھوں سے ایک طبعی بات ایسی دیکھ لی ہے’ کہ جس کے بعد سوال ہی نہیں’ کہ میری طرف مایوسیاں آجائیں ۔ میں نے تو دیکھا یہ ہے الْحَمْدُ لِلَّـهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ (14:39) میں نے تو دیکھا ہے’ کبر سنی کے زمانے میں جب عام حالات میں انسان اولاد کی طرف سے مایوس ہوجاتا ہے’ تو نے مجھے اسماعیل اور اسحاق جیسے بیٹے دیے ہیں’ تو اس صورت میں جب تو یہ اتنی سی طبعی بات کے اندر بھی مایوس نہیں ہونے دیتا’ اس میں بھی یہ چیزیں آجاتی ہیں’ تو یہ جو اتنا بڑا بلند مقصد ہے’ جس کے لیے میں نے اسماعیلؑ کی اولاد کو یہاں بسایا’ اسحاقؑ کی اولاد کو وہاں بسایا ہے’ تو میں اس کے مستقبل کی طرف سے مایوس نہیں’ ایسا ہو کے رہے گا ۔ إِنَّ رَبِّي لَسَمِيعُ الدُّعَاءِ (14:39) اور میں جانتا ہوں’ کہ جو مانگ ہوتی ہے’ تو اس کو سنتا ہے ۔ وہاں یہ کہا تھا’ کہ یہ میں گھر بنا رہا ہوں’ تاکہ اقامتِ صلوٰۃ ہوسکے ۔ پھر وہ دعا دہرائی گئی’ کہ رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلَاةِ وَمِن ذُرِّيَّتِي (14:40) اے ہمارے نشوونما دینے والے! ایسا کر کہ میں بھی اقامتِ صلوٰۃ کے اوپر پابند رہوں’ اور میری نسل بھی یہ کچھ کرتی رہے ۔ عزیزانِ من! دیکھا یہ کتنا اہم فریضہ ہے’ یہ اقامتِ صلوٰۃ ۔ کعبہ کو بنایا اور کہا لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ (14:37) تاکہ اقامتِ صلوٰۃ ہوجائے ۔ دعا مانگی اور اس کے بعد پھر یہ ایک دعا اپنے لیے’ اور اپنی نسل کے لیے بھی ‘ اپنی ذریت کے لیے بھی ‘ اولاد کے لیے بھی مُقِيمَ الصَّلَاةِ وَمِن ذُرِّيَّتِي (14:40) میں بھی اور میری اولاد بھی’ دعا یہ ہے کہ وہ اقامتِ صلوٰۃ کے فریضے پہ پابند رہے ۔ دوسری جگہ ہے’ کہ حضرتِ ابراہیمؑ کے یہ کچھ کہنے کے بعد’ جب اللہ تعالیٰ نے کہا کہ ہاں یہ ہوگا’ تو وہاں یہ کہا تھا وَمِن ذُرِّيَّتِي (14:40) میرے متعلق تو الہ العالمین آپ نے یہ وعدہ دیدیا’ کہ ہوگا ایسا جیسا تم مانگتے ہو’ میرے اولاد کے متعلق وہ بھی ہوگا؟ کہا یہ یاد رکھو لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ (2:124) محض تیرے اولاد ہونے کی وجہ سے یہ کچھ نہیں ہوگا’ تم میں سے بھی جو اس مقام کے اوپر نہیں رہے گا’ کسی دوسرے مقام پہ پہنچ جائے گا’ تو ان سے ہمارا وعدہ نہیں ہے ۔ بڑی اہم حقیقت ہے’ جو قرآن اس میں کہہ گیا ہے’ اور یہ حقیقت حضرتِ ابراہیمؑ کے زمانے میں نہیں کہی گئی’ سب سے پہلا نبی جس سے آغاز ہوتا ہے’ سلسلۂ رشد و ہدایت کی داستانِ عظیم کا ‘ حضرتِ نوحؑ ‘ وہاں سے تو یہ بات شروع ہوئی ہے ۔ وہ کہہ دیا کہ یہ تیرا بیٹا ہی نہیں ہے’ اس لیے کہ یہ تو فکر و نظر ‘ عمل و کردار میں’ تیرا متبع نہیں ہے’ اس واسطے تیرے اہل میں سے نہیں ہے’ تیرا اپنا نہیں ہے ۔ وہاں سے یہ بات شروع ہوئی تھی’ اور یہاں پھر دہرا دیا ۔ حضرتِ ابراہیمؑ کی دعا کے بعد کہہ دیا’ کہ نہیں ابراہیمؑ! محض کسی کی اولاد میں سے ہونا کوئی خصوصیت نہیں ہے ‘ کوئی میرٹ نہیں ہے ‘ کوئی اس کا استحقاق نہیں ہے ‘ حق نہیں ہے کوئی ۔ یہ جائیداد نہیں بنٹ رہی’ کہ وراثت میں آجائے گی’ خواہ کسی قسم کا بیٹا ہو ۔ یہاں تو سوال ہی یہ ہے’ کہ ہر فرد کو لیا جاتا ہے’ اس کے اپنے اعمال کس قسم کے ہیں’ نہ یہ کہ وہ بیٹا کس کا ہے ‘ اولاد کس کی ہے ‘ نسل کس کی ہے ۔ آپ نے دیکھا بنیادی طور پر کس چیز کو قرآن مٹانے آیا تھا’ کہ یہی چیز تو انسانیت کی وحدت کے راستے میں کھڑی ہوتی تھی ‘ نسل پرستی ۔ وہیں کہہ دیا’ کہ ابراہیمؑ کا بیٹا یا اس کی نسل میں سے کسی کا ہونا’ وہ اسے اس کا مستحق نہیں بنا دے گا’ کہ جن برکات کا ہم نے ابراہیمؑ سے وعدہ کیا ہے’ وہ مسلسل محض اس لیے کہ وہ اس کی ذریت میں سے ہیں’ انہیں ملتی چلی جائے ۔ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ (2:124)۔ لہٰذا عزیزانِ من! نسلی نسبت کسی کی طرف خدا کے میزان میں کوئی وزن نہیں رکھتی ۔ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّـهِ أَتْقَاكُمْ (49:13) خدا کی نگاہوں میں سب سے زیادہ واجب التکریم وہ’ جو سب سے زیادہ اپنے فرائضِ خداوندی کا ادا کرنے والا ہوگا ۔ معیار ہی بدل دیے ۔ تو جب انسانیت کے اشتراک و اختلاف کے معیار بدلے ہیں’ تو یہ باقی بھی جو معیار تھے وہ بھی تو اس کے ساتھ اسی طرح سے بدل جانے تھے ۔ دعا یہ ہوگئی رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلَاةِ وَمِن ذُرِّيَّتِي ۚ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ (14:40) کیا حسین باتیں ہیں! اے ہمارے نشوونما دینے والے! سمیع و علیم تو تُو ہے’ سمیع الدعا بھی تُو ہے’ تُو نے دعا سن تو لی ‘ پروردگار! اسے شرفِ قبولیت بھی تو عطا کر دو ۔ تو اب یہ بھی نظر آگیا’ کہ وہ دعاؤں کا سننے والا تو ہے’ ہر دعا کو شرفِ قبولیت عطا نہیں ہوجاتا ۔ یہ جو مجیب الدعوٰۃ کہا جاتا ہے’ تو وہ یہ بات نہیں ہے’ کہ بندے نے ادھر سے مانگا’ اور وہ بیٹھا ہوا ہے مجبور ہے اس چیز کے اوپر کہ جو مانگا ہے’ وہ جھٹ سے دینا ہے’ کیونکہ مجیب الدعوٰۃ ہے ۔ تو نے جو کہا تھا کہ ہم دعا قبول کرتے ہیں’ میں نے دعا مانگی ہیں’ دو مجھے یہ ۔ اس کے بعد یہ کہا گیا ہے لَسَمِيعُ الدُّعَاءِ (14:39) تو ہے تَقَبَّلْ دُعَاءِ (14:40) میری دعا کو شرفِ قبولیت بھی عطا فرما دے۔ دعا کا اگلا حصہ ایک اور بھی آتا ہے ۔ رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ (14:41) عام ترجمے کے اعتبار سے میں عرض کرتا ہوں’ ایک اہم بات یہاں سے آگے چلتی ہے ’’اے میرے نشوونما دینے والے! بہرحال میرے والدین’ اور مومن’ ان کو بھی جب میزانِ عمل کھڑی ہو’ جب اعمال کا حساب ہو رہا ہو ‘‘ ۔ تو میں نے عرض کیا ہوا ہے’ کہ وہ قرآنِ کریم نے خدا کے متعلق تو سریع الحساب کہا ہے’ وہ یہ ہائی کورٹ کی تاریخیں نہیں مقرر کرتا’ آٹھ آٹھ سال گزر جاتے ہیں’ ایک حوالاتی Under Trial ہی ہوتا ہے ‘ مقدمے کی پہلی پیشی بھی وہاں نہیں آتی ۔ تو یہ ٹھیک ہے’ زندگی تو مسلسل ہے’ آخرت تو اس موت کے بعد بھی یہ زندگی آگے چلتی ہے’ لیکن یہ نہیں ہے’ کہ وہ حساب کو Postpone کرتا رہتا ہے’ کرتا رہتا ہے’ کہ ’’اک دن ساہڈے آؤ گے ای ناں‘‘ وہ اس کا انتظار نہیں کرتا’ کہ ’’ساہڈے محلے آؤ گے’ تے فیر دیکھو تہاڈے مگر کتے پاوندے ہیگے آں‘‘ ۔ سَرِيعُ الْحِسَابِ (2:202)۔ ایک ایک سانس میں حساب ہوتا ہے’ میزان تو اس کے سینے کے اندر لٹکی ہوئی ہوتی ہے ۔ تو یہ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ (14:41) کے یہ معنی نہیں ہوتے’ جہاں بھی قرآن میں یہ آیا ہے’ کہ صاحب! وہ ایک دن جو مقرر ہے’ اس دن میں یہ چیز جو ہے ۔ ہر ساعت حساب کی ہوتی ہے ۔ کہا یہ گیا ہے کہ میرے ماں باپ کو بھی رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ (14:41) (عام ترجمہ) مغفرت عطا فرما ۔ اب یہاں سے صاحب! ہمارے ہاں ایک مسئلہ چھڑا ۔ اور یاد رکھیے کہ جب بھی بات مسئلہ پہ آجائے گی’ بس سمجھیے اصلِ حقیقت گئی وہ ۔ کیا کہہ گیا ہے وہ شخص’ تقدیر کے متعلق
زندہ قوت تھی جہاں میں کبھی تقدیر
اور اب کیا ہے؟ فقط مسئلہِ علمِ کلام
مسئلہِ علمِ کلام ہوگیا ۔ آپ کے ہاں اب دین جو ہے اس کی ہر بات ‘ ہر کلمہ ‘ ہر نظریہ ‘ مسئلہ بن گیا ہوا ہے ۔ مسائل کی کتابیں آپ کے ہاں ہوتی ہیں ۔ مسئلہ آپ کے ہاں یہ بن گیا ہوا ہے’ کہ غیر مسلم یا مشرک کے لیے’ دعائے استغفار کرنا جائز ہے یا نہیں ۔ اور یہاں سے آگے مسئلہ یہ ہے’ کہ ان کا جنازہ پڑھنا جائز ہے’ کہ نہیں کیونکہ دعائے مغفرت تو جنازے میں کی جاتی ہے ۔ اب اس کے بعد پھر اس کے لیے فتوے ہوتے ہیں ‘ کس کا جنازہ پڑھنا جائز ہے ‘ کس کا جنازہ پڑھنا جائز نہیں ہے ۔ بات کہاں سے یہ چلی تھی؟ بات چلی کہ صاحب! حضرتِ ابراہیمؑ نے’ اپنے ماں باپ کے لیے مغفرت کے لیے دعا کی تھی ۔ اور باپ تو مشرک تھا ۔ والدہ کے متعلق تو معلوم نہیں ہے’ قرآن نے صراحت نہیں کی’ لیکن حضرتِ ابراہیمؑ کے باپ کے متعلق تو قرآن کے مختلف مقامات میں پہلا ٹکراؤ ہی باپ کے ساتھ ہوا تھا ۔ اور وہ جو چیز ہے ہمارے ہاں تو پھر آذر ‘ بت تراش کی حیثیت سے سامنے آتا ہے ۔ بت تراشیدم نہیں ہے ‘ بت کا تراشنا نہیں ہے ‘ وہ تو بہت بلند مقام تھا’ یعنی آپ نے دیکھا ہے کہ ملوکیت اور پیشوائیت تو دو الگ الگ مملکتیں ہوتی تھیں ۔ بادشاہ اپنی مملکت کا سربراہ ہوتا تھا’ اور یہ جو مذہب کی دنیا میں خواہ وہ کوئی نام بھی تھا’ کسی دور کے اندر ‘ اس کا جو ہیڈ ہوتا تھا’ چیف پریسٹ جسے کہا جاتا ہے’ وہ اپنی مملکت کا سربراہ ہوتا تھا ‘ یہ بہت بڑا مقام تھا ۔ آپ دیکھتے ہیں’ کہ ہامان کس مقام پہ آتا ہے’ فرعون کے ساتھ ۔ جہاں فرعون دیکھتا ہے’ کہ میں بازی ہار رہا ہوں’ وہاں وہ ہامان کو بلاتا ہے ۔ تو یہ حضرتِ ابراہیمؑ کے والد بھی اس مملکت کے اندر ہیڈ پریسٹ تھے’ اور یہ بہت بڑا منصب تھا ۔ یہی تو چیز تھی جو انہوں نے حضرتِ ابراہیمؑ سے کہا تھا’ کہ تو کیا کر رہا ہے ‘ بتوں کی مخالفت کر رہا ہے’ بت پرستی کی مخالفت کر رہا ہے ۔ مجھے تو چھوڑ کہ تیری وجہ سے مجھ پہ کیا آفت آجائے گی’ اتنا بڑا منصب ‘ اتنا بڑا جاہ و جلال ‘ شوکت و عظمت’ یہ چھن جائے گی ۔ ارے! اپنے متعلق تو سوچ’ اس کا تو تُو وارث ہونے والا ہے ۔ یہ تھی پہلی چیز جو باپ کے ساتھ تھی ۔ تو آذر جو تھا’ وہ تو اس شرک کے مسلک کا سب سے بڑا سربراہ اس مقام پہ وہ تھا ۔ بات اب یہاں سے آگئی’ کہ یہ تو صاحب! مشرک تھے’ اس کے لیے یہ مغفرت کی آرزو کیسے ہوجاتی ہے ۔ اب مغفرت کے معنی ہوگئے’ پھر وہی بخشش جو ہے خدا کے ہاں سے ‘ وہاں قیامت کے دن کہ اس کو بخش کر’ جہنم کی جگہ جنت میں بھیج دے ۔ یہ بخشش ہوگئی ‘ مغفرت یہ ہے ۔ بات ہی اور ہے ۔ دوسری جگہ یہ آیا ہے’ وہ میں مقام سامنے لاؤں گا ۔ یہ استغفار کیا ہے؟ مغفرت کے معنی ہیں محفوظ رکھنا ۔ یونہی روزمرہ کی مثال میں سے ایک چیز دیکھ لیجیے ۔ ایک شخص کا بیٹا یا کوئی بھی ہے’ وہ سگریٹ کی بڑی زیادتی کیے چلا جا رہا ہے’ اسے بتایا جا رہا ہے’ کہ اگر اس نے یہ روش اختیار رکھی’ تو اس کو تپ دق ہوجائے گی ۔ وہ سمجھاتا چلا جاتا ہے بیٹے کو’ کہ تباہی آجائے گی’ تپ دق ہوجائے گی’ اتنا نقصان ہوجائے گی ۔ وہ نہیں مانتا’ اس کے بعد وہ سرکشی تک بھی اتر آتا ہے’ نہیں مانتا ۔ باپ کی بحیثیت شفقتِ پدری کا جو تقاضا ہے’ اس کی رو سے’ اس کا دل اس وقت بھی کڑھتا ہے’ اس کی تباہی کے اوپر ۔ وہ ایک دن جھڑک کے’ ڈانٹ کے کہہ دیتا ہے’ ابا جان! روز روز آپ نے یہ کِل کِل لگا رکھی ہے’ یہ کچھ کر رکھا ہے میں آپ سے کہہ دیتا ہوں’ کہ اس کے بعد مجھے ایک لفظ نہ کہنا اس بات کے اندر ‘ میں قطعاً برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں’ وہ سن لیتا ہے اس پہ بھی کہتا ہے’ کہ ہاں بیٹا! میں مجبور ہوں جبر تو نہیں کرسکتا’ تمہیں چھڑا دوں ۔ اس کے باوجود میری دعا اب بھی یہی رہے گی’ جسے اس لفظ میں کہا ہے’ کہ خدا تمہیں اس کی تباہی سے بچا لے ۔ کیا معنی ہیں’ اس تباہی سے بچا لے؟ یہ کہ تو سگریٹ پئے چلا جائے’ اور وہ تجھے تپ دق نہ ہونے دے ۔ اس کے معنی یہ ہیں’ کہ ایسا کسی طرح سے ہوجائے’ کہ تو پھر اس کو چھوڑ دے’ یعنی اس کے چھوڑنے سے یہ تباہی سے بچ سکتا ہے ۔ آرزو یہ نہیں ہے’ کہ تُو تو سگریٹ پیتا چلا جا’ اور میں خدا سے دعا کرتا چلا جاؤں’ کہ اسے تپ دق نہ ہو ‘ یا اللہ! ایسا نہ ہو ’’ ایسا انمول جیا پوتر جم پیا ہیگا’ میں کی کراں بڑا مجبور ہیگا ایں ‘ میں تے مجبور آں تو تے مجبور نئیں ہیگا ‘‘ ۔ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ یہ سگریٹ پئے چلا جائے’ اور اسے تپ دق نہ ہو ۔ اس آرزو کے معنی یہ ہیں’ کہ خدا تجھے اس تباہی سے محفوظ رکھے‘ محفوظ اسی صورت میں رہ سکتا ہے’ کہ سگریٹ نوشی وہ ترک کردے ۔ کہ میری اب بھی یہ آرزو رہے گی ‘ کوشش میری تو ناکام ہوگئی’ کہ تو نہیں سنتا’ دل کی آرزو میری اب بھی یہی رہے گی’ کہ تو کسی طرح سے اس بد آرزو سے باز آجائے’ تاکہ تُو اس تباہی سے بچ جائے ۔ اسے کہتے ہیں ’’استغفار‘‘ ۔ کسی کے متعلق یہ نیک آرزو دل کے اندر رکھنا’ کہ یہ جو اس کی خراب عادت یا بد کرداری ہے’ یہ اسے کسی طرح سے چھوڑ دے’ تاکہ اس کی وجہ سے آنے والی تباہی سے محفوظ رہ جائے ۔ اسے کہتے ہیں ’’استغفار‘‘ ۔ اور یہاں آخری جو دعا ہوتی ہے’ وہ جنازے کے وقت میں ہوتی ہے’ یعنی جب یہ مواقع ہی نکل گئے ہوتے ہیں’ سگریٹ چھوڑ دینے کے’ اور ان چیزوں کے الگ کرنے کے’ لیکن بہرحال آرزو کا اظہار تو ایک چیز ہے ۔ یہ ہے آرزو کا اظہار ۔ سوال یہ ہے’ کہ حضرت ابراہیمؑ نے یہ جو باپ کے ساتھ آرزو کا اظہار کیا تھا’ قرآن نے اسے کہا ہے ۔ ابراہیمؑ نے باپ سے یہ جیسے وعدہ کیا تھا’ کہ ٹھیک ہے تو مجھے گھر سے نکال رہا ہے’ دھمکی بھی دے رہا ہے’ کہ اگر میں یہیں رہا اور میں نے اپنے اس اعتراض کو’ اس مخالفت کو نہ چھوڑا ‘ اس نے کہا تھا ہم تمہیں سنگسار کردیں گے’ نکال دیں گے’ قوم نے بھی یہ کیا ۔ اس کے باوجود جاتے جاتے بھی ابراہیمؑ نے باپ سے یہ کہا تھا’ کہ آپ تو بہرحال یہ کچھ کر رہے ہیں’ آپ کی سمجھ میں یہ بات آج نہیں آ رہی’ کہ میں آپ کو کس حفاظت اور کس سلامتی کی طرف دعوت دے رہا ہوں ۔ میں جا رہا ہوں اس کے باوجود ابا جان! یہ آپ کی جو روش میرے ساتھ جو طرزِ عمل ہے’ اس سے یہ نہیں ہوگا’ کہ میں آپ کے لیے اب کوئی بد دعا جسے ہم کہتے ہیں’ کہ یہ کردوں’ گالیاں دینے لگ جاؤں ۔ نہیں! میری اب بھی یہ آرزو رہے گی’ کہ آپ اس غلط روش کو چھوڑ دیں’ تاکہ آپ اس تباہی سے بچ جائیں’ جو اس کا لازمی نتیجہ ہے ۔ یہ ہے جسے قرآن نے کہا تھا’ کہ ابراہیمؑ نے وعدہ کیا تھا’ اپنے باپ سے’ کہ میں اس کے باوجود یہ دعا کرتا رہوں گا’ میری یہ آرزو برقرار رہے گی’ کہ آپ اس غلط روش کو چھوڑ دیں’ تاکہ اس کی وجہ سے آنے والی جو تباہی ہے’ اس سے محفوظ رہ جائیں ۔ اب یہ دیکھیے قرآن نے دیگر مقامات پر اس چیز کو کیسے کہا ہے ‘ کس حسین انداز سے یہ بات کہی ۔ بات یہاں دیکھیے جو میں نے ابھی اتنی لمبی تفصیل میں عرض کیا ہے’ قرآن نے کس طرح اسے دو لفظوں میں بیان کردیا ہے ۔ وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ إِلَّا عَن مَّوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ (9:114) یہ جو ابراہیمؑ نے استغفار کے لیے بات کہی تھی’ باپ کے لیے’ جو حفاظت طلبی کی آرزو اس کے دل میں موجزن ہوئی تھی’ اور رہتی تھی’ وہ اس وعدے کی بنا پہ تھی’ جو اس نے جاتے وقت اپنے باپ سے کیا تھا ۔ وعدے کی بنیاد کیا تھی؟ کیا بات ہے قرآن کی! وہیں کہتا ہے إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَأَوَّاهٌ حَلِيمٌ (9:114) بڑا ہی غمگسار ‘ بڑا ہی ہمدرد ‘ بڑا ہی رقیق القلب ‘ بڑا ہی جگر گداز واقع ہوا تھا ابراہیم ۔ باپ نے یہ کچھ کیا’ اور اس کے باوجود اس کے دل سے باپ کے خلاف بد دعا نہیں نکلی’ کہا یہ کہ آپ جو جی میں آئے کر لیجیے’ میں جانتا ہوں جہالت ہے ۔ میری طرف سے پھر بھی نیک دعائیں ہی آپ کے شاملِ حال رہیں گی ‘ میں اس کے باوجود یہ آرزو کرتا رہوں گا’ کہ آپ اس روش کو چھوڑ دیجیے ۔ میں بار بار یہ بتا رہا ہوں’ کہ مغفرت کے معنی یہ تھے’ کہ آپ اس روش کو چھوڑ دیں’ تاکہ اس کے بعد اس کی وجہ سے آنے والی تباہی سے آپ محفوظ رہ جائیں ۔ دیکھیے! قرآن نے کن الفاظ میں یہ کہا ہے’ کہ استغفار تو اس وجہ سے تھا ۔ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لِّلَّـهِ (9:114) لیکن جب یہ بات واضح ہوگئی’ ثابت ہوگئی’ کہ ابراہیمؑ کا باپ جو تھا’ وہ بدستور اسی طرح سے خدا کا دشمن رہا ہے’ اور وہ اپنی روش سے باز نہیں آیا’ اس غلط روش کو چھوڑا نہیں ہے’ تَبَرَّأَ مِنْهُ (9:114) تو اس نے اس سے علیحدگی اختیار کرلی ۔ دیکھا! یہ اس وقت کا وعدہ تھا’ یا جو کہا تھا’ کہ میرے دل میں آرزو رہے گی’ جب اس چیز کا امکان تھا’ امید تھی’ کہ ہوسکتا ہے’ کہ یہ اس وقت تو غصے میں ہیں’ انتقام میں ہیں’ زیادہ مفاد پرستیوں کا لالچ ان پہ غالب آگیا ہے’ شاید اس کے بعد ٹھنڈے دل سے یہ غور کریں’ جوکچھ میں نے کہا ہے’ اور اس وقت ہی اپنی اس روش سے یہ باز آجائیں’ لیکن بعد میں جب یہ بات یقینی ہوگئی’ کہ نہیں ! یہ شخص تو نہیں باز آنے والا’ تو اس وقت پھر یہ امید ٹوٹ گئی ان کے دل سے ۔ یہ ہے تَبَرَّأَ (9:114) ۔ تَبَرَّأَ کے معنی گالی دینا نہیں ہے ۔ پھر اس کے ساتھ اس نے جو اپنی یہ نیک آرزوؤں کے تعلقات قائم رکھے ہوئے تھے’ یہ ٹوٹ گئے ‘ نہیں! اب اس کے بچنے کی کوئی امید نہیں ہے ۔
یوں خدا کی خدائی برحق ہے
پر اثر کی ہمیں تو آس نہیں
یہ مقام آجاتا ہے جس میں وہ دیکھ کے کہ نہیں باز آیا وہ شخص اپنی اس عادتِ بد سے’ اور اس کے بعد پھر دیکھا کہ تپ دق ہوگئی ہے’ اس وقت پھر یہ چیز ہوتی ہے’ کہ افوہو! کیا ہوگیا ۔ وہ مقام کہ جہاں خدا کے برگزیدہ یہ انسان تو ایک طرف ‘ قرآنِ کریم میں ہے’ کہ جب انسان اپنی غلط روش کے تباہ کن نتائج کی بنا پہ’ جسے جہنم کہا جاتا ہے’ یعنی تباہی کے اندر جا رہا ہے ‘ محاکاتی انداز میں یہ’ کہ اس کو جہنم میں داخل کر رہے ہیں’ دھکیل رہے ہیں ۔ خدا ایسی منظر کشی اس کی کرتا ہے’ کہ محسوس شکل میں بات سامنے آجائے ۔ وہاں جیسے خدائے تعالیٰ عدالت کے تختِ جلال کے اوپر فروکش ہیں ‘ وہاں سے یہ فیصلے دیے جاتے ہیں’ موت کی سزا سنائی جاتی ہے ‘ پھانسی پہ لٹکائے جا رہے ہیں’ گلے میں رسا ڈالا جا رہا ہے ۔ وہاں سے اسی نے جس نے اپنے عدل کے مطابق یہ فیصلہ دیا تھا’ اس کی پھانسی کی سزا کا ‘ قرآن میں ہے کہ وہاں سے آواز آئے گی يَا حَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ (36:30) اور میرے بندو تم نے کیا کیا ہے ۔ آ ہا ہا! يَا حَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ کتنا پیارا ہے ۔ ایک طرف اس قدر إِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيدٌ (85:12) ہے کس قدر متضاد صفات ہیں’ جن کا امتزاج کیا گیا ہے’ ایک ذات کے اندر ۔ عزیزانِ من !Personality کہتے ہی اس کو ہیں کہ عدالت کی کرسی کے اوپر بیٹھا ہوا ہے’ تو وہاں پھر قانون ہے ‘ جیسے یونانیوں نے کہا تھا’ آنکھوں پہ پٹی باندھے ہوئے ہے ‘ قانون کی رو سے یہاں فیصلہ ہو رہا ہے ۔ پھر دہرا دینے کو جی چاہتا ہے’ کہ خدا کی صفات کو اپنے اندر منعکس کرنے والی ذاتِ اقدس و اعظم محمد رسول اللہﷺ کا وہی حسین واقع جو ہے’ وہی جو میں نے ابھی عرض کیا ہے’ کہ وہ عدالت کے تختِ جلال سے تو خدا کا فیصلہ بھی یہ ہے’ کہ ٹھیک ہے یہ جہنم کے لائق ہیں پھانسی کے تخت پہ چڑھا دیجیے’ لیکن جب جہنم میں پھینکنے لگتے ہیں’ تو آواز آتی ہے يَا حَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ (36:30)۔ اور وہ واقعہ حضورﷺ کا کہ جب اس یہودی قاتل کو جو آپﷺ کی عدالت میں مقدمہ پیش ہوا تھا’ اور آپﷺ نے اس کو انہی کے قانون کے مطابق اس کو قتل کی سزا دی تھی ۔ جلاد سر پہ کھڑا ہوگیا تھا’ تلوار ہاتھ میں لیے ہوئے’ تو اس یہودی کی چھوٹی سی بچی چلاتی ہوئی آئی تھی’ اور حضورﷺ کے ٹانگوں کے ساتھ لپٹ گئی’ کہ محمدﷺ ! مجھے یتیمی کے داغ سے بچا لو’ میرے باپ کو سزائے موت نہ دو ۔ آپﷺ نے اس بچی کے سر پہ ہاتھ رکھا’ آنکھوں میں آنسو آگئے ۔ صحابہؓ نے یہ سمجھا کہ اب آپﷺ یہ کہہ دیں گے’ کہ ہاں! چھوڑ دو معاف کردو ۔ آنکھوں میں آنسو آگئے’ اور جلاد کو انگلی سے حکم دیا’ کہ تلوار چلا دو ۔ تلوار چل گئی’ قتل ہوگیا’ لڑکی کو تو سینے سے لگا لیا’ کہا کہ بیٹا! تمہاری پرورش باپ کی طرح میں کروں گا ۔ بعد میں صحابہؓ نے کہا’ کہ حضورﷺ! ہم سمجھتے تھے کہ جب آپﷺ کی آنکھوں سے آنسو آگئے تھے’ تو اب آپﷺ اسے چھوڑ دیں گے ۔ ہم سمجھ نہیں سکے’ کہ آنکھوں میں آنسو اور یہ انگلی کا اشارہ’ یہ ہے کیا بات ۔ عزیزانِ من! تاریخِ عالم میں یہ الفاظ لکھے جانے کے قابل ہونگے ۔ کہا کہ آنکھوں کے آنسو محمد بن عبداللہ کے تھے’ انگلی کا اشارہ محمد رسول اللہ(عادل) کا تھا ۔ محمد بن عبداللہ اور محمد رسول اللہﷺ ‘ ایک سینے میں جب یہ دونوں چیزیں جمع ہوں’ تو ان دونوں کے اندر امتیاز رکھنا یا ان میں امتزاج رکھنا جو ہے’ بڑی مشکل کا کام ہے ۔ یہ ہے پل صراط جسے کہا کرتے ہیں ‘ بال سے باریک اور تلوار سے تیز ۔ آنکھوں کے آنسو محمد بن عبداللہ کے تھے’ انگلی کا اشارہ محمد رسول اللہﷺ کا تھا ۔ وہی چیز ‘ داخلِ جہنم وہ میزانِ عدل کر رہی تھی’ يَا حَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ (36:30)۔ دیکھا! کہ یہ کس طرح سے خداوندی صفات اس ذاتِ اقدس و اعظمﷺ کے اندر امتزاجاً جمع ہوگئی ہوئی تھیں ۔ یہ ہے مومن ۔ یہ تھا ابراہیم ‘ لَأَوَّاهٌ حَلِيمٌ (9:114)بھی ہے’ باپ کی تباہی کو برداشت نہیں کرسکتا’ آخری وقت تک کوشش کیے جا رہا ہے’ بہرحال نہیں باز آ رہا’ تو جب یہ یہاں عدو اللہ ہے’ اپنے ساتھ اس کا جو باپ ہونے کا تعلق تھا’ وہ بدستور قائم ہے’ جب دیکھا کہ یہ اللہ کا دشمن اسی طرح سے رہا ہے’ تو اس وقت یہ پھر یہ کہا’ کہ نہیں صاحب! اب کوئی امید نہیں ہے’ اس کے بچنے کی ۔ عزیزانِ من! یہ ہے وہ اتنی عظیم حقیقت کہ جو اب آپ کے ہاں مسئلہ بن کے رہ گئی’ کہ نمازِ جنازہ کس کی پڑھی جائے گی’ اور کس کی نہیں پڑھی جائے گی ۔ نمازِ جنازہ نہیں’ یہ تو دنیا میں تعلقات کی بات ہے’ کہ آخر تک کوشش کرتے رہو تم’ کہ انسان اپنی غلط روش کی تباہی کے نقصان سے بچ جائے ۔ اس کی طرف سے سرکشی ‘ بغض ‘ عداوت ‘ گالیاں ‘ یہ کچھ بھی ہو’ تم اپنے دل میں نیک آرزوؤں کو ذاتی انتقام کی بنا پہ نہ بجھنے دو ۔ تم اس کو روشن رکھو’ لیکن جب تم یہ دیکھ لو’ کہ نہیں! وہ خدا کا دشمن ہوگیا ہے’ وہاں سے باز نہیں آ رہا’ پھر اس وقت تم یہ کہہ کے منہ موڑ لو’ کہ نہیں صاحب! اب کوئی توقع اس کی نہیں رہی ہے ۔ یہ ہے وہ مقام جو انبیائے کرامؑ کی زندگی میں ہجرت کہلاتا ہے ۔ ہجرت Escapism کا نام نہیں ہے’ یہ راہِ فرار نہیں ہے’ گھبرا کے بھاگ جانے والی بات نہیں ہے ۔ اس مقام پہ جہاں یہ دیکھا جاتا ہے’ کہ اب ان کی تو کوئی صورت امکانی ہے نہیں’ ان کی تباہی سے بچنے کی’ تو وہ پھر مریض کی بالی سے کسی معالج کا یہ کہہ کے اٹھ جانا’ کہ اب اثر کی ہمیں تو آس نہیں ۔ پوچھو نہیں مقام کیا ہوتا ہے ۔ معالج غصے میں نہیں اٹھتا’ انتقام میں نہیں اٹھتا’ وہ اس لیے اٹھ جاتا ہے’ کہ وہ سمجھتا ہے کہ اب علاج معالجے کا وقت باقی نہیں رہا ہے ۔ یہ ہجرت ہوتا ہے’ انبیاء کے مقام کے اندر ۔ اور ان کی تباہی کا پیش خیمہ ہوتا ہے’ جہاں سے یہ اٹھ کے چلا جاتا ہے ۔ اس مقام کی طرف چلا جاتا ہے’ جہاں اس کو امکان نظر آتا ہے’ دوسروں کی اصلاح کا ‘ جہاں سعیدروحیں ابھی ہوتی ہیں’ جوانتظار کر رہی ہوتی ہیں ۔ ایسے ایسے مریض جو ابتدائی مرض کے اندر ہوں’ اور وہ علاج کے لیے بے حد آرزو مند ہوں’ وہ وہاں چلا جاتا ہے ۔ یہ ہے اس کا چھوڑنا جوہے’ جسے آپ ہجرت کہتے ہیں ۔ عزیزانِ من! یہ ہے ۔ میں نے اس لیے عرض کیا’ کہ اس مسئلے کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے ۔ پوچھو نہیں ہماری تفاسیر میں پھر کیا کیا اس کے متعلق لکھا ہوا ہے ‘ وہ تو چلتا ہے قصہ ۔ چوں نہ بینند حقیقت رہے افسانہ زنند ۔ ابراہیمؑ نے مشرک باپ کے لیے استغفار کا وعدہ کیوں کیا تھا ۔ اس لیے کہ وہ مُلاں نہیں تھا ۔ وعدہ جب کرلیا تھا’ تو پھر اس کے بعد یہ چیز جو تھی’ کہ اس سے اس نے قطع کرلیا’ یہ کیوں کرلیا تھا ؟ اس لیے کہ وہ حضرت جی نہیں تھے ۔ وہ خدا کا رسول تھا’ اس نے انتہا درجے کی کوشش کرنی تھی’ اس کے لیے’ کہ کسی طرح سے یہ تباہیوں سے بچ جائیں ۔ اور جب آخر میں جا کے یہ دیکھا عَدُوًّا لِّلَّـهِ (2:98)کیا عجیب لفظ ہے قرآن کا ‘ اس میں ذاتی انتقام ‘ عداوت وغیرہ کا کوئی سوال نہیں ہے ۔ جب اس نے دیکھ لیا’ کہ نہیں صاحب! یہ خدا کے ساتھ دشمنی میں آخر تک پہنچ گیا ہوا ہے’ اس کے بچنے کی امید اب کوئی نہیں رہی’ یہ ہے وہ مقام جہاں اس نے آکے یہ بات کہی تھی ۔ حضرتِ ابراہیمؑ کی بات یہاں ختم ہوئی ۔
میں نے عرض کیا ہوا ہے’ کہ قرآنِ کریم کی سورتوں کی جو آخری آیات ہوتی ہیں’ اس میں یہ سارے انبیائے سابقہؑ ‘ اممِ گزشتہ کی ان داستانوں کو بیان کرنے کے بعد’ قرآنِ کریم پھر قومِ مخاطب کے لیے آجاتا ہے ۔ اب یہ سب کچھ بیان کرنے بعد نبی اکرمﷺ سے خطاب ہوجاتا ہے ۔ وَلَا تَحْسَبَنَّ اللَّـهَ غَافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ (14:42) اے رسول! تم نے دیکھ لیا جو کچھ پیچھے ہم نے کہا ہے’ تو اب یہ نہ سمجھ کہ تیرہ سال یہاں مکے میں ہوگئے’ کوئی تبدیلی ہی نظر نہیں آتی ان کی’ تو یہ کیا ہوگیا؟ خدا دیکھ نہیں رہا’ یعنی عام الفاظ میں تو یہ تباہی کیوں نہیں آ رہی ۔ اس کا خیال ‘ وہم و گمان بھی نہ کرو ۔ اور یہ جو چیز ہے’ یہ رسول اللہﷺ سے ہی نہیں کہا جاتا’ بلکہ ہر مخاطب سے کہا جاتا ہے’ ہر دور میں کہا جائے گا’ اس سے کہ جو اس دعوت کو لے کر اٹھے گا’ کہ اس سے گھبرا نہ جاؤ’ کہ لمبا عرصہ گزر گیا’ اتنی مدت گزر گئی’ کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک ۔ وہ کہتا ہے’ تیرے جینے اور مرنے کا سوال ہی نہیں ہے ۔ زلف نے تو سر ہونا ہے’ تو یہاں رہے نہ رہے’ مقصد زلف کے سر کرنے کا تھا’ نہ کہ یہ تیرے ہاتھ میں آجائے ۔ یہ روتا اس لیے ہے’ کہ میرے ہاتھ میں کیوں نہیں آئی ۔ کہا سوال ہی نہیں ہے۔ وہی سورۃ الرعد کی وہ آیت’ جو حضورﷺ نے کہا تھا’ کہ یا اللہ! اپنی آنکھوں سے بھی کچھ دیکھوں گا یا میری عمر انہی تکلیفوں میں گزر جائے گی ۔ وہاں یہ بات تھی زلف تو سر ہو کے رہے گی’ لیکن فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلَاغُ وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ (13:40) تیرے ذمہ تو اس بات کا پہنچائے چلے جانا ہے’ تُو اپنی فریضہ ادا کر’ یہ حساب ہمارے پاس ہے’ کہ تباہی کا وقت کب آتا ہے ۔ پہلے دن کی سگریٹ نوشی سے تپ دق نہیں ہوجایا کرتی’ ہم جانتے ہیں کہ کس مقام کے اوپر جا کے یہ ہوگی ۔ تیری ان چیزوں کے ساتھ کہ صاحب! میں دیکھوں گا یا نہیں دیکھوں گا’ تو یہ ہو نہیں سکتا کہ ہمارا جو قانون ہے کہ کتنی زہر جمع ہو’ تو تپ دق ہوا کرتی ہے’ ہم تیری خاطر اس کو بدل دیں’ کہ تُو تو تڑپتا دیکھ لے اس کو ‘ سوال نہیں ہے ۔ نہ ہی یہ چیز ہے کہ جو کچھ یہ کر رہا ہے’ یہ تپ دق اس کو ہوتی کیوں نہیں ہے ‘ یہ کہے کہ صاحب! یونہی کہہ گیا تھا’ بکواس ہے دیکھیے تو ہم اتنا عرصہ ہوگیا یہ پیتے ہیں’ یہ ڈاکٹروں کی بک ماری ہوئی ہے’ کہتے ہیں سرطان ہوگا’ کچھ بھی نہیں ہوا ۔ وَلَا تَحْسَبَنَّ اللَّـهَ غَافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ (14:42) یہ نہ سمجھ لیں کہ ہم بالکل بے خبر بیٹھے ہوئے ہیں ‘ ہمیں پتہ ہی نہیں چل رہا’ کہ کیا کر رہے ہیں ۔ إِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ (14:42) یہ مہلت کا وقفہ ہے’ پہلے دن کے سگریٹ میں اور آخری دن جب پھیپھڑے کا سرطان آجاتا ہے’ درمیان کا وقفہ جو ہے’ یہ مہلت کا وقفہ ہے ۔ اور بار بار قرآن یہ بتاتا ہے’ کہ کتنی بڑی ترحمِ خسروانہ تھی ہماری طرف سے’ جو مہلت کا وقفہ دیا’ ورنہ جو پہلے سگریٹ کے اوپر ہی سرطان ہوجاتا’ قرآن نے کہا ہے اس کرۂ ارض کے اوپر کوئی انسان باقی ہی نہ رہتا ۔ مہلت کا وقفہ درمیان میں دیا جاتا ہے’ کہ اب بھی باز آجاؤ ‘ اب بھی باز آجاؤ ۔ وہ ہے خَفَّتْ مَوَازِينُهُ (101:8) یہ نہیں ہے کہ اس میزان کے پلڑے میں پہلے دن برائی یوں آئی’ اور وہ جھک گیا ۔ دونوں پلڑے رکھے جاتے ہیں’ کونسا پلڑا جھکا ہوا ہے’ تعمیر کا پلڑا جھکا ہوا ہے’ تو تخریب کے پلڑے میں بھی تو پرچیاں پڑ رہی ہیں اس دن’ لیکن جس دن تخریبی پلڑا جھک گیا بس اس دن ہے جو نتیجہ نکلے گا ۔ إِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ (14:42) اور دیکھیے کہ یہ ہم اس کو مؤخر کیے چلے جا رہے ہیں’ اس وقت تک ۔ اب یہ جو کشمکش ہو رہی تھی’ مکے کی کشمکش کی زندگی پھر حضورﷺ تشریف لے گئے’ تو مدینے میں جا کے پھر یہ ابھر کر میدانِ جنگ میں آئی ہے یہ کشمکش جو تھی ۔ مکے کی زندگی تک یہ چیز نہیں تھی ۔ عزیزانِ من! آگے جو نقشہ کھینچا ہے’ دیکھیے کیا نقشہ ہے ۔ میدانِ جنگ میں مقابل میں آ کے شکست خوردہ جو مقابل کی فوج ہوتی ہے’ اس کی تباہی کا’ اس کی بھگدڑ کا’ جو نقشہ قرآن نے کھینچا ہے ۔ میں عرض کردوں کہ یہ جتنی بھی قرآنِ کریم میں اس قسم کی آیات ہیں’ جس میں اس تباہی ‘ بربادی کا’ جسے عذاب کہا جاتا ہے’ اس کا کچھ نقشہ کھینچا گیا ہے۔ تو یہ ٹھیک ہے’ اسے اگر آپ لینا چاہیں’ تو جسے آپ موت کے بعد قیامت اور جہنم وہ کہتے ہیں’ اس تک لے جائیے’ آپ کا جی چاہے تو وہ معنی کر لیجیے’ اور اگر اسی دنیا کے اندر جو نقشہ سامنے آتا ہے’ ان تباہیوں کا’ اسے لینا چاہیں’ تووہ بھی اس کے اندر سے یہ معنی نکلیں گے ۔ میں یہاں کے معنی لے لیا کرتا ہوں ۔ اُس سے ان میں انکار نہیں ہے’ وہ تو میں نے کہا ہے کہ وَمَن كَانَ فِي هَـٰذِهِ أَعْمَىٰ فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْمَىٰ (17:72) یہاں کا ذلیل وہاں کا بھی ذلیل ہوگا ۔ زندگی مسلسل چلتی ہے’ اس لیے ابتدا اس کی یہیں سے ہوجاتی ہے ۔ اور میں سمجھتا ہوں’ کہ یہ مکی زندگی کے اندر ابتدائی جو دور تھا’ اس میں یہ جو آنے والے نقشے تھے’ سات سال کے’ ان نقشوں کے متعلق قرآن نے یہ بتایا ہے۔ دیکھیے کن الفاظ میں ہے ۔ ہم نے مؤخر کر رکھا ہے’ اسے یہ جو کچھ اس ٹکراؤ میں یہ کہہ رہے ہیں ‘ سمجھ رہے ہیں’ کہ اللہ تو یا غَافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ (14:42) ظلم کرنے والے جو جی میں آئے کرتے چلے جائیں’ کوئی ان کو پکڑنے والا ہی نہیں ہے ۔ تو یہ نہ سمجھ لیں کہ پکڑنے والا ہی نہیں ہے’ ہم نے مؤخر کر رکھا ہے ۔ لِيَوْمٍ (14:42) دیکھیے گا کہ وہ دن کیسے آ رہا ہے ‘ کیا منظر کشی ہے! تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصَارُ (14:42) جب اس دن کیفیت یہ ہے’ کہ خوف سے ‘ ڈر سے ‘ انسان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی’ ڈھیلے باہر آجائیں گے ۔ مُهْطِعِينَ مُقْنِعِي رُءُوسِهِمْ (14:43) اور اس طرح سے میدان سے بھاگے چلے جائیں گے’ کہ ہوش ہی نہ ہوگا ۔ سر اٹھائے ہوئے ہیں’ نہ دائیں دیکھتے ہیں’ نہ بائیں دیکھتے ہیں’ سیدھ میں لگے چلے جا رہے ہیں’ کوئی ہوش حواس نہیں ہے ۔ لَا يَرْتَدُّ إِلَيْهِمْ طَرْفُهُمْ (14:43) کسی دوست کا ‘ کسی حامی کا’ ان کی طرف آنا’ تو ایک طرف رہا’ ان کی اپنی نگاہ جو آنکھ کے کاشانہ سے نکل جاتی ہے’ وہ بھی واپس نہیں لوٹتی ۔ واہ واہ! کیا عالم ہے بدحواسی کا ۔ کیوں یہ کچھ ہوا ہے؟ وَأَفْئِدَتُهُمْ هَوَاءٌ (14:43) ان کے دل امیدوں سے خالی ہوگئے ہیں ۔ کچھ بھی امید باقی رہے’ تو پھر بہرحال پلٹ کے تو آدمی پیچھے دیکھتا ہے’ کہ وہ دشمن کتنا ہے’ کتنی دور پیچھے آ رہا ہے’ آ بھی رہا ہے یا نہیں آ رہا’ ہم یونہی بھاگے چلے جا رہے ہیں ۔ کہتا ہے یہ کیفیت اس وقت پیدا ہوتی ہے’ جب دل امیدوں سے خالی ہوجاتا ہے ۔ پھر اس کی بھی ضرورت نہیں ہوتی’ کہ وہ پلٹ کے ہی دیکھ لیں’ کہ پیچھے کوئی آ بھی رہا ہے یا نہیں ۔ کیا بات ہے صاحب! یہ کہنے کے بعد پھر رسولﷺ سے کہا وَأَنذِرِ النَّاسَ يَوْمَ يَأْتِيهِمُ الْعَذَابُ (14:44) اس آنے والی تباہی سے آگاہ کرو ان کو ۔ تو گویا وہ ابھی دور ہے’ کہ جس کے اندر ابھی یہ أَنذِر جو ہے’ اس کا دور ہے ۔ ان کو آگاہ کرو اس سے’ کہ یہ کچھ تمہارے ساتھ ہونے والا ہے ۔فَيَقُولُ الَّذِينَ ظَلَمُوا رَبَّنَا أَخِّرْنَا إِلَىٰ أَجَلٍ قَرِيبٍ نُّجِبْ دَعْوَتَكَ وَنَتَّبِعِ الرُّسُلَ (14:44) کئی مقام میں یہ باتیں آتی ہیں ۔ وہ وقت کہ پھر’ اس وقت یہ کہیں گے کہ اے ہمارے خدا! اگر ایک دفعہ اور ہمیں موقعہ دیدے یہاں کا’ تو پھر تُو دیکھ کہ ہم کس طرح سے اپنی اصلاح کرتے ہیں’ کس طرح سے تیرے رسولوں کا کہنا مانتے ہیں ۔ کہا کہ مہلت کے وقفے کے دوران تو اس کا امکان تھا’ کہ یہ بچ جائے’ لیکن جب وہ موت آجائے’ تو پھر تو اس کا امکان نہیں رہتا ۔ اس وقت یہ حسرت ‘ موت کو ‘ تباہی کو سامنے دیکھنے کے بعد’ یہ حسرت ۔ اور اس میں ایک بڑا Psychological پہلو ہے ۔ یہ حقیقت میں صداقت پر ایمان نہیں ہوتا’ یہ موت کا ڈر ہوتا ہے’ جس سے انسان یہ کہتا ہے ۔ اسی لیے قرآن نے قصۂ فرعون میں بات جب وہ کہی ہے’ عجیب بات کہی ہے ۔ فرعون جب ڈوبنے لگا’ قرآن میں یہ ہے’ کہ اس وقت پھر فرعون نے یہ کہا’ کہ بارِ خدایا! میں ایمان لایا موسٰیؑ اور بنی اسرائیل کے خدا کے اوپر ایمان لاتا ہے ۔ اعلان ہے ایمان لانے کا ‘ قبول ہونا چاہیے ۔ کیا بات قرآن نے کہی ہے! فرعون سے کہا’ کہ اتنی بڑی قوتوں ‘ جبر اور استبداد اور شوکت اور عظمت اور دعاوی کا تو انسان تھا’ أَنَا رَبُّكُمُ الْأَعْلَىٰ (79:24) کہنے والا ۔ عام طور پہ سمجھا جاتا تھا’ کہ تیری خودی مستحکم ہے’ لیکن کیفیت یہ ہے کم بخت تیری بزدلی کی’ کہ موت سامنے دکھائی دی’ تو عمر بھر کے اپنے مسلک کے بعد توبہ کرکے کہہ رہا ہے’ کہ میں ایمان لایا ہوں ’’فٹے منہ تیرا ہور کچھ نہیں ہے ‘‘ ۔ یہ وہ چیز تھی’ کہ یہ ایمان ایمان نہیں تھا ۔ کہا یہ گیا تھا’ کہ ’’در کفر ہم پختہ نئی زنار را رسوا مکن‘‘ ۔ عزیزانِ من! یہ فرق ہوتا ہے ۔ یہ جو عام طور پہ بڑے بڑے جابر اور ڈکٹیٹر اور یہ کچھ بنے پھرتے ہوتے ہیں ۔ قرآن اس میں ایک بڑی بات سائیکولوجی کی کہہ گیا ہے ۔ یہ ان کا جو جبر ہوتا ہے’ ان کی جو قوت کا مظاہرہ ہوتا ہے’ خوف کا مظہر ہوتا ہے’ اندر دل میں ایک خوف ہوتا ہے’ ایک ڈر ہوتا ہے جس کی وجہ سے باہر یہ بھبکیاں مارتے ہیں’ جو فی الحقیقت قوی ہوتا ہے اس کو ضرورت نہیں ہوتی بھبھکی مارنے کی ۔ اسے قرآن حَلِيم کہتا ہے ۔ بھرپور توانائیوں والا اونٹ ‘ آ ہا ہا! کیا کیا الفاظ ہیں قرآن کے! ’’ آ ساہڈے تے حلیم ہیگا اے جنوں کہندے نیں حلیم ‘ آ اوندی اے محرم ہن ‘ حلیم ‘ پتہ ای نہ لگے پئی اے چھولیاں دی دال ہیگی اے یا کنک دا دانہ ہیگا اے ما دانہ ہیگا ‘‘ اور پھر حَلِيم ہمارے ہاں حلیم الطبع جسے کہتے ہیں کہ ’’کوئی ایدھر چپیڑ مار جائے تاں وی کچھ نئیں جے ایدھر مار جائے تاں وی کچھ نئیں ۔ او کہن لگا اخے ویکھ آیا ایں رشتہ ؟ کہن لگا میں لڑکی دا رشتہ ویکھ آیاں منڈا ایہڈا چنگا نظر آیا بڑا ہی شریف ہیگا میں دوکان تے ویکھ آیاں ‘ کہن لگا ٹھیک ہیگا ہے ۔ کہن لگا اوہدی حالت اے ہیگی اے پئی اوہنوں کوئی گاہک چار گالاں دے جاندا اے تے او تاں وی کچھ نئیں کہندا ۔ کہن لگا اوہدے کوئی چار پیسے مار کے لے جاندا اے تے تاں وی کچھ نئیں کہندا ہیگا ۔ کہن لگا اوہنوں اخے کوئی چپیڑ مار کے اوہدے کچھ کھو کے لے جاندا اے تاں وی کچھ نئیں کہندا ہیگا ۔ کہن لگا بھائی فیر ایتھے تے رشتہ نئیں او میں کرنا ۔ کہن لگا جی میں تینوں ایناں صفتاں دسیاں؟ کہن لگا کل نوں اوہدی کوئی بیوی لے گیا اوہنے تاں وی کچھ نئیں کہنا ۔ ساہڈے تے حلیم اینوں کیندے نیں ‘ ہو جا ککھ مسیت دا ‘‘ ۔ آپ کا تصوف پھر کیا کرتا ہے
ہم تھے پوت پٹھان کے دَل کے دَل دیں موڑ
شرن لگے رگوناتھ کے تنکا جائے نہ توڑ
یہ پھر آپ کے ہاں حلیمی آتی ہے ‘ خالص Christianity کا’ عیسائیت کا جو تصور ہے’ وہ وہ تصور آپ کے ہاں آجاتا ہے ۔ آپ کو معلوم ہے’ خدا کے لیے بھی صفتِ حَلِيم آئی ہے’ انسانوں کے لیے بھی آئی ہے ۔ یہ بڑی بلند صفت ہے ۔ اور اگر یہی صفت ہے’ تو یہ تو خالص عیسائیت کی بات ہے ۔ نہیں عزیزانِ من! ان سے پوچھو جن کی زبان میں یہ قرآن آیا ہے’ کہ یہ کیا کہتے ہیں ۔ یہ جو کمزور سے جانور ہوتے ہیں’ ہر وقت ان کے دل میں دھڑکا ہوتا ہے’ کہ یہ آیا ڈنڈا لے کے آیا ہمیں مارنے ‘ وہ کوئی بھی آئے اس کو مارنے کی پہل کرتے ہیں ۔ یہ ان کے اپنے اندر ایک خوف ہوتا ہے’ اس کے لیے یہ کرتے ہیں ۔ یہ کہتے تھے کہ ایک اونٹ جو بھرپور توانائیوں کا مالک ہو’ وہ بیٹھا ہوا ہے’ آنکھیں بند کیے ہوئے ہے’ بڑے مزے میں جگالی کر رہا ہے ۔ کہنے لگے وہ بچے آتے ہیں’ کوئی اس کی پیٹھ پہ چڑھ جاتا ہے’ کوئی گردن پہ سوار ہوجاتا ہے’ کوئی کان پکڑ لیتا ہے’ کوئی اس کی دم کھینچتا ہے ۔ کہنے لگے وہ ان تمام چیزوں سے مستغنی رہتے ہوئے’ اپنی جگالی میں مزے میں بیٹھا رہتا ہے ۔ اسے حلیم کہتے تھے وہ ۔ اپنی قوتوں کے اوپر اتنا اعتماد’ کہ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں جو ہیں یہ بچہ آ کے پیٹھ پہ چڑھ گیا’ کسی نے کان پکڑ لیا’ اس سے بپھر جانا’ یہ تو کہنے لگے کمزوروں کی نشانی ہے ۔ قوت اور اس میں پھر توازن ‘ اسے استحکامِ خودی کہتے ہیں ۔ خدا کے حَلِيم ہونے کے معنی یہ ہیں’ کہ وہ تمہاری طرح چھوٹی چھوٹی سی باتوں کے اوپر اوچھے پن پہ نہیں اتر آتا ہے ۔ بڑا حَلِيم واقع ہوا ہے ۔ جس کو اپنی گرفت کے اوپر یقین ہو’ وہ چھوٹی چھوٹی سی باتوں کے اوپر نہیں بپھر جاتا ۔ ابراہیمؑ کے متعلق کہا’ کہ حَلِيم تھا ‘ محمدﷺ کے متعلق کہا کہ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَأَوَّاهٌ حَلِيمٌ (9:114) تھا ‘ مومن کے متعلق کہا حَلِيم ہوگا ‘ خدا کے متعلق کہا’ کہ وہ حَلِيم ہوتا ہے ۔ کہا کہ یہ جو درمیانی عرصہ ہوتا ہے’ مہلت کا اس میں تو یہ ہے ۔ آپ نے دیکھا کہ فرعون کے اس اعلان پہ بھی’ کہ میں ایمان لایا’ میرا آپ کا جی یہی چاہے گا’ کہ اس کے بعد یہ کہا جاتا ’’شاباش ہے چلو مرن ویلھے ای سہی ایمان تے لے آندا تیری عاقبت تے بخیر ہوگئی ‘‘ ۔ کیا تقابل ہے ۔ ایک طرف فرعون تھا’ کہنے لگا’ تُو وہ تھا جو کہتا تھا أَنَا رَبُّكُمُ الْأَعْلَىٰ (79:24) وہی ہے تُو ’’او فٹے منہ تیرا ‘‘ موت سامنے دیکھ کے اور اس کے بعد اپنے اس مسلک سے پھرنا’ یہ صداقت کا اعتراف نہیں ہے’ موت کا ڈر ہے ۔ عزیزانِ من! ایمان تو کسی ڈر سے بھی لایا جائے’ وہ اکراہ فی الدین ہوجاتا ہے ۔ بطیب خاطر نہیں ہے’ وہ ڈر موت ہی کا ڈر کیوں نہیں ہو ۔ اور قرآن کے لیے ‘ اس ایمان کے لیے اسی لیے عربوں جیسی قوم کا انتخاب ہوا تھا’ کہ اگر وہ واقعہ تاریخ کا صحیح ہے’ اور مجھے عربوں کے کریکٹر کے اعتبار سے صحیح نظر آتا ہے’ کہ نبی اکرمﷺ نے اپنے چچا ابو طالب کو جب ان کی وفات کے وقت میں یہ کہا’ کہ چچا جان! آپ نے تو میری زندگی دیکھ لی’ میرا پیغام بھی دیکھ لیا ۔ ٹھیک ہے اس کا اعتراف کر لیجیے’ اس چیز کے متعلق جو کہا گیا ہے ۔ ابو طالب نے یہ بات کہی’ کہ جانِ پدر! ٹھیک ہے میں نے یہ سارا کچھ دیکھ لیا’ لیکن اگر اس وقت میں اعلان کروں گا’ تو یہ پھر یہ قریش کہیں گے’ کہ ابو طالب نے موت کے ڈر سے ایمان قبول کرلیا’ اس لیے مجھے جانے دو اسی روش کے اوپر ۔ یہ شخص فرعون سے کہیں اونچا چلا گیا ۔ یہ ہے وہ چیز ۔ وفاداری بشرطِ استواری’ اصل ایماں ہے ۔ کہا کہ جب وہ موت سامنے آئے گی’ کہ تو یہ کہیں کہ بارِ خدایا! اگر پھر یہ مواقع ہمیں حاصل ہوجائیں’ تو ہم یہ کریں’ ہم اچھے بنیں گے ۔ کئی مقامات کے اوپر یہ سب کچھ آیا ہے ۔ کہنے لگے کہ کیا تمہیں بار بار یہ نہیں کہا جاتا تھا’ کہ اس کے بعد یہ ہوگا’ تم نے ایک نہ سنی ۔ اب جب یہ ہوچکا ہے’ اور پھر یہ کہنا جو ہے’ اس کا کچھ حاصل نہیں ہے ۔ أَوَلَمْ تَكُونُوا أَقْسَمْتُم مِّن قَبْلُ مَا لَكُم مِّن زَوَالٍ (14:44) کہا تمہاری کیفیت یہ تھی’ کہ حریمِ کعبہ میں کھڑے ہو کے’ قسمیں کھا کھا کے کہا کرتے تھے’ کہ یونہی یہ کچھ کر رہے ہیں ‘ ہمیں زوال نہیں آسکتا ۔ تم تو قسمیں کھا کھا کے کہا کرتے تھے’ اب دیکھا ہے کہ موت کا ڈر جو ہے’ اس سے تم کیا کچھ کر رہے ہو ۔ اس کے بعد وہ دلائل دہراتا ہے ۔ کہتا ہے تمہیں یہ بتایا جا رہا تھا’ یہی بات نہیں تھی’ کہ ہم تجریدی طور پر Theoratically (نظری طور پہ ) یہ باتیں تمہیں کہتے تھے’ کہ تمہاری اس روش کا یہ انجام ہوگا ۔کہا تمہارے سامنے تاریخی شواہد ہم پیش کیا کرتے تھے’ کہ یہ جو تم دن رات ان راستوں پہ چلتے ہو’ راستے میں تمہارے یہ اجڑی ہوئی بستیاں آتی ہیں’ موہن جوداڑو کی’ اور ہڑپہ کی ۔ وَسَكَنتُمْ فِي مَسَاكِنِ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ (14:45) تم انہی لوگوں کے گھروں میں بسے ہوئے تھے’ ان گھروں میں وہ لوگ بستے تھے’ جو تم سے زیادہ شدت کے ساتھ’ شدید قوت رکھتے تھے ۔ اور ہم تمہیں یہ کہتے تھے’ کہ جب وہ اپنی اس غلط روش کی بنا پہ ان گھروں میں نہ رہے’ یہ سلطنتیں ان سے چھن گئیں’ یہ مملکتیں ان سے چلی گئیں’ جن کے تم وارث ہوئے ہو’ تو کیا یہ بات منطقی نہیں ہے’ کہ تم بھی وہ کچھ کرو گے’ تو یہ تم سے بھی چھن جائے گی ۔ کیا Logicہے قرآن کا! میں نے کہا ہے کہ محض Theoratical گفتگو نہیں کرتا’ تاریخی شواہد پیش کرتا ہے ۔ اسی لیے اس نے تاریخ کو اس نے اہمیت دی ہے ۔ کہا ہے کہ ہم نے تمہاری طرف قرآن نازل کیا’ اور تاریخی شہادتیں نازل کیں ۔ یہ تو منزل من اللہ ہوتی ہیں ۔ کیا بات یہاں کہی ہے’ کہ قسمیں کھایا کرتے تھے’ اور ہم تم سے کہا کرتے تھے’ کہ اور باتوں کو تو چھوڑو’ یہ دیکھ لو کہ یہ مملکت جس کے تم مالک بنے ہوئے ہو’ اور صاحبِ اقتدار ہو اور اس کی بنا پہ تم اتنے اتنے بڑے جبر و استبداد کے دعاوی کر رہے ہو’ یہ کل کسی اور کی تھی’ اس سے چھینی ہے’ تمہارے قبضے میں آئی ہے ۔ اس سے کیوں چھن گئی تھی؟ وہ تم سے زیادہ قسمیں کھایا کرتے تھے’ تم سے زیادہ جابر تھے’ یہی کچھ انہوں نے کیا تھا ۔ تو کیا یہ اس کا منطقی نتیجہ نہیں’ کہ جو ہم کہہ رہے ہیں’ کہ تم وہی کچھ کرو گے’ تو یہی کچھ تمہارے ساتھ ہوگا ۔ وَسَكَنتُمْ فِي مَسَاكِنِ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنَا بِهِمْ (14:45) اور ہم واضح طور پہ تمہیں بتایا کرتے تھے’ کہ ان کی روش کا نتیجہ کیا ہوا ۔ وَضَرَبْنَا لَكُمُ الْأَمْثَالَ (14:45) اور مختلف قسم کی شہادتیں ‘ واقعات ‘ داستانیں ہم تمہارے سامنے پیش کیا کرتے تھے ‘ مثالیں دے دے کے بھی تمہیں سمجھایا کرتے تھے ۔ وَقَدْ مَكَرُوا مَكْرَهُمْ وَعِندَ اللَّـهِ مَكْرُهُمْ (14:46) اس کے باوجود وہ چالیں چلتے رہے ۔ بجائے اس کے کہ غلط روش اور نظام کو چھوڑیں’ وہ تو وہی رکھا بدستور’ اور اپنے آپ کو فریب دے کے’ اسکی تباہی سے بچنے کے لیے چالیں چلتے رہے ‘ تدبیریں کرتے رہے ۔ بھول گئے’ کہ خدا کا قانون بھی تدبیریں جانتا ہے ۔ قرآن میں دوسرے مقام پہ ہے’ کہ یہ تدبیریں کرتے رہے’ یہ رخنہ بند کردو’ یہ سوراخ بند کردو ۔ کہنے لگے تباہی اس مقام سے آئی جو ان کے وہم و شعور میں بھی نہیں تھا’ کہ یہاں سے بھی آیا کرتی ہے ۔ وَعِندَ اللَّـهِ مَكْرُهُمْ وَإِن كَانَ مَكْرُهُمْ لِتَزُولَ مِنْهُ الْجِبَالُ (14:46) انہوں نے اپنے ذہن میں سمجھا ہوا تھا’ کہ بس اب کے ایسی پلاننگ ہم نے کرلی ہے’ کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ہل جائیں گے’ ہم نہیں ہل سکتے ۔ یہ تھا اپنے ذہن کے اندر ‘ یہ بھی ہم نے مار لیا ‘ وہ بھی ہم نے کرلیا ۔ فَلَا تَحْسَبَنَّ اللَّـهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ (14:47) کہیں اس ان سے کہہ دو زعمِ باطل کے اندر گرفتار نہ ہوجانا’ کہ خدا جو اپنے رسولوں سے وعدہ کیا کرتا ہے’ وہ پورا نہیں ہوا کرتا ‘ محض مہلت کا وقفہ ہے ۔ إِنَّ اللَّـهَ عَزِيزٌ ذُو انتِقَامٍ (14:47) عزیز ‘ بڑی قوت والا ہے ۔ پھر یہ انتقام کا لفظ جو ہے’ یہ اردو کا نہیں ہے’ یہ عربی کا لفظ ہے ۔ یہ جو چرواہے بھیڑوں کو ایک راستے کے اوپر لیے چلے جاتے ہیں’ تو چلانا ہوتا ہے سیدھے راستے کے اوپر ‘ ان میں سے بکھر کے کچھ ادھر چلی جاتی ہیں’ کچھ اُدھر چلی جاتی ہیں ‘ وہ کیا کرتا ہے ؟ لٹھ اس کے پاس ہوتی ہے ادھر جاتا ہے’ ان کو دو تین مارتا ہے لاتا ہے راستے کے اوپر ‘ اِدھر جاتا ہے ان کو مارتاہے یوں لاتا ہے ۔ اس طرح سے یوں بگڑنے والی بھیڑوں کو اس راستے کے اوپر لے آنا جو ہے’ اسے وہ انتقام کہتے تھے ۔ ذُو انتِقَامٍ (14:47) جو یوں راستے کے درمیان میں نہیں چلا کرتے’ وہ ان کو پھر لٹھ کے ذریعے سے لاتا ہے ۔ عزیز بڑی قوتوں کا مالک ہے ۔ کہا ان سے کہہ دو وہ دور آنے والا ہے ۔ عزیزانِ من! یہ سننے کی باتیں ہیں’ آخری آیتیں آ رہی ہیں ۔ کہا یہ اس وقت دیکھ رہے ہیں’ کہ کس قدر کمزور ‘ ناتواں ‘ بے کس ‘ بے بس’ یہ ایک جماعت ہے ‘ مٹھی بھر تعداد بھی اتنی ہے ‘ وطنوںکو چھوڑ کے بھاگ گئے’ یہ سب کچھ ۔ ان ٹکراؤ کی باتیں کر رہے ہیں ‘ کہتا ہے یہ ٹکراؤ جو ہے قرآن نے کہا’ یہ ٹکراؤ ہونگے’ یہ تصادمات ہونگے’ یہ تم چالیں چلو گے’ ان چالوں کا جواب ہوگا’ یہ سارا کچھ ہوگا ۔ اور اس کے بعد انجام کیا ہے؟ سنیے حفیظ صاحب ! يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ وَالسَّمَاوَاتُ (14:48) یہ زمین بدل جائے گی یہ آسمان بدل جائے گا’ یہ نظام الٹ کے رہ جائے گا ۔ يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ وَالسَّمَاوَاتُ (14:48) ۔ عزیزانِ من! اس شکوہ و شان کے ساتھ اور کون کہے گا’ یہ زمین بدل جائے گی ۔ یہ ہماری بعد کی شاعری ہے جو اس کو استعمال کرتے ہیں ۔ قرآن نے اس انداز سے یہ کہا ہے’ کہ یہ زمین بدل جائے گی’ غَيْرَ الْأَرْضِ وَالسَّمَاوَاتُ (14:48) بدل کے فنا نہیں ہوجائے گی’ اس زمین کی جگہ دوسری زمین آجائے گی’ اس آسمان کی جگہ دوسرا آسمان آجائے گا ۔ وَأَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّهَا (39:69) کونسی وہ زمین ہوگی؟ وہ زمین کہ جو خدا کے نور سے جگمگا رہی ہوگی ۔ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ وَالسَّمَاوَاتُ (14:48) عزیزانِ من! انقلاب کے لیے یہ الفاظ استعمال کرنا’ اس دور میں قرآن ہی کا کام تھا ۔ یہ زمین بدل جائے گی’ یہ آسمان بدل جائے گی ۔ یہی وہ چیز تھی جو اقبالؒ نے کہی تھی انقلاب کے لیے عزیزانِ من! اس کی یہ زبورِ عجم کی نظم بڑی عجیب تھی ۔
یا بکُش در سینۂ ما آرزوئے انقلاب
یا تو تُو میرے سینے کے اندر یہ جو انقلاب کی آرزو ہے’ اس کو ختم کردے اور یا
یا دگرگوں کُن نہادِ ایں زمان و ایں زمیں
یا چُناں کُن یا چُنیں
اور یا پھر یہ زمین بدل دے’ یہ آسمان بدل دے’ یا یہ کر یا وہ کر ۔ یہ جو بین بین مجھے رکھا ہے’ سینے میں آرزوئے انقلاب بھی ہے’ زمین بھی وہی ہے’ آسمان بھی وہی ہے ۔
نہ وہ بدلا نہ دل بدلا نہ دل کی آرزو بدلی
میں کیسے اعتبارِ انقلاب آسماں کرلوں
وہ کہتا ہے کہ یہ نہیں ہوتا’ اور کچھ نہیں تو یہ آرزو ہی بدل دے ۔ یہ بھی تو ان کے ہاں یہاں نہیں ہوسکتا ‘ یہ بھی مشکل ہے کہ تجھ پہ قابو نہیں دل پہ تو ہے قابو ۔ قرآن سمجھ میں آتا ہے’ تو دل پہ قابو نہیں رہتا’ پھر یہ آرزوئیں نہیں مرتیں’ آدمی اسی تڑپ میں مر جاتا ہے ۔ یا بکُش ‘ کس قدر چیخ ہے جو اس کے سینے سے نکل گئی ہے کہ
یا بکُش در سینۂ ما آرزوئے انقلاب
یا دگرگوں کُن نہادِ ایں زمان و ایں زمیں
یا چُناں کُن یا چُنیں
وہ جو شعر میرے سامنے اندر لگا ہوا ہے
فقر بخشی؟ با شَکوہِ خسروِ پرویز بخش
یا عطا فرما خرَد با فطرتِ روح الامیں
یا چُناں کُن یا چُنیں
عجیب چیز ہے ۔ بہرحال! بات یہ کہہ رہا تھا’ کہ ان سے کہہ دو کہ تم جو کہہ رہے ہو کہ یونہی مذاق ہو رہا ہے خدا کو علم ہی نہیں ہے’ غافل ہو رہا ہے کچھ نہیں ہوگا ۔ کہا وہ انقلاب آئے گا’ کہ اس زمین کی جگہ دوسری زمین آجائے گی’ آسمان کی جگہ دوسرا آسمان آجائے گا ۔ وَبَرَزُوا لِلَّـهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ (14:48) ایک خدا کا قانون ہوگا’ اور وہ قانون اس الْقَهَّارِ کا ۔ یہ جو گوشت ہمارے ہاں گلتا نہیں ہے اور اس گوشت کو پھر خاص طور پہ کچھ پپیتا ذرا سا ڈالو ‘ سوڈا ڈالو ‘ یہ کچھ کرو ۔ اس کو جب گلایا جاتا ہے’ اس کو کیا کہتے ہیں؟ اتنے سخت گوشت کے بنے ہوئے یوں گلا دیا جائے گا ۔ وَبَرَزُوا لِلَّـهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ (14:48) اس وقت تو یہ کیفیت ہے’ تمہاری کوئی یوں چھپ گیا’ کوئی یوں چھپ گیا’ کوئی بلوں میں گھس گیا’ بَرَزُوا نمایاں ہو کے اس عدالت کے سامنے سارے آجاؤ گے’ اور عدالت ہوگی خدائے الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ (14:48) کی ۔ یہ ہوگا’ یوں یہ زمین بدلے گی’ یوں یہ آسمان بدلے گا ۔ عزیزانِ من! زندگی کا اعتبار نہیں ‘ میرا ایمان ہے’ قرآن کی رو سے’ اس کرۂ ارض پہ یہ نظام قائم ہوگا’ یہ زمین بدلے گی’ یہ آسمان بدلے گا’ یہاں بدلے گا ۔ اور پھر اس کے بعد یہ جو بڑے بڑے بنے پھرتے ہیں وَتَرَى الْمُجْرِمِينَ يَوْمَئِذٍ مُّقَرَّنِينَ فِي الْأَصْفَادِ (14:49) کیا نقشہ کھینچا ہوا ہے! یہ بڑے بڑے فراعنۂ دہر اور نماریدِ عصر بنے پھرتے ہیں’ تُو دیکھے گا ان کو’ ہتھکڑیوں کو جکڑے ہوئے چلے آئیں گے ‘ اکیلا اکیلا نہیں’ ایک کی ہتھکڑی دوسرے کے ساتھ’ دوسرے کی تیسرے کے ساتھ ‘ یہاں بھی اکٹھے تھے’ آؤ جناب! پوری کی پوری کابینہ چلی آ رہی ہے۔ مُّقَرَّنِينَ فِي الْأَصْفَادِ (14:49) او بھئی! فِي الْأَصْفَادِ (14:49) ٹھیک ہے ‘ نہیں! ایک تو اکیلا مجرم آتا ہے’ ہتھکڑی میں جکڑا ہوا ‘ پورے کا پورا گروہ سارے کا سارا ڈاکوؤں کا’ وہ ان کو اکٹھی ہتھکڑیاں مارا کرتے ہیں’ ایک کے ساتھ دوسری ہوتی ہے ۔ کہتا ہے یوں کیفیت ہوگی تمہاری ۔ سَرَابِيلُهُم مِّن قَطِرَانٍ وَتَغْشَىٰ وُجُوهَهُمُ النَّارُ (14:50) بڑی بڑی زرہیں حفاظت کے لیے پہن رکھی ہیں’ کہ کسی قسم کا کوئی تیر آئے’ تلوار آئے’ اثر ہی نہیں کرسکتے ۔ تشبیہ ملاحظہ ہو ۔ کہنے لگے یہی زرہیں ہم اتاریں گے نہیں ‘ ان کی کیفیت یہ ہوگی’ کہ ان کی آتشِ دروں سے یہ پگھل کر یوں چپک جائیں گی’ جیسے تارکول چپک جاتا ہے’ انسان کے بدن کے ساتھ ۔ ہم یہ اتاریں گے نہیں ‘ ان کے اندر بھڑکنے والی آگ سے یہ زرہیں یوں پگھل جائیں گی’ اور اس کے بعد یوں چپک جائیں گی’ جیسے پگھلا ہوا تارکول چپک جاتا ہے ۔ آجکل وہ ایک نیا بم نکلا ہے’ وہ جو کہتے ہیں تارکول کی طرح چپک جاتا ہے ۔ یہ ہے قرآن نے جو یہاں قَطِرَانٍ کہا ہے ۔ یوں خود تمہاری اپنی زرہیں جو ہیں’ یہی اس طرح سے پگھل کے چپک جائیں گی ۔ میں کہتا ہوں یہ عذاب کی شکل ملاحظہ فرماؤ! تارکول پگھلا ہوا جو کسی کے اوپر چپک جائے’ پوچھو نہیں اس پہ کیا ہو ۔ کوئی مداوا اس کا ‘ کوئی حفاظت کا سامان اس سے ہوسکتا ہے؟ کہنے لگا تمہاری اپنی خرابی ہے’ بڑی بڑی زرہیں تم نے بنا رکھی تھیں وُجُوهَهُمُ النَّارُ (14:50) کہتا ہے زرہیں تو یہاں تک ہوتی ہیں’ یہ تو سارا کچھ پگھل جائے گا’ چلو جی! چہرے بچ جائیں گے ۔ کہنے لگا اس سے جو شعلے اٹھیں گے’ اس سے چہرے جھلس جائیں گے ۔ بھئی یہ کیوں ہوگا ‘ یہی کچھ تم جو آج کر رہے ہو’ یہ اس لیے ہوگا’ کہ خدا کے ہاتھ میں اب قوت آگئی ہے ‘ خدا والوں کے ہاتھ میں قوت آگئی ہے’ تو جو کچھ تم کیا کرتے تھے’ وہی کچھ یہ کریں گے ۔ کہا لِيَجْزِيَ اللَّـهُ كُلَّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ (14:51) یہ اس لیے ہے تاکہ خدا کا قانون ہر شخص کو اس کے اعمال کا بدلا دیدے ۔ یہ کسی کے خلاف ظلم نہیں ہوگا ‘ استبداد نہیں ہوگا ۔ تم نے جو کیا تھا اس کا انتقام ہے ۔ جو طاقت میں آتا ہے’ اس سے پہلے والے جو ہوتے ہیں’ وہ پوچھو نہیں’ ان کے ساتھ کیا کچھ کر رہا ہوتا ہے ‘ یہ اس لیے نہیں ۔ لِيَجْزِيَ اللَّـهُ كُلَّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ (14:51) یہی ہوگا’ بہت تیز ہیں ہم حساب کرنے میں ‘ حساب کے مطابق ہوگا ۔ لِيَجْزِيَ اللَّـهُ جزا تو اس کے معنی ہیں’ جو عمل کے اندر جو اس کا نتیجہ پوشیدہ ہوتا ہے ۔ یہ باہر سے ہم نہیں کوئی تمہیں سزا دیں گے’ تمہارے اعمال خود یہ کچھ بن جائیں گے ۔ تمہاری تہذیب اپنے ہاتھوں سے آپ ہی خودکشی کرے گی ۔ عزیزانِ من! یہ سب کچھ کہنے کے بعد ‘ سنیے اور جھوم جائیے هَـٰذَا بَلَاغٌ لِّلنَّاسِ (14:52) بَلَاغ کا لفظ جو آیا ہے’ بڑا جامع لفظ ہے ۔ یہاں سے یہ ’’تبلیغ‘‘ کا لفظ ہے’ یہاں سے ’’بلغ‘‘ کا لفظ ہے ۔ بَلَاغٌ لِّلنَّاسِ اس کے لفظی معنی تو ہیں پہنچا دینے والے ‘ کیا کیا بڑی چیز اس کے اندر ہے’ یعنی یہ تمام تذکار اس لیے ہیں’ کہ جن کو اگر انسان نگاہوں کے سامنے رکھے’ تو یہ چیزیں انسانیت کو اس کی منزل تک پہنچانے کے لیے کافی ہوجائیں گی ۔ بلاغ اس معنی میں بھی آجاتا ہے ۔ بلاغ اگر تبلیغ کے معنی میں ہیں’ بڑی عظیم چیز ہے ۔ جی! اسلام کی تبلیغ کر رہے ہیں ’’ کلمہ پڑھ صحیح نہیں ہیگا’ ل تے زبر ہیگی’ اے زیر نئیں ہیگی’ ایہدے تے مد ہیگی’ اے شد نئیں ہیگی ‘‘ یہ کچھ تبلیغ ہو رہی ہوتی ہے ۔ عربوں کے ہاں پانی کی تو بڑی کمی ہوتی تھی’ صحراؤں کا سفر ہوتا تھا ۔ کہیں کہیں نخلستانوں میں انہوں نے کنویں کھود رکھے ہوتے تھے ۔ ہمارے ہاں بھی عام طور پہ ان علاقوں میں جہاں نہریں ابھی نہیں گئی تھیں’ کنوؤں کے پانی گرمیوں میں خشک ہوکے نیچے ہوجاتے تھے’ تو معلوم ہی نہیں ہوتا تھا’ کہ وہ کونسا کنواں ہے جس میں اتنا پانی نیچے ہوجائے گا ۔ کنوؤں کے اوپر انہوں نے یہ ڈول اور رسیاں تو رکھی ہوئی ہوتی تھیں’ لیکن وہ تو ایک ماپ کے مطابق ہوتی تھیں ۔ یہ جو آپ نے دیکھا ہے عرب اپنے سر کے اوپر وہ رسی لپیٹ لیتے ہیں’ تو اب تو یہ ایسے نظر آتا ہے’ جیسے وہ سر کو باندھا ہوا ہے’ کہ کہیں بھاگ نہ جائے ۔ یہ بڑے کام کی چیز ہوتی تھی’ یہ ایک لمبی سی رسی لپیٹ رکھتے تھے’ کہ جب وہاں گئے اور کنویں میں دیکھا’ کہ وہاں کا جو ڈول ہے’ وہ وہاں پہنچتا نہیں ہے’ تو یہ اپنی رسی اس کے ساتھ باندھتے تھے’ کہ جو کمی رہ گئی ہے پانی تک پہنچنے میں’ وہ کمی پوری ہوجائے’ اور وہ ڈول پانی تک پہنچ جائے’ اس عمل کو ’’تبلیغ‘‘ کہتے تھے ۔ کسی شخص میں بات تک پہنچنے کی جو کمی رہ گئی ہے’ اپنی رسی سے وہ کمی اس کی پوری کر دی جائے’ اسے ’’تبلیغ‘‘ کہتے ہیں ۔ ’’ ڈول گز تے تہاڈی اپنی ہونی چاہیدی ہیگی اے ‘‘ وہ جو اس میں کمی رہ گئی ہے ۔ عزیزانِ من ! یہ قوم بلا تھی ۔ هَـٰذَا بَلَاغٌ لِّلنَّاسِ (14:52) ٹھیک ہے’ عقل و فکر کی رو سے بھی انسان پہنچنا چاہتا ہے’ لیکن ایسے حقائق بھی تو ہیں’ کہ جو وہ جو عام ان کے ہاں کی ہاں لج اور ڈول کی طوالت ہے’ عقل و فکر کی حد جو ہے’ اس سے گہرے چلے جاتے ہیں’ تو اس میں پورا کرنے کے لیے’ ہم نے یہ ساتھ ایک رسی دیدی ہوئی ہے’ کہ اسے اس کے ساتھ باندھ لو’ تمہارا ڈول پانی تک پہنچ جائے گا هَـٰذَا بَلَاغٌ لِّلنَّاسِ (14:52) ’’عزیزانِ من! جناں کول اپنی لج رسی نئیں ہیگی’ اوہناں نوں اے بلاغ نے کی کم دینا‘‘ ۔ بَلَاغٌ لِّلنَّاسِ وَلِيُنذَرُوا بِهِ (14:52) اور تاکہ اس کے ذریعے سے تو ان کو آگاہ کردو’ کہ یوں خطرہ آنے والا ہے’ یا راستے میں اس قسم کے کنویں آئیں گے’ جن میں ممکن ہے’ پانی تک پہنچنے کے لیے وہاں کی رسی کافی نہ ہو’ ساتھ ایک رسی رکھ لو ۔ وَلِيَعْلَمُوا أَنَّمَا هُوَ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ (14:52) تاکہ یہ معلوم ہوجائے’ کہ کہنے والا وہ صاحبِ اقتدار ہے’ کہ جس کے سوا کوئی صاحبِ اقتدار نہیں ہے ۔ تاکہ ان کو معلوم ہوجائے وَلِيَذَّكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ (14:52) انہیں بھی’ اور جو جو بھی اربابِ عقل و بصیرت دنیا میں بستے ہیں ۔ الْأَلْبَابِ ‘ لبِ لباب جس کو عقل کا کہتے ہیں ۔ جو جو جہاں جہاں بھی اربابِ علم و بصیرت و فہم و تفکر و تدبر و شعور بستے ہیں’ ان کے سامنے واضح طور پر یہ حقیقت آجائے’ کہ اس روش کا نتیجہ ہوگا’ اُس روش کا نتیجہ یہ ہوگا ۔
عزیزانِ من! سورۃ ابراھیم آج ختم ہوگئی وقت بھی ختم ہو رہا ہے ۔ آئندہ اتوار کو ہم سورۃ الحجر شروع کریں گے 15 ویں سورۃ ۔
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ الر ۚ تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ وَقُرْآنٍ مُّبِينٍ (15:1) خدائے علیم و رحیم کا یہ فرمان ہے’ کہ یہ تو ایک ضابطۂ قوانین کی آیات ہیں’ دفعات ہیں’ آرٹیکلز ہیں’ جو تمہارے سامنے پیش کی چلی جا رہی ہیں ۔ اور جو بات پیچھے چلی آ رہی تھی’ کہ ان سے کہہ دیجیے اس زعمِ باطل میں مبتلا نہ رہیں’ کہ یہ نہیں ہوگا رُّبَمَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْ كَانُوا مُسْلِمِينَ (15:2) یہ آئندہ اتوار کو ہم لیں گے ۔
رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّاط اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
|…|…|