جاوید احمد غامدی اور غلام احمد پرویز تقابلی جائزہ

جاوید احمد غامدی اور غلام احمد پرویز کے خیالات میں بے حد یکسانیت پائی جاتی ہے۔ اگرچہ غامدی صاحب نے اکتوبر 1989 میں اپنے ایک طویل لیکچر میں قدرے سخت الفاظ میں پرویز صاحب کے تراجم کی غلطیاں واضح کیں اور یہ وضاحت کی کہ وہ اور اصلاحی صاحب پرویز صاحب کے انداز فکر کو کیوں درست نہیں سمجھتے۔
لیکن جب غامدی صاحب اور پرویز صاحب کے فکر کا تجزیہ کیا جائے تو دوںوں اصولی طور پر ایک ہی قسم کی بات کہہ رہے ہوتے ہیں۔ کوئی بھی موضوع اٹھا لیں ایسا لگتا ہے کہ غامدی صاحب اصولی طور پر تو وہی بات کہتے ہیں جو پرویز صاحب کہتے ہیں البتہ جب جزئیات پر بات آتی ہے تو دونوں کی فکر میں اختلاف پیدا ہو جاتا ہے۔
ایسا واضح طور پر نظر آ رہا ہوتا ہے کہ دونوں ایک ہی اصول کے تابع بات کر رہے ہیں صرف اطلاق کا فرق ہے۔ جن عنوانات میں دونوں میں مطابقت پائی جاتی ہے وہ درج ذیل ہیں:
قران کی روشنی میں حدیث کر پرکھنا۔ دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ حدیث کو قران کی روشنی میں دیکھ کر اس کی صحت کا فیصلہ کیا جانا چاہیے اور دونوں اپنی تحریروں اور تقاریر میں حدیث کو قرآن کی روشنی میں پرکھنے کا دعوی کرتے ہیں۔
ابتدائی مسلم تاریخ کو دونوں ایک ہی حیثیت دیتے ہیں۔ اور اس کی حیثیت کو غیر روایتی نظر سے دیکھتے ہیں۔
دونوں ہی اقبال کے فکر سے روشنی کا دعوی کرتے ہیں اور علامہ اقبال صاحب نے اپنے خطبات میں جو اسلامی فقہ کی تعمیر نو پر زور دیا تھا، اس کی روشنی میں اپنے علم کو پیش کرتے ہیں کہ ہم وہی کر رہے ہیں جو اقبال صاحب نے فرمایا تھا۔
قرآن کو محاورہ عرب کی مدد سے سمجھنے پر اصرار، قرآن کے وہی معنی قبول کرنا جو دور رسالت میں عرب میں رائج تھے۔ بعض جگہ تو پورے فقرے اور اصطلاحات جو غامدی صاحب نے استعمال کی ہیں وہ بھی پرویز صاحب کی ہیں۔ مثلا "الفاظ کے شیڈ" یہ اصطلاح بھی غامدی صاحب بہت استعمال کرتے ہیں یہ بھی پرویز صاحب کی اصطلاح ہے۔

غلام احمد پرویز اور غامدی صاحب دونوں محاورہ عرب سے قرآن سمجھنے پر زور دیتے ہیں۔ لیکن دونوں کی تقاریر اور کتابوں میں آپ کو گنتی کے چند شعر ہی ملیں گے۔ اگر کوئی کلاسیکل عربی سے قرآن کو سمجھ تھا ہے تو اسے تو کلاسیکل عربی کے شعر ہر مشکل لفظ کے مفہوم کو واضح کرنے کے لیے بار بار اپنے کلام میں استعمال کرنے چاہئیں۔

تخلیق آدم
انسان کی تخلیق
اور ابلیس کا تنازعہ ہو یا اس کے بعد آدم کی معافی اور شیطان کا اکڑنا اس میں دونوں کی ایک جیسی ہی رائے ہے۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ غامدی صاحب پرویز صاحب کو فکر ہی ذرا زیادہ عام فہم اور قابل قبول الفاظ میں بیان کر رہے ہیں۔ 
معراج کے متعلق بھی دونوں یہی نظریہ رکھتے ہیں کہ یہ خواب تھا۔ تاہم جزئیات میں دونوں کے مابین کسی قدر اختلاف ہے۔
شب قدر کو بھی دونوں نہیں مانتے۔

قرآن کے بارے میں نکتہ نظر

غامدی صاحب قرآن کو قانون اور حکمت کہتے ہیں۔ پرویز صاحب کا بھی یہی نکتہ نظر ہے۔ وہ بھی کتاب اور اسکی حکمت کہتے ہیں۔

انکار ِ حدیث
حدیث کے انکار میں بھی دونوں میں اشتراک پایا جاتا ہے۔ یعنی دونوں اپنے قائم کردہ معیار کی روشنی میں حدیث کو دیکھتے ہیں۔ دونوں قرآن کی روشنی میں احادیث کو دیکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔

اختتامیہ
ان تمام حقائق کی روشنی میں یہ بات محتاط طور پر کہی جا سکتی ہے کہ غامدی صاحب کا فکر پرویز صاحب کے فکر کی ہی ایک ترقی یافتہ شکل ہے۔ رہی اختلاف کی بات، تو یہ بات غامدی صاحب خود تسلیم کرتے ہیں کہ وہ اصلاحی صاحب کی فکر سے بھی سو فیصد متفق نہیں ہیں، حالانکہ اصلاحی صاحب کو وہ استاد کہتے ہیں اور پچیس سال ان کے شاگرد رہے ہیں۔

جاری۔۔۔ 

Popular Posts