A Guide to the Different Looks Various Light Modifiers Can Create in Portraiture | Fstoppers:
'via Blog this'
Treating Head Lice Naturally with Listerine
How does Listerine kill lice?
- Soak the child's head with Listerine until all hair is completely wet. ...
- Remove the bag carefully. ...
- Douse the head with equal amounts of white vinegar and water, massage the scalp gently and apply the bags again. ...
- Rinse the vinegar and then shampoo the hair as normally. ...
- Use the lice comb to comb out dead lice and eggs.
Listerine for Every Day Uses lice Acne Cough Blisters Stinky feet Toenail fungus
What else can Listerine be used for?
Deodorant. Did you run out of deodorant? 8 Alternative Uses for Listerine. The ingredients found in Listerine (eucalyptus, alcohol, and thyme), can kill bacteria that cause acne. Skip the pricey products and use mouthwash to get rid of your pet's fleas. Banish stinky feet and alleviate athletes foot. Eliminate germs and odors in your garbage disposal. Dandruff. Before everyone used Listerine as a mouthwash, it was popular as a treatment for dandruff. Lice. Listerine is also a safe and effective treatment against lice Acne Cough Blisters Stinky feet Toenail fungus
Renin primary function increase in blood pressure
Renin blood pressure - Google Search: "Renin's primary function is therefore to eventually cause an increase in blood pressure, leading to restoration of perfusion pressure in the kidneys. Renin is secreted from juxtaglomerular kidney cells, which sense changes in renal perfusion pressure, via stretch receptors in the vascular walls. "
How does renin cause high blood pressure
Renin converts angiotensinogen, which is produced in the liver, to the hormone angiotensin I. An enzyme known as ACE or angiotensin-converting enzyme found in the lungs metabolizes angiotensin I into angiotensin II. Angiotensin II causes blood vessels to constrict and blood pressure to increase.
Renin is a protein (enzyme) released by special kidney cells when you have a decreased salt (sodium) level or low blood volume. If you have high blood pressure, your doctor may order a renin and aldosterone test to help determine the cause of your elevated blood pressure.
How does renin cause high blood pressure
Renin converts angiotensinogen, which is produced in the liver, to the hormone angiotensin I. An enzyme known as ACE or angiotensin-converting enzyme found in the lungs metabolizes angiotensin I into angiotensin II. Angiotensin II causes blood vessels to constrict and blood pressure to increase.
Renin is a protein (enzyme) released by special kidney cells when you have a decreased salt (sodium) level or low blood volume. If you have high blood pressure, your doctor may order a renin and aldosterone test to help determine the cause of your elevated blood pressure.
Life of a Muslim is First Priority than Al-Aqsa Mosque
A hadith is often quoted while talking about the sanctity of the life of a Muslim. Hadith narrates that
عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عُمَرَ قَالَ : رَأَيْتُ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَطُوفُ بِالْکَعْبَةِ، وَيَقُولُ : مَا أَطْيَبَکِ وَأَطْيَبَ رِيحَکِ، مَا أَعْظَمَکِ وَأَعْظَمَ حُرْمَتَکِ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَحُرْمَةُ الْمُؤْمِنِ أَعْظَمُ عِنْدَ اﷲِ حُرْمَةً مِنْکِ مَالِهِ وَدَمِهِ، وَأَنْ نَظُنَّ بِهِ إِلَّا خَيْرًا.
ابن ماجه،السنن،کتاب الفتن،باب حرمةدم المؤمن وماله رقم : 39322
طبراني، مسند الشاميين، : 396، رقم : 15683.
منذري، الترغيب والترهيب، 3 : 201، رقم : 3679
لیکن جب اطلاق کی باری آتی ہے تو عمل اس کے بالکل الٹ ہوتا ہے۔ خانہ کعبہ تو ایک طرف کسی محلے کی اجاڑ مسجد کو کچھ ہو جائے تو انسانوں کا خون بہانے پر لوگ تیار ہو جاتے ہیں۔
کچھ ایسا ہی معاملہ قبلہ اول اور مسجد اقصٰی کا ہے۔ اس کے تقدس کے نام پر، ہزاروں بلکہ لاکھوں معصوم افراد جن میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں، کا خون بہایا جا چکا ہے۔ اگر کوئی یہ مشورہ دے بیٹھے کہ فی الحال مسجد اقصٰی کو چھوڑیں اور عالم اسلام کی کمزوری دور کرنے کی کوشش کریں۔ کیوں فضول میں جانیں گنوا رہے ہیں تو اس کا جینا محال ہو جائے گا۔
عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عُمَرَ قَالَ : رَأَيْتُ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَطُوفُ بِالْکَعْبَةِ، وَيَقُولُ : مَا أَطْيَبَکِ وَأَطْيَبَ رِيحَکِ، مَا أَعْظَمَکِ وَأَعْظَمَ حُرْمَتَکِ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَحُرْمَةُ الْمُؤْمِنِ أَعْظَمُ عِنْدَ اﷲِ حُرْمَةً مِنْکِ مَالِهِ وَدَمِهِ، وَأَنْ نَظُنَّ بِهِ إِلَّا خَيْرًا.
ابن ماجه،السنن،کتاب الفتن،باب حرمةدم المؤمن وماله رقم : 39322
طبراني، مسند الشاميين، : 396، رقم : 15683.
منذري، الترغيب والترهيب، 3 : 201، رقم : 3679
لیکن جب اطلاق کی باری آتی ہے تو عمل اس کے بالکل الٹ ہوتا ہے۔ خانہ کعبہ تو ایک طرف کسی محلے کی اجاڑ مسجد کو کچھ ہو جائے تو انسانوں کا خون بہانے پر لوگ تیار ہو جاتے ہیں۔
کچھ ایسا ہی معاملہ قبلہ اول اور مسجد اقصٰی کا ہے۔ اس کے تقدس کے نام پر، ہزاروں بلکہ لاکھوں معصوم افراد جن میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں، کا خون بہایا جا چکا ہے۔ اگر کوئی یہ مشورہ دے بیٹھے کہ فی الحال مسجد اقصٰی کو چھوڑیں اور عالم اسلام کی کمزوری دور کرنے کی کوشش کریں۔ کیوں فضول میں جانیں گنوا رہے ہیں تو اس کا جینا محال ہو جائے گا۔
LG claims its new Gram laptops have ‘full day’ battery life - The Verge
LG claims its new Gram laptops have ‘full day’ battery life - The Verge: "LG is announcing its refreshed range of its thin and light Gram laptops today, ahead of CES next month. LG is introducing three refreshed versions of the Gram, in 13.3-, 14-, and 15-inch models. The 2018 Gram laptops include Intel’s 8th-generation Core i5 and i7 processors, SSD storage, and an option for a second SSD drive. LG’s Gram laptops have always been very thin and light, and this year’s models maintain just over two pounds for the 13.3- and 14-inch models, and 2.4 pounds for the larger 15-inch version.
"
'via Blog this'
'via Blog this'
حدیث کی حجیت اور اس کا اطلاق
ہمارے ہاں عام طور پر دینی مباحثوں میں قرآن و حدیث کا حوالہ اپنے نکتہ نظر کو تقویت دینے کے لیے دیا جاتا ہے۔ اور اس سلسلے میں اصول یہ ہے کہ آیت یا حدیث کی تاویل ایسے کی جائے کہ اسے مرضی سے استعمال کیا جاسکے۔
مثلا
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مومن کی حرمت کو کعبے کی حرمت سے زیادہ محترم قرار دیا ہے۔
امام ابن ماجہ رحمہ اللہ سے مروی حدیثِ مبارکہ ملاحظہ ہو :
عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عُمَرَ قَالَ : رَأَيْتُ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَطُوفُ بِالْکَعْبَةِ، وَيَقُولُ : مَا أَطْيَبَکِ وَأَطْيَبَ رِيحَکِ، مَا أَعْظَمَکِ وَأَعْظَمَ حُرْمَتَکِ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَحُرْمَةُ الْمُؤْمِنِ أَعْظَمُ عِنْدَ اﷲِ حُرْمَةً مِنْکِ مَالِهِ وَدَمِهِ، وَأَنْ نَظُنَّ بِهِ إِلَّا خَيْرًا.
ابن ماجه،السنن،کتاب الفتن،باب حرمةدم المؤمن وماله رقم : 39322
طبراني، مسند الشاميين، : 396، رقم : 15683.
منذري، الترغيب والترهيب، 3 : 201، رقم : 3679
''حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنھما سے مروی ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے دیکھا اور یہ فرماتے سنا : (اے کعبہ!) تو کتنا عمدہ ہے اور تیری خوشبو کتنی پیاری ہے، تو کتنا عظیم المرتبت ہے اور تیری حرمت کتنی زیادہ ہے، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! مومن کے جان و مال کی حرمت اﷲ کے نزدیک تیری حرمت سے زیادہ ہے اور ہمیں مومن کے بارے میں نیک گمان ہی رکھنا چاہئے۔''
لیکن جب اطلاق کی باری آتی ہے تو عمل اس کے بالکل الٹ ہوتا ہے۔ خانہ کعبہ تو ایک طرف کسی محلے کی اجاڑ مسجد کو کچھ ہو جائے تو انسانوں کا خون بہانے پر لوگ تیار ہو جاتے ہیں۔
کچھ ایسا ہی معاملہ قبلہ اول اور مسجد اقصٰی کا ہے۔ اس کے تقدس کے نام پر، ہزاروں بلکہ لاکھوں معصوم افراد جن میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں، کا خون بہایا جا چکا ہے۔ اگر کوئی یہ مشورہ دے بیٹھے کہ فی الحال مسجد اقصٰی کو چھوڑیں اور عالم اسلام کی کمزوری دور کرنے کی کوشش کریں۔ کیوں فضول میں جانیں گنوا رہے ہیں تو اس کا جینا محال ہو جائے گا۔
فعل ، فاعل اور مفعول۔وحدت الوجود کی عمدہ مثال
ایک بار (مولانا رشید احمد گنگوہی نے) ارشاد فرمایا کہ ضامن علی جلال آبادی کی سہارنپور میں بہت سی رنڈیاں مرید تھیں۔ ایک بار سہارنپور میں یہ کسی رنڈی کے مکان پر ٹہرے ہوئے تھے، سب مریدنیاں اپنے میاں صاحب کی زیارت کے لئے حاضر ہوئیں مگر ایک رنڈی نہیں آئی۔ میاں صاحب بولے کہ فلانی کیوں نہیں آئی۔ رنڈیوں نے جواب دیا، میاں صاحب ہم نے اس سے بہیترا کہا چل میاں صاحب کی زیارت کو تو اس نے کہا میں بہت گناہ گار ہوں اور بہت روسیاہ ہوں، میاں صاحب کو کیا منہ دکھاؤں گی، میں زیارت کے قابل نہیں۔ میاں صاحب نے کہا، نہیں جی! تم اسے ہمارے پاس ضرور لانا۔ چنانچہ رنڈیاں اسے لیکر آئیں۔ جب وہ سامنے آئی تو میاں نے پوچھا بی تم کیوں نہیں آئی تھیں؟ اس نے کہا، حضرت جی روسیائی کی وجہ سے زیارت کو آتے ہوئے شرماتی ہوں۔ میاں صاحب بولے بی تم کیوں شرماتی ہو ’’کرنے والا کون اور کرانے والا کون وہی تو ہے‘‘ رنڈی یہ سن کر آگ بگولا ہوگئی اور خفا ہو کر بولی لاحول ولا قوۃ ، اگرچہ روسیا و گناہگار ہوں مگر ایسے پیر کے منہ پر پیشاب بھی نہیں کرتی‘‘ اس کے بعد میاں صاحب تو شرمندہ ہوکر رہ گئے اور وہ اٹھ کر چل دی۔ ( تذکرۃ الرشید ، ج ۲، ص ۲۴۲
کیا کعبہ واقعی مکہ میں تھا؟ کیا مکہ کبھی کوئی شہر بھی تھا؟
مکالمہ ٹیم کا نکتہ نظر
کئی رومن اور یونانی جغرافیہ دانوں اور تاریخ دانوں نے عرب کا سفر کیا اور اس کے بارے میں لکھا لیکن کسی نے بھی مکہ کا ذکر نہیں کیا۔ نبونیڈس (Nabonidus) پانچویں صدی قبل مسیح کا ایک بابلی بادشاہ ہے، جو خطہ عرب میں کئی دفعہ آیا اور یہاں اپنی بادشاہت قائم کی۔ مدینہ کے مشرق میں ایک علاقہ جسے تیما کہا جاتا تھا، اس کے حوالے سے اس کا سفر ایک نظم کی شکل میں موجود ہے۔ اس نے تیما کے بادشاہ کو قتل کرکے وہاں پر اپنی سلطنت قائم کی۔ اس کے بعد اس نے حجاز کے شہر مدینہ اور خیبر کو بھی فتح کیا۔ اس کی تمام تر کہانی میں مکہ شہر کے نام کا ذکر تک نہیں ہے۔
بانچویں صدی قبل مسیح کا ایک تاریخ دان ہیروڈ و ٹس (Herodotus) ایک کتا ب لکھتا ہے، جس کا نام ہی “تاریخ” ہے۔ اس میں وہ عرب کے بارے میں لکھتے ہوئے کہتا ہے کہ جنوب میں عرب نام کا ایک نیا علاقہ آباد ہوا ہے کہ جہاں بخور ، لوبان ، دار چینی اور افیون پیدا کی جاتی ہے ۔ اس میں اس نے کئی شہروں کو ذکر کیا مگر مکہ کا نہیں۔ اس سے یہ بات پتہ چلتی ہے کہ عرب اگر 2000 قبل مسیح میں حضرت ابراہیم کے ہاتھوں آباد ہوا ہوتا تو ہسٹری لکھنے والا کبھی یہ نہ کہتا کہ عرب نام کا کوئی علاقہ نیا نیا آباد ہوا ہے۔ تھیو فراسٹس (Theophrastos’) چوتھی صدی قبل مسیح نے یمنی اور عربی علاقوں اور ان کے کلچر کے بارے میں کئی جگہ لکھا مگر اس نے بھی مکہ کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ ایراستھونیس(Eratosthenes) تیسری صدی قبل مسیح نے بحیرہ احمر کے ساتھ موجود عربی معاشروں کا ذکر کیا ہے لیکن مکہ کا نام نہیں لیا، بلکہ جہاں آج مکہ آباد ہے، اس سارے جغرافیے کے بارے میں اس کا کہنا تھا کہ یہ جگہ ابھی تک مکمل طور پہ غیر آباد ہے۔
سکندر اعظم کی خواہش تھی کہ وہ عرب علاقوں پہ قبضہ کرے اور اس سلسلے میں اس نے چار عد د جاسوسی قافلے بھیجے،جن کا کام عرب کی ثقافت، ان کی فوجی صلاحیتیں، ان کاکاروبار اور نان نفقہ اور تمام تر راستوں کی جانکاری حاصل کرنا تھا۔ سکندر اعظم کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ حملہ کرنے سے پہلے اس جگہ کی تفصیلی جانکاری لیا کرتا تھا۔ اس کے چار عدد بھیجے گئے جاسوسی قافلوں کا ریکارڈ تاریخ میں بہت اہمیت رکھتا ہے ۔ سب سے زیادہ اہمیت انیکسی کریٹ (Anaxicrates) کو دی جاتی ہے، جس نے باقاعدہ راستوں کو بھی ماپا تھا، اور اس کا کام بعد میں آنے والے کئی تاریخ دانوں کے لیئے بہت مفید ثابت ہوا۔ایگتھرچی(Agatharchides) دوسری صدی قبل مسیح میں عرب شہروں کے بارے میں لکھتا ہےاور بحیرہ احمر کے ساتھ تمام تر عبادت گاہوں کا ذکر کرتا ہے لیکں مکہ یا کعبہ کا ذکر نہیں کرتا۔ سٹرابو (Strabo) پہلی صدی قبل مسیح میں وسطی اور مغربی عرب کے تمام قبیلوں اور شہروں کا ذکر کرتا ہے مگر مکہ کا نہیں۔
رومیوں نے 24 قبل مسیح میں ایک فاتح گیلس (Aelius Gallus) کو عرب اور اس سے ملحقہ علاقوں پہ قبضے کے لیے بھیجا۔ اس کی تمام تر فتوحات میں Related imageعرب کے باقی کئی شہروں کا تو ذکر ہے، لیکن مکہ نام کے کسی شہر کا ذکر نہیں۔ صحرا میں اگر کوئی نخلستان ہو تو سب کو اس کا پتہ ہوتا ہے اور وہ ایک قیمتی جگہ مانی جاتی ہے۔قبضہ کرنے والے ایسی جگہوں کو نہیں چھوڑتے۔ پلائنی (Pliny) نے پہلی صدی عیسوی میں عرب کے اندر 92 قبیلوں اور 62 شہروں کا ذکر کیا لیکن مکہ کا نام تک نہیں لیا اور زبردست بات یہ کہ اس نے جورہم قبیلے کا بھی کوئ ذکر نہیٰں کیا۔ ٹالمی (Ptolemy) ، جس نے دنیا کے نقشہ جات بنائے، اس نے پہلی صدی عیسوی میں عرب کے 114 شہروں کا جغرافیہ بتایا لیکن اس میں مکہ کا کہیں ذکر نہیں۔ ٹالمی نے اک شہر مکارابہ (macaraba) کا ذکر کیا ہے جسے کچھ مسلمان نام کی مماثلت کی وجہ سے مکہ سمجھتے ہیں،لیکن ٹالمی کے مکارابہ کا جو حدوداربعہ بیان کیا گیا ہے، وہ مکہ کے حدود اربعہ سے یکسر مختلف ہے۔
آرکیالوجی یا کسی بھی قسم کی ہسٹری کے ریکارڈ میں مکہ کا ذکر نہیں مل رہا۔ ہاں ملتا ہے تو صرف اور صرف اسلامی تاریخی کتابوں میں، جو آٹھویں نویں صدی سے لکھنا شروع ہوئیں یا پھر قرآن میں اس کا ذکر ملتا ہے ۔ مسلمان اگر ہسٹری میں اسے کہیں ملانے کی کوشش کرتے ہیں تو اس میں ایک ٹالمی کے مکارابہ کا ذکر ہے، جس کے بارے میں بیان کیا جاچکا ہے۔
دوسرا وہ Diodorus Siculus ڈیوڈورس جو ایک تاریخ دان ہے،جس نے عرب کے اپنے سفر، جو اس نے پہلی صدی قبل مسیح میں کیا تھا اور لکھا تھا کہ وہاں اس نے ایک عبادت گاہ دیکھی جو لوگوں کے لیے بہت مقدس تھی۔ اس بات کو مومنین ثبوت کے طور پر بیان کرتے ہیں لیکن ساتھ میں بدنیتی یہ کرتے ہیں کہ اس کی اس بات کو سیاق و سباق میں پڑھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس نے جس علاقے کا ذکر کیا اور اس علاقے کی جو خصوصیات بتائیں، ان میں سے ایک بھی مکہ سے نہیں ملتیں اور دوسرا یہ کہ اس نے علاقے میں بسنے والوں کو بنیزومیں کے نام سے بتایا ۔ لیکن اگر اسے سچ بھی مان لیا جائے تو یہ واقعہ پہلی صدی عیسوی کا ہے، اس سے پہلے 2000 سال میں مکہ کا کچھ پتہ نہیں۔ تیسرا، مسلمان اسے بائبل کے اندر موجود ایک نام بکا (bacca) سے ملاتے ہیں۔اگر بکا کے ساتھ شامل سابقے لاحقے میں تمام آیات کو غور سے پڑھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ وہاں یروشلم کا ذکر کرتے ہوئے ایک وادی، جس میں ایک مخصوص پھول ” بکا ” لگتےہیں، اس کے بارے میں بتایا گیا ہے۔
قارئین، قرآن، تاریخ، اور احادیث کی کتابوں میں اس شہر کی جو تفصیلات دی گئی ہیں وہ مکّہ پر نہیں بلکہ “پترا” پر فٹ آتی ہیں۔ مثلا قرآن اسے “شہروں کی ماں” یعنی قدیم شہر کہتا ہے۔ نیز یہ شہر ایک وادی میں ہے جس کے نزدیک ایک اور وادی ہے. ابن اسحاق، طبری، اور حدیث کے اماموں نے شہر کے Related imageنزدیک پہاڑوں، وادی میں سبزہ، چکنی مٹی، زرخیز زمین، ندی، درختوں، پھلوں (انگوروں)، ایک حصے کا بلند اور دوسرے حصے کا نشیب میں ہونا اور دونوں اطراف سے سڑکوں کا شہر میں داخل ہونا، اور شہر کا تجارتی گزرگاہ کے راستے میں ہونا بیان کیا ہے. یہ خصوصیت پترا میں تو موجود ہیں، مکّہ میں نہیں. رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے دور اور ان کی وفات کے سو سال بعد تک جتنی مسجدیں تعمیر ہوئیں ان کا رخ نہ تو یروشلم یعنی بیت المقدس کی طرف تھا اور نہ ہی موجودہ مکّہ کی طرف. ان کا رخ پترا کی طرف ہے. جس کعبہ میں عبداللہ ابن زبیر نے پناہ لی اور حجاج بن یوسف نے پتھر برسائے وہ بھی پترا میں ہے.
تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ سن ٤٠٠ عیسوی سے پہلے مکّہ شہر کا کوئی وجود ہی نہ تھا- لھذا ابراہیم یا اسماعیل علیہ السلام کبھی مکّہ نہیں گئے. پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وسلم کی پیدائش پترا میں ہوئی تھی جو کہ عربوں کا قدیم ترین شہر ہے. قرآن میں جس کعبہ کا ذکر ہے وہ بھی پترا میں تھا. نیز قرآن میں Related imageاس شہر کی جو تفصیلات بیان ہوئی ہیں وہ بھی صرف پترا پر فٹ آتی ہیں، مکّہ پر نہیں. مکّہ میں خانہ کعبہ کی تعمیر ٩٠٠ عیسوی یعنی پیغمبر اسلام کی وفات کے کوئی ٢٠٠ سال بعد ہوئی اور یہ عباسیوں کا دور تھا. انہوں نے حجر اسود کو پترا والے کعبہ سے نکال کر مکّہ والے نئے کعبہ میں لگا دیا. کچھ عرب قبیلوں کو یہ جعل سازی پسند نہیں آئ اور انہوں نے طاہر قرامطی کی سربراہی میں مکّہ پر چڑھائی کر دی، حاجیوں کو قتل کر دیا، کعبہ کو مسمار کر دیا، اور حجر اسود کو اغوا کر لیا. حجر اسود ٢٣ سال تک قرامطیوں کے قبضے میں رہا اور اس دوران مکّہ میں حج نہ ہو سکا. عباسی خلیفہ نے بھاری تاوان ادا کرکے حجر اسود کو رہا کرایا. لیکن واپسی سے پہلے قرامطیوں نے حجر اسود کے ایک درجن ٹکڑے کر دئیے۔
یقینا پیش کردہ دلائل بہت حیرت انگیز اور چونکا دینے والے ہیں۔ لیکن ان سے یہ ہی لگتا ہے کہ کعبہ مکہ میں نہیں بلکہ پترا میں تھا۔ پترا میں موجود کعبہ کو ڈھا دیا گیا اور تاریخ کے ساتھ ایک شدید کرپشن کی گئی۔ آج خدا کا گھر موجود تو ہے مگر شاید اپنے اصل مقام پر نہیں۔
محمد حسنین اشرف کا نکتہ نظر
کئی رومن اور یونانی جغرافیہ دانوں اور تاریخ دانوں نے عرب کا سفر کیا اور اس کے بارے میں لکھا لیکن کسی نے بھی مکہ کا ذکر نہیں کیا۔ نبونیڈس (Nabonidus) پانچویں صدی قبل مسیح کا ایک بابلی بادشاہ ہے، جو خطہ عرب میں کئی دفعہ آیا اور یہاں اپنی بادشاہت قائم کی۔ مدینہ کے مشرق میں ایک علاقہ جسے تیما کہا جاتا تھا، اس کے حوالے سے اس کا سفر ایک نظم کی شکل میں موجود ہے۔ اس نے تیما کے بادشاہ کو قتل کرکے وہاں پر اپنی سلطنت قائم کی۔ اس کے بعد اس نے حجاز کے شہر مدینہ اور خیبر کو بھی فتح کیا۔ اس کی تمام تر کہانی میں مکہ شہر کے نام کا ذکر تک نہیں ہے۔
بانچویں صدی قبل مسیح کا ایک تاریخ دان ہیروڈ و ٹس (Herodotus) ایک کتا ب لکھتا ہے، جس کا نام ہی “تاریخ” ہے۔ اس میں وہ عرب کے بارے میں لکھتے ہوئے کہتا ہے کہ جنوب میں عرب نام کا ایک نیا علاقہ آباد ہوا ہے کہ جہاں بخور ، لوبان ، دار چینی اور افیون پیدا کی جاتی ہے ۔ اس میں اس نے کئی شہروں کو ذکر کیا مگر مکہ کا نہیں۔ اس سے یہ بات پتہ چلتی ہے کہ عرب اگر 2000 قبل مسیح میں حضرت ابراہیم کے ہاتھوں آباد ہوا ہوتا تو ہسٹری لکھنے والا کبھی یہ نہ کہتا کہ عرب نام کا کوئی علاقہ نیا نیا آباد ہوا ہے۔ تھیو فراسٹس (Theophrastos’) چوتھی صدی قبل مسیح نے یمنی اور عربی علاقوں اور ان کے کلچر کے بارے میں کئی جگہ لکھا مگر اس نے بھی مکہ کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ ایراستھونیس(Eratosthenes) تیسری صدی قبل مسیح نے بحیرہ احمر کے ساتھ موجود عربی معاشروں کا ذکر کیا ہے لیکن مکہ کا نام نہیں لیا، بلکہ جہاں آج مکہ آباد ہے، اس سارے جغرافیے کے بارے میں اس کا کہنا تھا کہ یہ جگہ ابھی تک مکمل طور پہ غیر آباد ہے۔
سکندر اعظم کی خواہش تھی کہ وہ عرب علاقوں پہ قبضہ کرے اور اس سلسلے میں اس نے چار عد د جاسوسی قافلے بھیجے،جن کا کام عرب کی ثقافت، ان کی فوجی صلاحیتیں، ان کاکاروبار اور نان نفقہ اور تمام تر راستوں کی جانکاری حاصل کرنا تھا۔ سکندر اعظم کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ حملہ کرنے سے پہلے اس جگہ کی تفصیلی جانکاری لیا کرتا تھا۔ اس کے چار عدد بھیجے گئے جاسوسی قافلوں کا ریکارڈ تاریخ میں بہت اہمیت رکھتا ہے ۔ سب سے زیادہ اہمیت انیکسی کریٹ (Anaxicrates) کو دی جاتی ہے، جس نے باقاعدہ راستوں کو بھی ماپا تھا، اور اس کا کام بعد میں آنے والے کئی تاریخ دانوں کے لیئے بہت مفید ثابت ہوا۔ایگتھرچی(Agatharchides) دوسری صدی قبل مسیح میں عرب شہروں کے بارے میں لکھتا ہےاور بحیرہ احمر کے ساتھ تمام تر عبادت گاہوں کا ذکر کرتا ہے لیکں مکہ یا کعبہ کا ذکر نہیں کرتا۔ سٹرابو (Strabo) پہلی صدی قبل مسیح میں وسطی اور مغربی عرب کے تمام قبیلوں اور شہروں کا ذکر کرتا ہے مگر مکہ کا نہیں۔
رومیوں نے 24 قبل مسیح میں ایک فاتح گیلس (Aelius Gallus) کو عرب اور اس سے ملحقہ علاقوں پہ قبضے کے لیے بھیجا۔ اس کی تمام تر فتوحات میں Related imageعرب کے باقی کئی شہروں کا تو ذکر ہے، لیکن مکہ نام کے کسی شہر کا ذکر نہیں۔ صحرا میں اگر کوئی نخلستان ہو تو سب کو اس کا پتہ ہوتا ہے اور وہ ایک قیمتی جگہ مانی جاتی ہے۔قبضہ کرنے والے ایسی جگہوں کو نہیں چھوڑتے۔ پلائنی (Pliny) نے پہلی صدی عیسوی میں عرب کے اندر 92 قبیلوں اور 62 شہروں کا ذکر کیا لیکن مکہ کا نام تک نہیں لیا اور زبردست بات یہ کہ اس نے جورہم قبیلے کا بھی کوئ ذکر نہیٰں کیا۔ ٹالمی (Ptolemy) ، جس نے دنیا کے نقشہ جات بنائے، اس نے پہلی صدی عیسوی میں عرب کے 114 شہروں کا جغرافیہ بتایا لیکن اس میں مکہ کا کہیں ذکر نہیں۔ ٹالمی نے اک شہر مکارابہ (macaraba) کا ذکر کیا ہے جسے کچھ مسلمان نام کی مماثلت کی وجہ سے مکہ سمجھتے ہیں،لیکن ٹالمی کے مکارابہ کا جو حدوداربعہ بیان کیا گیا ہے، وہ مکہ کے حدود اربعہ سے یکسر مختلف ہے۔
آرکیالوجی یا کسی بھی قسم کی ہسٹری کے ریکارڈ میں مکہ کا ذکر نہیں مل رہا۔ ہاں ملتا ہے تو صرف اور صرف اسلامی تاریخی کتابوں میں، جو آٹھویں نویں صدی سے لکھنا شروع ہوئیں یا پھر قرآن میں اس کا ذکر ملتا ہے ۔ مسلمان اگر ہسٹری میں اسے کہیں ملانے کی کوشش کرتے ہیں تو اس میں ایک ٹالمی کے مکارابہ کا ذکر ہے، جس کے بارے میں بیان کیا جاچکا ہے۔
دوسرا وہ Diodorus Siculus ڈیوڈورس جو ایک تاریخ دان ہے،جس نے عرب کے اپنے سفر، جو اس نے پہلی صدی قبل مسیح میں کیا تھا اور لکھا تھا کہ وہاں اس نے ایک عبادت گاہ دیکھی جو لوگوں کے لیے بہت مقدس تھی۔ اس بات کو مومنین ثبوت کے طور پر بیان کرتے ہیں لیکن ساتھ میں بدنیتی یہ کرتے ہیں کہ اس کی اس بات کو سیاق و سباق میں پڑھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس نے جس علاقے کا ذکر کیا اور اس علاقے کی جو خصوصیات بتائیں، ان میں سے ایک بھی مکہ سے نہیں ملتیں اور دوسرا یہ کہ اس نے علاقے میں بسنے والوں کو بنیزومیں کے نام سے بتایا ۔ لیکن اگر اسے سچ بھی مان لیا جائے تو یہ واقعہ پہلی صدی عیسوی کا ہے، اس سے پہلے 2000 سال میں مکہ کا کچھ پتہ نہیں۔ تیسرا، مسلمان اسے بائبل کے اندر موجود ایک نام بکا (bacca) سے ملاتے ہیں۔اگر بکا کے ساتھ شامل سابقے لاحقے میں تمام آیات کو غور سے پڑھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ وہاں یروشلم کا ذکر کرتے ہوئے ایک وادی، جس میں ایک مخصوص پھول ” بکا ” لگتےہیں، اس کے بارے میں بتایا گیا ہے۔
قارئین، قرآن، تاریخ، اور احادیث کی کتابوں میں اس شہر کی جو تفصیلات دی گئی ہیں وہ مکّہ پر نہیں بلکہ “پترا” پر فٹ آتی ہیں۔ مثلا قرآن اسے “شہروں کی ماں” یعنی قدیم شہر کہتا ہے۔ نیز یہ شہر ایک وادی میں ہے جس کے نزدیک ایک اور وادی ہے. ابن اسحاق، طبری، اور حدیث کے اماموں نے شہر کے Related imageنزدیک پہاڑوں، وادی میں سبزہ، چکنی مٹی، زرخیز زمین، ندی، درختوں، پھلوں (انگوروں)، ایک حصے کا بلند اور دوسرے حصے کا نشیب میں ہونا اور دونوں اطراف سے سڑکوں کا شہر میں داخل ہونا، اور شہر کا تجارتی گزرگاہ کے راستے میں ہونا بیان کیا ہے. یہ خصوصیت پترا میں تو موجود ہیں، مکّہ میں نہیں. رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے دور اور ان کی وفات کے سو سال بعد تک جتنی مسجدیں تعمیر ہوئیں ان کا رخ نہ تو یروشلم یعنی بیت المقدس کی طرف تھا اور نہ ہی موجودہ مکّہ کی طرف. ان کا رخ پترا کی طرف ہے. جس کعبہ میں عبداللہ ابن زبیر نے پناہ لی اور حجاج بن یوسف نے پتھر برسائے وہ بھی پترا میں ہے.
تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ سن ٤٠٠ عیسوی سے پہلے مکّہ شہر کا کوئی وجود ہی نہ تھا- لھذا ابراہیم یا اسماعیل علیہ السلام کبھی مکّہ نہیں گئے. پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وسلم کی پیدائش پترا میں ہوئی تھی جو کہ عربوں کا قدیم ترین شہر ہے. قرآن میں جس کعبہ کا ذکر ہے وہ بھی پترا میں تھا. نیز قرآن میں Related imageاس شہر کی جو تفصیلات بیان ہوئی ہیں وہ بھی صرف پترا پر فٹ آتی ہیں، مکّہ پر نہیں. مکّہ میں خانہ کعبہ کی تعمیر ٩٠٠ عیسوی یعنی پیغمبر اسلام کی وفات کے کوئی ٢٠٠ سال بعد ہوئی اور یہ عباسیوں کا دور تھا. انہوں نے حجر اسود کو پترا والے کعبہ سے نکال کر مکّہ والے نئے کعبہ میں لگا دیا. کچھ عرب قبیلوں کو یہ جعل سازی پسند نہیں آئ اور انہوں نے طاہر قرامطی کی سربراہی میں مکّہ پر چڑھائی کر دی، حاجیوں کو قتل کر دیا، کعبہ کو مسمار کر دیا، اور حجر اسود کو اغوا کر لیا. حجر اسود ٢٣ سال تک قرامطیوں کے قبضے میں رہا اور اس دوران مکّہ میں حج نہ ہو سکا. عباسی خلیفہ نے بھاری تاوان ادا کرکے حجر اسود کو رہا کرایا. لیکن واپسی سے پہلے قرامطیوں نے حجر اسود کے ایک درجن ٹکڑے کر دئیے۔
یقینا پیش کردہ دلائل بہت حیرت انگیز اور چونکا دینے والے ہیں۔ لیکن ان سے یہ ہی لگتا ہے کہ کعبہ مکہ میں نہیں بلکہ پترا میں تھا۔ پترا میں موجود کعبہ کو ڈھا دیا گیا اور تاریخ کے ساتھ ایک شدید کرپشن کی گئی۔ آج خدا کا گھر موجود تو ہے مگر شاید اپنے اصل مقام پر نہیں۔
محمد حسنین اشرف کا نکتہ نظر
Reverend Charles Augustus Goodrich:
Whatever discredit we may give to these, and other ravings of the Moslem imposter concerning the Caaba its high antiquity cannot be disputed; and the most probable account is, that it was built and used for religious purposes by some of the early patriarchs; and after the introduction of idols, it came to be appropriated to the reception of the pagan divinities. Diodorus Siculus, in his description of the cost of the Red Sea, mentions this temple as being, in his time, held in great veneration by all Arabians; and Pocoke informs us, that the linen or silken veil, with which it is covered, was first offered by a pious King of the Hamyarites, seven hundred years before the time of Mahomet۔
(Religious Ceremonies and Customs, Or: The Forms of Worship Practiced by the several nations of the known world, from the earliest records to the present time, Charles Augustus Goodrich [Hartford: Published by Hutchinson and Dwine 1834] page 124)
John Reynell Morell:
…historically speaking, Mecca was a holy city long before Mohammed. Diodorus siculus, following agatharcides, relates that not far from the red sea, between the country of the Sabeans and of the Thamudites there existed a celebrated temple, venerated throughout Arabia.
(Turkey, Past and Present: Its History, Topography, and Resources By John Reynell Morell page 84)
…historically speaking, Mecca was a holy city long before Mohammed. Diodorus siculus, following agatharcides, relates that not far from the red sea, between the country of the Sabeans and of the Thamudites there existed a celebrated temple, venerated throughout Arabia.
(Turkey, Past and Present: Its History, Topography, and Resources By John Reynell Morell page 84)
Colin Macfarquhar:
The reign of the heavenly orbs could not be extended beyond the visible sphere; and some metaphorical powers were necessary to sustain the transmigration of the souls and the resurrection of bodies: a camel was left to perish on the grave, that he might serve his master in another life; and the invocation of departed spirits implies that they were still endowed with consciousness and power. Each tribe, each family, each independent warrior, created and changed the rites and the object of this fantastic worship; but the nation in every age has bowed to the religion as well as to the language, of Mecca. The genuine antiquity of the Caaba extends beyond the Christian era: in describing the coast of the Red Sea, the Greek historian Diodorus has remarked, between the Thamaudites and the Sabeans a famous temple, whose superior sanctity was revered by ALL THE ARABIANS: the linen or silken veil, which is annually renewed by the Turkish Emperor, was first offered by a pious King of the Homerites, who reigned 700 years before the time of Mahomet.“
(Encyclopaedia Britannica: Or, A Dictionary of Arts, sciences and Miscellaneous Literature Constructed on a Plan Volume 2, by Colin Macfarquhar page 183 – 184)
The reign of the heavenly orbs could not be extended beyond the visible sphere; and some metaphorical powers were necessary to sustain the transmigration of the souls and the resurrection of bodies: a camel was left to perish on the grave, that he might serve his master in another life; and the invocation of departed spirits implies that they were still endowed with consciousness and power. Each tribe, each family, each independent warrior, created and changed the rites and the object of this fantastic worship; but the nation in every age has bowed to the religion as well as to the language, of Mecca. The genuine antiquity of the Caaba extends beyond the Christian era: in describing the coast of the Red Sea, the Greek historian Diodorus has remarked, between the Thamaudites and the Sabeans a famous temple, whose superior sanctity was revered by ALL THE ARABIANS: the linen or silken veil, which is annually renewed by the Turkish Emperor, was first offered by a pious King of the Homerites, who reigned 700 years before the time of Mahomet.“
(Encyclopaedia Britannica: Or, A Dictionary of Arts, sciences and Miscellaneous Literature Constructed on a Plan Volume 2, by Colin Macfarquhar page 183 – 184)
Andrew Crichton:
“From the celebrity of the place, a vast concourse of pilgrims flocked to it from all quarters. Such was the commencement of the city and the superstitions fame of Mecca, the very name of which implies a place of great resort. Whatever credit may be due to these traditions, the antiquity of the Kaaba is unquestionable; for its origin ascends far beyond the beginning of the Christian era. A passage in Diodorus has an obvious reference to it, who speaks of a famous temple among the people he calls Bizomenians, revered as most sacred by all Arabians.”
(The history of Arabia, ancient and modern Volume 1 [second edition] By Andrew Crichton page 100)
“From the celebrity of the place, a vast concourse of pilgrims flocked to it from all quarters. Such was the commencement of the city and the superstitions fame of Mecca, the very name of which implies a place of great resort. Whatever credit may be due to these traditions, the antiquity of the Kaaba is unquestionable; for its origin ascends far beyond the beginning of the Christian era. A passage in Diodorus has an obvious reference to it, who speaks of a famous temple among the people he calls Bizomenians, revered as most sacred by all Arabians.”
(The history of Arabia, ancient and modern Volume 1 [second edition] By Andrew Crichton page 100)
فاضل دوست نے جن لوگوں کے نام اور حوالہ جات دئیے ہیں ان میں سے بہت کم لوگ اسفار کرنے والے ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگوں نے اپنے مجموعہ جات کو صرف اور صرف دوسرے لوگوں کی معلومات کی بنیاد پر ترتیب دیا ہے۔ مثال کے طور پر “ٹالمی” نے جس نقشہ کو بنایا اور جس “مکرابہ” کا
ذکر کیا، اسکو اس نے پہاڑیوں سے بہت دور نکال کر رکھا ہے، اور مکہ پہاڑوں کے درمیان گھرا ہوا تھا۔ ٹالمی پر سب سے بڑی کی جانے والی تنقید اصل میں یہی تھی کہ اسکی معلومات کا ماخذ سفر کرنے والے لوگ اور قافلے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ اگر کسی نے ذکر کیا تو اسے نقشے پر بہت آگے پیچھے رکھ دیا اور اگر کسی نے ذکر نہیں کیا تو اسکی زیادہ اہم وجہ اسکا خود سفر کرکے علاقوں کو نہ دیکھنا بھی تھا۔ ٹالمی نے آئر لینڈ کا جو نقشہ بنایا تھا اسکی ڈی کوڈنگ کی گئی ہے اور اس پر جو تبصرہ کیا گیا ہے اسکے الفاظ کچھ یوں ہیں:
Claudius Ptolemy (roughly AD 90168) presents us the oldest surviving account of Ireland in the form of a set of coordinates showing different geographical features or a ‘virtual map’. While Ptolemy’s map looks roughly like today’s Ireland there are a number of discrepancies. Likewise, while some locations are obvious, others are disputed or obscure.
یہ اقتباس فاضل کو اس بات کا احساس دلانے کو کافی ہوگا کہ مکارابہ کو نقشہ پر درست جگہ کیوں نہی رکھا گیا۔ آپ اگر ٹالمی کے نقشہ کو دیکھیں تو صاف نظر آتا ہے کہ مکارابہ کو وہ پہاڑی ٹیلوں سے کچھ آگے لے آیا ہے جبکہ اسکی جگہ پہاڑی ٹیلوں کے پاس ہے۔ مکارابہ پر زیادہ زور دینے کی وجہ جرمن مورخ “ایڈورڈ گلاسر” ہیں جنکے نزدیک یہ عربی کے لفظ” مکراب” سے ہوسکتا ہے۔ جسکا معنی بڑا معبد ہوسکتا ہے۔
اگر آپ “ہیروڈٹس” کی ہسٹریز کو اٹھائیں اور اسکا باب کھولیں جہاں اس نے عرب کے علاقوں پر بحث کی ہے تو اصل میں، اس نے صرف ان چیزوں کا ذکر کیا ہے جس سے اسے واسطہ پڑا، یعنی وہاں وہ پورے جزیرہ نمائے عرب کو بیان نہی کررہا، بلکہ وہ صرف اور صرف چند علاقوں کو انکی خصوصیات کی بنا پر بیان کر رہا ہے۔ اسکے علاوہ تمام بادشاہ یا جاسوس چونکہ کسی نقشہ کی تعمیل یا سیاحت کی غرض سے نہیں نکلے تھے اس لئے انہوں نے صرف ان چند علاقوں کا تذکرہ کیا جو انہوں نے فتح کئے یا جہاں سے انکا گذر ہوا۔
اسکے بعد ڈی اورڈس سکولس نے بھی عرب میں ایک معبد کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے:
The inhabitants of the land about the gulf, who are known as Banizomenes, find their food by hunting the land animals and eating their meat. And a temple has been set up there, which is very holy and exceedingly revered by all Arabians.
فاضل دوست نے دعویٰ کیا ہے جو کہ اصل میں “ڈین گبسن” کا ہی دعویٰ ہے کہ یہ اصل پترا کی نشاندہی کروائی گئی ہے۔ حالانکہ یہ بات سب جانتے ہیں کہ پترا کے باشندوں کو “بانیزہمینز ” نہیں کہا جاتا تھا بلکہ وہ تو “نباتیان” تھے۔ اور انہیں اسی نام سے ہیروڈٹس نے بھی لکھا ہے۔ تو صاف ظاہر ہے کہ “ڈی اورڈس” جس قوم کا نام لے رہے ہیں وہ پترا کی رہنے والی نہیں ہے۔” ڈکشنری آف گریک اینڈ رومن جیو گرافی” میں “ویلم سمتھ” نے ان باشندوں کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
. BANIZOMENES a maritime tribe of the western coast of Arabia, towards the north of the Red Sea, situated next to the country of the Nabataei.
اور اسکے بعد اس نے پھر “سکولس” کا حوالہ دے کر ساری بات کو واضح کیا ہے اور یہ بات بہت واضح کردیتی ہے کہ اصل میں یہ سکولس جسکی طرف اشارہ کر رہا تھا وہ پترا نہی مکہ ہی تھا۔
اس پر “ایڈورڈ گبن” ایک اور مورخ کی گواہی میری بات کو مزید تقویت دیتی ہے وہ لکھتے ہیں:
The genuine antiquity of “Caaba” ascends beyond the Christian era: in describing the coast of the Red sea the Greek historian “Diodorus” has remarked, between the Thamudites and the Sabeans, a famous temple, whose superior sanctity was revered by all the Arabians; the linen or silken veil, which is annually renewed by the Turkish emperor, was first offered by the Homerites, who reigned seven hundred years before the time of Mohammad.
“— Edward Gibbon, Decline And Fall Of The Roman Empire, Volume V, pp. 223–24”
رہی بات “بکا” کی، تو بکا کی وجہ تسمیہ جو صاحب تحریر نے بیان کی ہے وہ انتہائی ناقص ہے۔ “عبدالستار غوری” صاحب نے اس پر ایک لمبی بحث کردی ہے کہ بکا کی وجہ تسمیہ کیا تھا۔ اسمیں ایک وجہ اسکا دو پہاڑوں کے درمیان ہونا بھی ہے۔
عربی زبان کی ایک مشہور لغت ’لسان العرب‘ میں اس کی وضاحت اس طرح کی گئی ہے:
قال یعقوب: بَکَّۃُ ما بین جبلی مَکَّۃ لأن الناس یبکُّ بعضہم بعضًا فی الطواف أی یَزْحَمُ؛ (…) وقیل: بَکۃ اسم بطن مَکّۃ سمیت بذلک لازدحام الناس. وفی حدیث مجاہد: من أسماء مَکّۃَ بَکّۃُ، قیل: بَکّۃُ موضع البیت ومکۃُ سائر البلد، وقیل: ہما اسما البلدۃ، والباء والمیم یتعاقبان.۴۷
یعقوب کہتا ہے: بَکَّہ وہ ہے جو مَکّے کے دوپہاڑوں کے درمیان واقع ہے، کیونکہ لوگ طواف کے دوران میں یہاں ایک دوسرے کو کچل دیتے تھے یا یہاں بہت زیادہ ہجوم ہو جاتا تھا ۔(…)۔ کہا جاتا ہے کہ بَکَّہ اندرون مَکّہ کا نام ہے اور اسے یہ نام لوگوں کی وہاں بہت بھیڑ ہو جانے کی وجہ سے دیا گیا تھا۔ مجاہد کی روایت میں بیان کیا گیا ہے ’بَکَّہ مَکّہ کے ناموں میں سے ہے‘ اور کہا جاتا ہے: ’بکّہ خانۂ خدا کا محل وقوع ہے اور مکّہ پورے شہر کا نام ہے۔‘ یہ بھی کہا گیا ہے [بَکَّہ اور مَکّہ] دونوں ہی اس شہر کے نام ہیں اور’ب‘ اور’م‘ [حروفِ ابجد] ایک دوسرے کی جگہ آتے ہیں۔
انسائیکلو پیڈیا برطانیہ ان الفاظ میں اسے بیان کرتا ہے:
before the rise of Islam it was revered as a sacred sanctuary and was a site of pilgrimage.
چونکہ وہاں فاضل دوست نے قران کی آیات اور احادیث بیان نہیں کیں اسلئے میں ان آیات اور احادیث کو بیان کرنا درست نہی سمجھتا۔ رہی بات مساجد کی تو یہ وہ مساجد ہیں جو مدینہ میں ہیں یا طائف میں ہیں۔ ان مساجد کے قبلہ کے تعین میں جس چیز کو بطور ثبوت ڈین گبسن نے پیش کیا ہے وہ کچھ پرانے نقشہ جات ہیں جنکے ماخذ کا مجھے علم نہیں۔ لیکن ا اس دور میں اونٹوں پر ہزاروں میل کا سفر کرنے کے بعد کسی دوسرے علاقے میں بنائی جانے والی مسجد کو آج بیٹھ کر بطور ثبوت پیش کیا جارہا ہے۔ اس ثبوت پر صرف ماتم کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ جب نماز سورج کے رخ کو دیکھ کر پڑھی جاتی تھی، تب قبلہ کے تعین میں غلطی ہونا بہت عام بات ہے۔ یعنی اگر تو وہ جدید آلات کی مدد سے تعین کی گیا ہو تو مانا جاسکتا ہے کہ عین سیدھ میں مکہ کو تھوڑی سائڈ پر چھوڑ کر پترا کو قبلہ بنایا گیا ہے۔ لیکن اگر عقل کام کرتی ہو تو پتہ چلتا ہے کہ مساجد کا رخ بلکل درست نہیں بلکہ اسمیں غلطی ہوئی ہے۔
“اے جے ڈیوس” نے اس پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے :
” In short, within the margin of error that mosques could be oriented at the time, there is no such pattern as the author claims.
اسکے بعد انہوں نے جتنی باتیں کی وہ سب ایک جاسوسی ناول ہی تھا، جس پر انہیں داد دی جاسکتی ہے لیکن حقائق کو ایسے نہیں پیش کیا جاتا جیسے پیش کیا گیا ہے۔ میں نے ان تمام لوگوں کو جنہیں بطور تائید ڈین گبسن صاحب نے اور انکے اردو مترجم نے پیش کیا تھا چھوڑ دیا تھا تا کہ تحریر کے آخر میں اس پر کلام کیا جاسکے۔ ڈین گبسن کے کام کو جن لوگوں نے دوبارہ دیکھا ہے ان میں سے ایک دو کے تاثرات کیا ہیں وہ خود دیکھ لیں:
پروفیسر “مائکیل لیکر” نے دو ہزار چودہ میں سائنٹفک میگزین میں ان الفاظ میں اس پر تبصرہ کیا ہے:
: “This book’s imaginative writing may have its followers, perhaps even in academic circles. But the study of early Islamic history is better served by small steps, one at a time.”
“اے جے ڈیوس” تنقید کرتے ہوئے کہتا ہے:
Thus, would Gibson have been just a little bit more careful, or had his work been reviewed by an alert peer, it would have become clear that the evidence provides no grounds to conclude that Petra had a play in Islam. Quite in contrary, one can make a confident case that Petra has nothing to do with the emergence of Islam.
پروفیسر “ڈینل سی” نے “سلک روڈ” میں اس پر تنقید کی اور اسکی کئی غلطیوں کی نشاندہی کی۔
اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ڈین گبسن کی تحقیق اور جس انداز میں اسے مترجم نے پیش کیا اسمیں کتنا دم ہے۔ جبکہ ٹالمی اسکا ذکر کر چکا ہے اور اسکے بعد اسکی تصدیق سکولس، گبن اور ایسے کئی مورخین کرچکے ہیں۔ ھذا ما عندی والعلم عنداللہ
What is Ghamidi's Counter Narrative
غامدی صاحب کا فکر ہمارے علمی حلقوں میں آج کل کثرت سے زیربحث ہے۔ اس بات کے قطع نظر
اس کے کہ کون صحیح ہے اور کون غلط، یہ بات بالکل واضح ہے کہ غامدی صاحب ہمارے پہلے
سے قائم مذہبی فکر کو چیلنج کیا ہے۔ ہمارے رائج الوقت فرقوں کے رہنما اپنی دانست
میں دین کی تعبیرات کو مکمل کرکے بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ان کو یہ فکری چیلنج درپیش
آگیا اور چونکہ وہ اس کے لیے تیار نہیں تھے لہذا برا بھلا کہنے کے علاوہ اور کیا
کرسکتے ہیں۔ غامدی صاحب چونکہ پورے دین کو زیر بحث لاتے ہیں اس لیے اس چیلنج کی زد
میں ہر وہ مکتبہ
فکر آگیا ہے جن کا فکر جو ان کے خیال میں کسی طرح کسی خالصتا اسلامی فکر سے ہم
آہنگ نہیں ہے۔
سوچ کا یہ انداز کوئی ایسی نئی چیز نہیں کہ جو صرف غامدی صاحب سے مخصوص ہے. ہر دور میں ایسے مفکرین آتے رہتے ہیں جو پہلے سے قائم نظریات کو چیلنج کرتے ہیں۔ چاہے وہ فلسفہ ہو یا سائنس، یا دینی فکر یا فقہ۔ دیکھا جائے تو اصل میں علوم میں ترقی ایسے ہی ہوتی ہے۔ اس سوچ سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہوتی ہے کو آیا یہ نئی فکر اپنے اندر دلائل میں کوئی وزن بھی رکھتی ہے۔
جب کوئی نئی فکر سامنے آتی ہے تو پہلی فکر والے ایسے ہی
مزاحمت کرتے ہیں ایسا ہر دور میں ہم دیکھتے رہے ہیں۔ پہلے فلسفی تھیلز سے لے کر آئنسٹائن تک ہر دور نے
لوگوں نے ا کے پرانی سوچوں کو چیلنج کیا تو علم میں ترقی ہوئی. اگر نیوٹن ارسطو کو
چیلنج نہ کرتا اور آئن سٹائن نیوٹن کو چیلنج نہ کرتا تو سائنس کا علم اتنی ترقی نہ کرسکتا۔
ہر دور میں نئی سوچ کے حاملین کے ساتھ یہی رویہ اختیار کیا گیا۔ ابوحنیفہ کو اپنی زندگی میں کیسی مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ابن تیمیہ، کہ جن کے فتووں کی بنیاد پر بہت سے گروہوں کو ضال و مضل اور واجب القتل قرار دیا جا رہا ہے۔ انہیں حران کا زندیق تک قرار دیا گیا تھا۔
ہر دور میں نئی سوچ کے حاملین کے ساتھ یہی رویہ اختیار کیا گیا۔ ابوحنیفہ کو اپنی زندگی میں کیسی مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ابن تیمیہ، کہ جن کے فتووں کی بنیاد پر بہت سے گروہوں کو ضال و مضل اور واجب القتل قرار دیا جا رہا ہے۔ انہیں حران کا زندیق تک قرار دیا گیا تھا۔
ہمارے برصغیر میں شیخ احمد سرہندی جنہیں عرف عام میں مجدد الف ثانی کہا جاتا ہے۔ ان کے بعض مکاشفات کو بنیاد بنا کر ان کے کفر پر علمائے حجاز سے فتاوی حاصل کیے گئے تھے۔ جب سرسید پر کفر کے فتاویٰ کی بارش ہوئی تو انہوں نے مسکرا کر جواب دیا تھا کہ مجھے بہت بڑے لوگوں کی صف میں کھڑا کر دیا گیا ہے۔
یہ بات دل چسپ ہے کہ کوئی غامدی صاحب کے دلائل یا نکتہ نظر پر بحث نہیں
کرتا۔ اور کونسی گالی ہے جو ان کو نہیں دی گئی اور تسلسل سے دی جارہی ہے، ایسا بہت کم نظر آتا ہے کہ کسی نے دلیل سے ان کی بات کو رد کرنے کی جدوجہد کی ہو۔ کسی میں اتنی فکر جرات نہیں کہ غامدی صاحب کے دلائل کو جھٹلائے کہ تم یہ بات
قرآن سے غلط نکال رہے ہو وہاں تو یہ اس طرح نہیں لکھی ہوئی۔ ہر کوئی یہ کہہ رہا ہے
کہ تم یہ بحث کیوں چھیڑ رہے ہو یہ تو ہمارے امام صاحب نے فائنل کر دی تھی۔
مکالمے کی روایت کی بنیاد تو سقراط نے رکھی تھی مگر سقراط سے بہت پہلے یونان میں ایک ایسی روایت جنم لے چکی تھی جسے تنقیدی اندازِ فکر کی روایت کہا جاتا ہے اور فلسفے اور سائنس کا بھی نقطہ ء آغاز ہے۔ تھیلیز سے ارسطو تک جتنے بھی فلسفی گزرے ہیں وہ زیادہ تر استاد شاگرد تھے۔ اس دور کا امتیاز یہ ہے کہ شاگردوں نے اپنے اساتذہ سے مختلف نظریات اور فلسفہ پیش کیا۔ شاگردوں نے استاد کے خیالات و افکار کی روایت پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ استاد سے اختلاف بھی کیا، اس کے افکار کو تنقید کی کسوٹی پر جانچا، اس میں غلطیوں کی نشان دہی کی اور پھر اپنا مختلف موقف بھی بیان کیا۔ اس معاملے میں ارسطو کا یہ بیان قول فیصل کا درجہ رکھتا ہے کہ مجھے افلاطون عزیز ہے مگر صداقت عزیز تر ہے۔
ہمارے ہاں بھی یہ روایت رہی ہے کہ دین کے ماہرین ایک دوسرے سے اختلاف کرتے رہے چاہے وہ ان کے استاد ہی کیوں نہ ہوں۔ جیسے کہ امام ابو حنیفہ سے امام یوسف اور امام محمد کا اختلاف۔
علماء کو چاہیے کہ تھوڑی سی محنت کریں اور غامدی صاحب کی سوچ اور فکر میں جو غلطی نظر آتی ہے اسے واضح کریں۔
٭٭٭٭٭
Subscribe to:
Posts (Atom)
Popular Posts
-
2 1 6 Essential Elements Of Belief – ذَلِكَ الْكِتَابُ لاَ رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ Y ...
-
20 Favorite Artists and 20 Essential Tips in the latest Pastel Journal ! ...
-
Kaminey stars Priyanka Chopra and Shahid Kapoor behaved very much like a couple at the 12th Rajiv Gandhi National Awards held in Mumbai. Th...