فعل ، فاعل اور مفعول۔وحدت الوجود کی عمدہ مثال


ایک بار (مولانا رشید احمد گنگوہی نے) ارشاد فرمایا کہ ضامن علی جلال آبادی کی سہارنپور میں بہت سی رنڈیاں مرید تھیں۔ ایک بار سہارنپور میں یہ کسی رنڈی کے مکان پر ٹہرے ہوئے تھے، سب مریدنیاں اپنے میاں صاحب کی زیارت کے لئے حاضر ہوئیں مگر ایک رنڈی نہیں آئی۔ میاں صاحب بولے کہ فلانی کیوں نہیں آئی۔ رنڈیوں نے جواب دیا، میاں صاحب ہم نے اس سے بہیترا کہا چل میاں صاحب کی زیارت کو تو اس نے کہا میں بہت گناہ گار ہوں اور بہت روسیاہ ہوں، میاں صاحب کو کیا منہ دکھاؤں گی، میں زیارت کے قابل نہیں۔ میاں صاحب نے کہا، نہیں جی! تم اسے ہمارے پاس ضرور لانا۔ چنانچہ رنڈیاں اسے لیکر آئیں۔ جب وہ سامنے آئی تو میاں نے پوچھا بی تم کیوں نہیں آئی تھیں؟ اس نے کہا، حضرت جی روسیائی کی وجہ سے زیارت کو آتے ہوئے شرماتی ہوں۔ میاں صاحب بولے بی تم کیوں شرماتی ہو ’’کرنے والا کون اور کرانے والا کون وہی تو ہے‘‘ رنڈی یہ سن کر آگ بگولا ہوگئی اور خفا ہو کر بولی لاحول ولا قوۃ ، اگرچہ روسیا و گناہگار ہوں مگر ایسے پیر کے منہ پر پیشاب بھی نہیں کرتی‘‘ اس کے بعد میاں صاحب تو شرمندہ ہوکر رہ گئے اور وہ اٹھ کر چل دی۔ ( تذکرۃ الرشید ، ج ۲، ص ۲۴۲

Popular Posts