What is Ghamidi's Counter Narrative

غامدی صاحب کا فکر ہمارے علمی حلقوں میں آج کل کثرت سے زیربحث ہے۔ اس بات کے قطع نظر اس کے کہ کون صحیح ہے اور کون غلط، یہ بات بالکل واضح ہے کہ غامدی صاحب ہمارے پہلے سے قائم مذہبی فکر کو چیلنج کیا ہے۔ ہمارے رائج الوقت فرقوں کے رہنما اپنی دانست میں دین کی تعبیرات کو مکمل کرکے بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ان کو یہ فکری چیلنج درپیش آگیا اور چونکہ وہ اس کے لیے تیار نہیں تھے لہذا برا بھلا کہنے کے علاوہ اور کیا کرسکتے ہیں۔ غامدی صاحب چونکہ پورے دین کو زیر بحث لاتے ہیں اس لیے اس چیلنج کی زد میں ہر وہ مکتبہ فکر آگیا ہے جن کا فکر جو ان کے خیال میں کسی طرح کسی خالصتا اسلامی فکر سے ہم آہنگ نہیں ہے۔

سوچ کا یہ انداز کوئی ایسی نئی چیز نہیں کہ جو صرف غامدی صاحب سے مخصوص ہے. ہر دور میں ایسے مفکرین آتے رہتے ہیں جو پہلے سے قائم نظریات کو چیلنج کرتے ہیں۔ چاہے وہ فلسفہ ہو یا سائنس، یا دینی فکر یا فقہ۔ دیکھا جائے تو اصل میں علوم میں ترقی ایسے ہی ہوتی ہے۔ اس سوچ سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہوتی ہے کو آیا یہ نئی فکر اپنے اندر دلائل میں کوئی وزن بھی رکھتی ہے۔

جب کوئی نئی فکر سامنے آتی ہے تو پہلی فکر والے ایسے ہی مزاحمت کرتے ہیں ایسا ہر دور میں ہم دیکھتے رہے ہیں۔ پہلے  فلسفی تھیلز سے لے کر آئنسٹائن تک ہر دور نے لوگوں نے ا کے پرانی سوچوں کو چیلنج کیا تو علم میں ترقی ہوئی. اگر نیوٹن ارسطو کو چیلنج نہ کرتا اور آئن سٹائن نیوٹن کو چیلنج نہ کرتا  تو سائنس کا علم اتنی ترقی نہ کرسکتا۔ 

ہر دور میں نئی سوچ کے حاملین کے ساتھ یہی رویہ اختیار کیا گیا۔ ابوحنیفہ کو اپنی زندگی میں کیسی مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ابن تیمیہ، کہ جن کے فتووں کی بنیاد پر بہت سے گروہوں کو ضال و مضل اور واجب القتل قرار دیا جا رہا ہے۔ انہیں حران کا زندیق تک قرار دیا گیا تھا۔

ہمارے برصغیر میں شیخ احمد سرہندی جنہیں عرف عام میں مجدد الف ثانی کہا جاتا ہے۔ ان کے بعض مکاشفات کو بنیاد بنا کر ان کے کفر پر علمائے حجاز سے فتاوی حاصل کیے گئے تھے۔ جب سرسید پر کفر کے فتاویٰ کی بارش ہوئی تو انہوں نے مسکرا کر جواب دیا تھا کہ مجھے بہت بڑے لوگوں کی صف میں کھڑا کر دیا گیا ہے۔

یہ بات دل چسپ ہے کہ کوئی غامدی صاحب کے دلائل یا نکتہ نظر پر بحث نہیں کرتا۔ اور کونسی گالی ہے جو ان کو نہیں دی گئی اور تسلسل سے دی جارہی ہے، ایسا بہت کم نظر آتا ہے کہ کسی نے دلیل سے ان کی بات کو رد کرنے کی جدوجہد کی ہو۔ کسی میں اتنی فکر جرات نہیں کہ غامدی صاحب کے دلائل کو جھٹلائے کہ تم یہ بات قرآن سے غلط نکال رہے ہو وہاں تو یہ اس طرح نہیں لکھی ہوئی۔ ہر کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ تم یہ بحث کیوں چھیڑ رہے ہو یہ تو ہمارے امام صاحب نے فائنل کر دی تھی۔

مکالمے کی روایت کی بنیاد تو سقراط نے رکھی تھی مگر سقراط سے بہت پہلے یونان میں ایک ایسی روایت جنم لے چکی تھی جسے تنقیدی اندازِ فکر کی روایت کہا جاتا ہے اور فلسفے اور سائنس کا بھی نقطہ ء آغاز ہے۔ تھیلیز سے ارسطو تک جتنے بھی فلسفی گزرے ہیں وہ زیادہ تر استاد شاگرد تھے۔ اس دور کا امتیاز یہ ہے کہ شاگردوں نے اپنے اساتذہ سے مختلف نظریات اور فلسفہ پیش کیا۔ شاگردوں نے استاد کے خیالات و افکار کی روایت پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ استاد سے اختلاف بھی کیا، اس کے افکار کو تنقید کی کسوٹی پر جانچا، اس میں غلطیوں کی نشان دہی کی اور پھر اپنا مختلف موقف بھی بیان کیا۔ اس معاملے میں ارسطو کا یہ بیان قول فیصل کا درجہ رکھتا ہے کہ مجھے افلاطون عزیز ہے مگر صداقت عزیز تر ہے۔

ہمارے ہاں بھی یہ روایت  رہی ہے کہ دین کے ماہرین ایک دوسرے سے اختلاف کرتے رہے چاہے وہ ان کے استاد ہی کیوں نہ ہوں۔ جیسے کہ امام ابو حنیفہ سے امام یوسف اور امام محمد کا اختلاف۔

علماء کو چاہیے کہ تھوڑی سی محنت کریں اور غامدی صاحب کی سوچ اور فکر میں جو غلطی نظر آتی ہے اسے واضح کریں۔

٭٭٭٭٭

Popular Posts