Naswar-Introduction-نسوار کا تعارف


نسوار کی تاریخی پس منظر

اکثر سمجھا جاتا ہے کہ نسوار پشتونوں ثقافت ہے یا اسے پختون قوم نےایجاد
کیا۔ بتایا جاتا ہے کہ نسوار کا آغاز امریکا سے ہوا اور 17 ویں صدی میں
جب یورپ کے مغربی علاقوں میں سگریٹ پر پابندی لگی تو یہاں بھی لوگوں نے
متبادل کے طور پر نسوار کا استعمال شروع کیا اور کچھ ہی عرصے میں یہاں
نسوار کافی عام ہوگئی۔ پاکستان کے علاوہ جنوبی اور وسطی ایشیا کے ممالک
میں بھی پاؤڈر تمباکو کا استعمال عام ہے۔ ان ممالک میں افغانستان، انڈیا،
ایران، قازقستان، روس، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان شامل ہیں۔

1496-1493میں کولمبس کی جانب سے امریکہ دریافت کے سفر کے دوران ریمن پین
نامی راہب نے اسے ایجاد کیا۔ ریاست ہائے متحدہ امریکا اور کینیڈا میں
ہونٹ کے نیچے رکھ کر استعمال کرنے سے ہوئی۔کولمبس کے ساتھیوں نے یہاں
دیکھا کہ مقامی ریڈ انڈینز ایک پودے کے پتوں کا رول بنا کر اس کے اگلے
سرےکو سلگا کر اس کا دھواں اندر کھینچتے ہیں اور یوں کولمبس نے باقی دنیا
کو بھی ٹوبیکو یعنی تمباکوسے متعارف کروایا۔ جب سے یہ پودا باقی دنیا میں
متعارف ہوا حضرت انسان ہر ہر طریقے سے اس کو اپنے جسم میں داخل کرنے کی
کوشش کرتے ہیں۔ سگریٹ، نسوار، پان، قوام وغیرہ۔

17 ویں صدی میں اس کی مصنوعات کے خلاف کچھ حلقوں کی جانب سے تحریک اٹھی
اور پوپ اربن ہفتم کی جانب سے خریداری پر دھمکیاں دیں گئیں۔ روس میں اس
کا استعمال 1643میں زار مائیکل کی جانب سے کیا گیا ۔ ناک سے استعمال کی
وجہ سے اس پر سزا مقرر کی گئی۔ فرانس میں بادشاہ لوئیس XIIIنے اس پر حد
مقرر کی جبکہ چین میں1638میں پوری طرح نسوار کی مصنوعات پھیل گئی۔

18ویں صدی تک نسوار کو پسند کرنے والوں میں نپولین بونا پاٹ ، کنگ
جارجIII کی ملکہ شارلٹ اور پوپ بینیڈکٹ سمیت اشرافیہ اور ممتاز صارفین
میں یہ رائج ہوچکا تھا۔

18 ویں صدی میں انگلش ڈاکٹر جان ہل نے نسوار کی کثرت استعمال سے کینسر کا
خدشہ ظاہر کیا۔ امریکہ میں پہلا وفاقی ٹیکس 1794ء میں اس لیے لگا کیونکہ
اسیے عیش و عشرت کی نشانی سمجھا جاتا تھا۔اٹھارویں صدی میں جینٹل ویمن
نامی میگزین میں پرتگالی نسوار کی اقسام اور استعمال کے مشورے شائع
ہوئے۔افریقہ کے کچھ علاقوں میں یورپی ممالک کے افراد کی وجہ سے پھیلی اور
دیہاتیوں نے ناک کے ذریعے استعمال کیا ۔ہندوستان میں غیر ملکی کمپنیوں کی
آمد کے ساتھ یہ مصنوعات بھی متعارف ہوئی اور اس کا استعمال پاک و ہند میں
پھیل گیا۔

نسوار کا تعارف

نسوار تمباکو سے بنی ہوئی گہرے سبز رنگ کی ہلکی نشہ آور چیز ہے۔ نسوار
کھانے والا ایک چٹکی کے برابر اپنے زیریں لب اور دانتوں کے درمیان دبا
لیتا ہےاور تمباکو کے نشے کا سرور لیتا ہے۔ نسوار تمباکو کے پتوں کو
باریک پیس کر اور پھر اس میں حسب منشا چونا ملا کر تیار کی جاتی ہے۔
نسوار خور اسے ایک ڈبیا میں یا پڑیا میں ڈال کر جیب میں رکھتا ہے اور حسب
خواہش منہ میں ڈالتا رہتا ہے۔ بنوں کی نسوار مشہور ہے جبکہ چارسدہ اور
صوابی میں بہترین تمباکو کاشت ہوتی ہے۔

آپ نکوٹین کسی بھی طریقے سگریٹ، یا نسوار یا پان کا تمباکو وغیرہ سے
استعمال کریں، خون میں ملنے کے بعد چند سیکنڈ کے اندر اندر یہ نکوٹین آپ
کے دماغ کے اعصاب تک پہنچ جاتی ہے. نکوٹین کے اثر سے ہمارا دماغ ڈوپامائن
(dopamine) نام کا ہارمون خارج کرتا ہے جس سے ہمیں بہت فرحت اور شادمانی
کا احساس ہوتا ہے۔ جلد ہی دماغ کو نکوٹین کی ایسی لت لگ جاتی ہے کہ آپ
بار بار اس کو لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یہ لت کسی منشیات کی لت، مثلاً
ہیروئن جیسی ہوتی ہے۔ نکوٹین کا نشہ آپ کے رویّے کو کنٹرول کرنے لگتا ہے۔
نہ لینے کی صورت میں جسم ٹوٹنا، چڑچڑا پن، کمزوری، بے چینی اور دیگر کئی
مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔

نسوار کی تیاری

سبز نسوار تیار کرنے کے لیے تمباکو کے پتوں کو سائے میں خشک کیا جاتا ہے
جبکہ کالی نسوار کے لیے تمباکو کے پتوں کو دھوپ میں سکھایا جاتا ہے۔
سونگھنے والی لال نسوار بھی ہوتی ہے۔ مقصد سب کا ایک ہی ہے یعنی کہ کسی
بھی طریقے سے نکوٹین کو خون اور ماغ تک پہنچانا۔

نسوار خور اسے ایک ڈبی میں یا پڑیا میں ڈال کر جیب میں رکھتا ہے اور حسب
خواہش منہ میں ڈالتا رہتا ہے۔عام طور پر نسوار کو صرف پختونوں سے منسوب
کیا جاتا ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ تمباکو سے تیار ہونے والی دیگر اشیا
کی قیمتوں میں اضافے کے بعد آج سندھی، پنجابی اور مہاجر بھی خوب نسوار
کھاتے ہیں۔جبکہ پاکستان کے دیگر صوبوں میں بھی اس کا استعمال کافی ہے۔ اس
کے علاوہ نسوار افغانستان، پاکستان، بھارت، ایران، تاجکستان، ترکمانستان
اور کرغیزستان میں پیدا ہوتی ہے۔

Popular Posts